باغ و بہار کا تنقیدی جائزہ
باغ و بہار میرامن اصلی نام میر امان اللہ کی طبع زاد تصنیف نہیں۔ بلکہ بیتسین کی نو مریح سے ماخوذ ہے جو فاری قصه چهار درویش کا آزادتر جمہ ہے۔ میرامن نے ڈاکٹر گلکر ائسٹ کی فرمائش پر قصہ چہار در دلیش کو سادہ اور سلیس اردو میں لکھا۔
باغ و بہار ایک داستان ہے اور اس میں داستان کی اچھائیاں اور خرابیاں موجود ہیں وہی عام داستانوں جیسی پراسراریت اور مہم جوئی اس میں بھی پائی جاتی ہے ۔ ہیرو جنگل جنگل بھٹکتا اور صحراؤں کی خاک چھانتا ہوا گو ہرمقصود پا لینے میں کا میاب ہو جا تا ہے ۔ مافوق الفطرت عناصر اورنی طاقتوں کی کارفرمائی ہیرو کی کمر در یوں پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ کردار نگاری میں بھی وہی مثالیت پسندی ہے جو عام داستانوں کا خاصہ ہے البتہ نسوانی کرداروں میں کسی قد رزند گی کی حرارت اور نشو ونما کا ثبوت ملتا ہے ۔مرد
کرداروں کی طرح عشق و محبت ان کی فطرت میں بھی داخل ہے اور جنس ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے لیکن یا پنی محبت میں انتہا پسند نہیں ہیں ۔ وہ اپنے جذبات پر قابور کھتے ہیں اور جب ان کا نسوانی پندار مجروح ہوتا ہے تو وہ اپنی تو ہین کا بدلہ بھی لینا چاہتے ہیں ۔ بظاہر باغ و بہار وقت گذاری اور دل بہلانے کے لیے لکھی گئی ایک داستان ہے لیکن اس
میں اس عہد کی روح سمٹ آئی ہے ۔
ذکر دنیا کے کسی حصہ کا ہو دبلی کے گلی کوچوں اور جیتے جاگتے انسانوں کی پر چھائیاں موجود رہتی ہیں اس میں جتنے واقعات بیان کئے گئے ہیں یا کر داروں سے جتنی با تیں کہلائی گئی ہیں ان میں ۔ دہلوی تہذیب و معاشرت کی گہری چاپ ہے ۔اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے یہ کتاب اپنے عہد کی ایک
معاشرتی دستاویز بن گئی ہے ۔
باغ و بہار کی عظمت و مقبولیت کا انحصار اس کے اسلوب نگارش پر ہے ۔اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے وہ زندہ جاوید ہے اور اس کا شماراردو کی ان کلاسیکی کتابوں میں ہوتا ہے جن سے اردوزبان کو وسیلہ اظہار بنے میں بدلی ہے ۔ باغ بیار کی اس خولی کا اعتراف پرانے اور نئے تمام ہی نقادوں نے کیا ہے۔
باغ و بہار کی جو خصوصیت ہمیں سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ اس کا عوامی اب و لیے اورساوگی وسلاست ہے اس کی اہمیت اس وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے کہ اس زمانے کے عام مداق میں فارسیت رچی بسی ہوئی تھی اور لوگ کنع اورملی عبارت تشبیهات داستعارات اور تنگینی کام پر جان دیتے تھے ۔ میرامن نے اپنے زمانے کی روایت سے بغاوت کر کے ایسے لب ولہجہ میں اپنی بات کہی جو کسی مخصوص طبقے کے بجاۓ سب کے لئے قابل فہم تھا اور جس میں پائی جانے والی سلاست ، روانی اور جامعیت اردونثر میں ایک صحت مند اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرامن کے اسلوب کی سادگی کا یکمال ہے کہ اس میں کہیں روکھا پن اور سپاٹ پن پید انہیں ہونے پاتا اور اکثر سادگی کے حدود سے نکل کر خوش بیانی کے حدود میں داخل ہو جاتی ہے اور سادگی پر کاری بن جاتی ہے انھیں خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر احسن فاروقی نے باغ و بہار کی زبان کوتاول کی زبان سے قریب تر قراردیا ہے ۔ روز مرہ اور محاورے کے استعمال میں بھی موقع پل کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ فاری الفاظ کی جبکہ مقامی اور ہندی الفاظ زیادہ استعمال کئے ہیں ۔کہیں کہیں ایسے الفاظ بھی آگئے ہیں جو خالص بول چال کے ہیں۔ عام تحریر میں کتر استعمال ہوتے ہیں تبھاڑ لینا( تلاش کرنا نہرتا (جھکنا) بجد (بند) مذاخ ( مذاق ) وغیرہ اسی قبیل کے الفاظ میں لیکن یہ الفاظ اتنے فطری انداز میں استعمال ہوئے ہیں کہ ان سے باغ و بہار کے مجموی حسن و دکشی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔
میرامن نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کی زبان کی معصومیت اور فطری پن متاثر نہ ہونے پاۓ ۔اسی طرح جہاں کہیں قافیہ آرائی کی ہے عبارت میں شعریت اور دلآویزی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ قافیہ آرائی مذاق پر گراں نہیں گزرتی اور نہ ہی اس کی وجہ سے انشاء پردازی و افسانہ وی کی دوسری خصوصیات اس کے بوجھ سے دبنے پاتی ہیں ۔
بعض نقادوں نے باغ و بہار میں متروک تصدیق کی ہے اس کتاب مشکل الفاظ اور متروک الفاظ وغیرہ کافی ملتے ہیں۔ اس کتاب میں میرامن دہلوی نے مشکل الفاظ وہ بھی عربی و فارسی کے استعمال پر گرفت کی ہے ۔ املا اور تذ کیرو تا نبیف کی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا ہے اسی طرح جمعرات کی جبکہ جمیرات ،مرضع کی جگہ مر سے‘ نے‘‘ کے بے قاعدہ استعمال اور کر کے کے بجاۓ کرکر لکھنے کا الزام رکھا ہے ۔ امراؤں ، سلاطینوں اور غر باجیسی خلاف قواعد جمع اجمع بنانے اور گز رانیاں، ہو تیاں کی شکل میں فعل کی جمع استعمال کر نے کی نشاندہی کی ہے ۔آ ج ہمیں یہ الفاظ یقیناغلط کہتے ہیں لیکن اس زمانے کی بول چال میں یہ الفاظ مروج تھے ۔ لہذا ان کے کرداروں کی زبان پر رواں ہونے کی وجہ سے خودان کے نوک قلم تک آ گئے ہیں۔