نظم خضر راہ کا فکری جائزہ
زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے مختلف مسائل کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اپنی مایہ ناز نظم خضر راہ میں خضر کے روایتی کردار کا سہارا لیا ہے۔
خضر کی شخصیت خضر کی شخصیت کے بارے میں تاریخی اور ادبی روایات مستند نہیں اور ان کی روشنی میں کسی واضح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ قرآن وحدیث میں خضر کا تذکرہ موجود ہے اور معلومات کا یہ ذریعہ زیادہ یقینی ہمستند اور معتبر ہے۔
قرآن پاک کی (سورۃ الکہف) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ " اور وہاں اُنہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا۔ اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ موسی نے اس سے کہا: "کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تا کہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ”آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آپ اس پر صبر بھی کیسے کر سکتے ہیں؟“ موسی نے کہا: انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا ۔‘ اس نے کہا: اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں ، جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔“ اب وہ دونوں روانہ ہوئے ۔
یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسٹی نے کہا: "آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تا کہ سب کشتی والوں کو ڈبود ہیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی۔“ اس نے کہا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ؟ موسی نے کہا: پھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذراختی سے کام نہ لیں۔ پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کر دیا۔ موق نے کہا: ” آپ نے بہت ہی برا کیا۔ اس نے کہا: میں نے تم سے کہا نہ تھا۔
کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ؟ موسٹی نے کہا: اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں ۔ لیجیے ، اب تو میری طرف سے آپ کو عذدریل گیا۔ پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی ۔ اس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کردیا۔
موسی نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے ۔ " اس نے کہا: " بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں ، جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ دو چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں۔ کیونکہ آگے ایک بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر شتی کوز بر دتی چھین لیتا تھا۔ رباد دولا کا تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔
اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو تیم ملڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔
یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے ۔ " ( سورة الكهف: ۶۰-۸۲ ترجمه از تفہیم القرآن) اس واقعے میں محض ایک بندے کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام نہیں بتایا گیا۔ مگر معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام خضر ہے۔ قرآن پاک کے بیان کردہ مندرجہ بالا واقعے کے مطابق حضرت خضر کے بارے میں یہ اضاحت نہیں ملتی کہ وہ انسان تھے یا کوئی غیر انسانی مخلوق ؟ البتہ یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل و دانش کی غیر معمولی قوت و صلاحیت عنایت کی تھی۔ اس لیے حضرت موسیٰ بھی دانش کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچے ۔ علما کا رجحان یہ ہے کہ خضر ایک غیر انسانی شخصیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے توریش کرد و امور وافعال کی انجام دہی کے لیے مقرر ہے۔ بھولے بھٹکوں کی راہنمائی بھی ان ممرات ایک کام ہو سکتا ہے۔