مولانا حالی کی مسدس مدوجذر اسلام
مولانا حالی کی مسدس مدوجزر اسلام، اردو شاعری کی تاریخ میں فکر وفن کے اعتبار سے اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور شاہکار نظم ہے۔ یہ نظم جو مسدس حالی کے نام سے معروف ہے، پہلی بار ۱۸۷۹ء میں چھپ کر منظر عام پر آئی۔
مدوجذر لفظ معنی میں سمندر کے اتار چڑھاؤ کو کہتے ہیں۔ چونکہ مولانا حالی نے اس نظم میں امت مسلمہ کے عروج وزوال کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس لیے اس نظم کا یہ عنوان اپنے اندر خاص معنویت لیے ہوئے ہے۔ افلاطون کے برعکس، حالی نہ صرف شاعری کی افادیت اور تاخیر کے قائل تھے، بلکہ اس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی ظہور پذیری کے قائل تھے۔ اس لیے انہوں نے مسلمانان ہند میں شعور بیدار کرنے اور عظمت رفتہ کے حصول کیلئے حرکت و عمل پر آمادہ کرنے کے لیے ایک ایسی بے مثال نظم تخلیق کی جو نہ صرف اپنے مخصوص دور کے تناظر میں مینارہ روشنی دکھائی دیتی ہے بلکہ آنے والے زمانوں کی تاریک راتوں میں بھی امید درجائیت کی قندیلیں فروزاں کرتی ہے۔
اردو ادب کا مشہور شاعر مولانا الطاف حسین حالی نے اس نظم میں مسلمانوں کے درخشندہ و تابندہ اور شاندار ماضی کا حال کی زبوں حالی اور پسماندگی سے تقابل کیا ہے۔ مسدس کے دیباچے میں حالی لکھتے ہیں: اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے جو ظہور اسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا ہے۔ پھر کو کب اسلام کا طلوع ہونا، اور نبی امی کی تعلیم سے اس ریگستان کا دفعتا سرسبز و شاداب ہو جانا اور اس ابر رحمت کا اُمت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہرا بھرا چھو جانا اور مسلمانوں کا دینی و دنیاوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا ، بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے تنزل کا حال لکھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں آ کر وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے ؟"
حالی نے اپنی نظموں میں ڈرامائی انداز اختیار کیا ہے۔ ابتدا میں اپنے عہد کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی ہے اور اس کے بعد جدید مہارت کا استعمال کرتے ہوئے عرب کے زمانہ جاہلیت کے مناظر پیش کیے ہیں، جب آفتاب اسلام طلوع نہ ہوا تھا اور سرزمین عرب علم و آگہی کی کرنوں سے محروم تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی۔