دبستان لکھنو
آتش اور شاعر ناسخ دونوں ہم عصر شاعر تھے۔ دونوں کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ ان کے کلام میں سادگی ہے جبکہ ناسخ جا کلام رعایت لفظی کی مثال پیش کرتا ہے۔ آپ کے کلام میں فکری عناصر ہیں جبکہ ان کا کلام بالعموم فکر سے خالی ہے۔ چنانچہ یہ کہا گیا ہے کہ ناسخ نے محض زبان کو شاعری سمجھ لیا تھا اور آتش زبان کے علاوہ شاعری کے مواد کو بھی پیش نظر رکھتے تھے۔ چونکہ لکھنو میں ایک گروہ ان کی شاعری کا دلدادہ تھا اور دو سرا آتش کو کمتر سمجھتا تھا اس لیے یہ بات بھی زیر غور آتی ہے کہ لکھنؤ کا نمائندہ شاعر آتش ہے یا ناسخ ہے
ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں عام خیال ہے کہ لکھنؤ شاعری کے نمائنده خاص امام بخش ناسخ ہیں مگر یہ اس صورت میں کہ ہم لکھنوی شاعری کو ایک ایسی اصطلاح قرار دے لیں جس کے معنی ہوں حد درجہ معنوگی اور کھوکھلی ان کا کہنا ہے کہ آتش کو لکھنؤ کا نمائندہ شاعر سمجھنا چاہئے جن کی شاعری میں لکھنو کے مزاج و معاشرہ کے روشن اور اتنے عناصر اپنی جملہ لطافتوں میں سمٹ کر آگئے ہیں۔ انہوں نے لکھنؤ کے عام مضامین کو لے کر ان کو مہذب بے میں " اور فنکارانہ انداز میں ایک نفیس چیز بنا کر پیش کیا۔ وہ حقیقی شاعری کا دامن نہیں چھوڑتے۔ چونکہ ان کا بہترین کلام کے انسانی جذبات و احساسات سے معمور ہے اس لیے وہ موثر ہے لیکن فی تکمیل میں ناسخ کے بھی مرہون منت ہیں۔ یہ اس طور پر کہ اصلاح زبان کی تحریک کے اثر سے اس وقت لکھنؤ کی زبان میں بو تراش خراش ہو رہی تھی جو سلاست و روانی بو چستی و صفائی، جو نکھار پیدا ہو رہا تھا اس سے آتش نے خاطر خواہ فائده اٹھایا ہے۔ رام بابو سکسینہ بھی آتش کو ناسخ پر فوقیت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ بندش کی چستی الفاظ کی حلاوت اور مضمون کی ندی میں آئی کو ان پر فازت حاصل ہے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور آل احمد سرور بھی آتی کو نان پر فوقیت دیتے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دبستان لکھنو کا نمائندہ شاعر ناسخ نہیں آتش ہے۔
ڈاکٹر عبد اللیث صدیقی اور ال احمد سرور بھی آتش کو دبستان لکھنو کا نمائندہ شاعر قرار دیتے ہیں۔