اقبال کا نظم طلوع اسلام
(بانگ درا کی طویل نظموں میں طلوع اسلام آخری نظم ہے، اور یہ ام قابل لحاظ ہے کہ یہ خضر راہ کے فورا بعد ضبط تحریر میں لائی گئی ہے ۔ دونوں نظموں کے مابین اختلاف بھی ہے اور مماثلت بھی ۔ خضر راہ'' اُس وقت لکھی گئی جب کہ ہندوستان اور بیرونِ ہند مسلمان ایک عام انضطراب اور کشمکش سے دو چار تھے اور سیاسی ، معاشی اور معاشرتی و تہذیبی ہر سطح پر ان کے درمیان انحطاط اور انتشار کا دور دورہ تھا۔ خضر راہ کے افتتاحیہ بند میں جو نظر کشی کی گئی ہے وہ اپنی ندرت اور ضاعی کے باوصف محض منظر کشی نہیں رکھتی ہے،
بلکہ ایک اشارتی منشا بھی رکھتی ہے، کیونکہ اس کے ذریعے اقبال نے قاری اور خضر کے درمیان ایک نقطہ اتصال قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد کے بندوں میں خضر کی زبان سے اُن مسائل کی گرہ کشائی کرائی ہے جو مسلمانوں کو ان کی قومی زندگی میں درپیش تھے۔ اس نظم میں منظر کشی، بیانیہ قوت، فلسفہ طرازی اور مسلمانوں کو عمل پر اکسانے کا جذبہ سب مخلوط نظر آتے ہیں ۔اقبال کا مشہور نظم" طلوع اسلام کا پس منظر اس کی نسبت کسی قدر مختلف ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب دول یورپ، ترکی کے حصے بخرے کرنے پر تلی ہوئی تھیں وہاں کی سرزمین سے اپنی عزم وارادہ کے ایک مرد خود آگاہ نے اٹھ کر اس کے آن مردہ میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور انگریزوں کو وہاں سے اپنے تسلط و اقتدار کا سامان سمیٹنے پر مجبور جانا پڑا این سلفی کمال پاشا کی محیر العقول فتح و نصرت ، ترکان احرار کی بے جگری اور انگریزوں کے خلاف ان کی کامیابی ایک ایسا مژدہ جانفزا تھا جو نہ صرف عالم اسلامی بلکہ یہ نظم تمام اقوام ایشیا کے لیے بھی ایک نیک شگون کی حیثیت رکھتا تھا۔
ان کے دلوں پر عرصے سے قنوطیت، بدولی اور مایوی کے تھے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، وہ یکا یک چھٹنے شروع ہو گئے۔ نظم " طلوع اسلام ایک ترانہ سرمدی، ایک نغمہ اہتزار اور ایک پیغمبرانہ بشارت یعنی خوش خبری کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلے بند کا آغاز کائنات فطرت کے مشاہدے پر بنی ایک اشارے سے ہوتا ہے جو بدلے ہوئے حالات سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے۔