رومانوی تحریک کا کردار
بہترین فلسفی نگار روسو نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر جہاں دیکھو پابہ زنجیر دکھائی دیتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب اردو میں رومانوی رحجانات کا آغاز ہوا تو اس دور کے نوجوان طبقے کو روسو کے مذکورہ بالا تصور نے بہت متاثر کیا۔ سرسید تحریک نے مقصدیت اور افادیت کے راستے پر سفر کر کے سماجی وادبی اصلاح اور ترقی کے نئے امکانات روشن کیے مگر اس کا شدید در عمل بھی سامنے آیا اس لیے اردو ادب میں رومانوی تصورات کے فروغ کا ایک بڑا سبب سرسید تحریک کے انتہا پسندانہ انکار کار اجمل بھی قرارد یا جاسکتا ہے۔ رومانی تصورات کے حامل ادبیوں نے حال کے حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے ماضی کے دھندلکوں اور مستقبل کے خوابوں کو اہمیت دی،
انہوں نے مسلمات کو رد کر کے ایک نئی دنیا آباد کرنے کا خواب دیکھا۔ مغرب میں رومانوی تحریک اپنی طبعی عمر پوری کر چکی تھی مگر بر صغیر میں انیسویں صدی کے اوار میں تعلیمی اداروں میں جب ورڈز ورتھ گوٹرچ کمیٹس اور شیلے وغیرہ کو پڑھایا جانے لگا تو خیل اور جذبے کے رنگوں نے علی نسل کو خاص طور پر متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلوب کی ندرت ؟ لطافت اور شعریت نے بھی رومانوی رویوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، اردو کے بیشتر ناقد بن نے اسے رومانوی رجحان قرار دیا اور مغرس اسلوب میں لکھی گئی جنہ بائی تخلیقات کو مغرب میں فروغ پانے والی تحریک سے بالکل مختلف قرار دیا۔ فیگور کی شاعری اور آسکر اللہ کے تخیلاتی افسانوں نے اردو میں رومانوی رجھانا ہے کے فروغ کی راہ ہموار کی،
چنانچہ سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں کی اشاعت نے اردو افسانے کا روائی ملا جمعہ تبدیل کر کے ایک سے طرز احساس کی بنیاد رکھ دی ۔ سرعبد القادر سے ادبی مجلوں خاصی قابل ذکر ہے اور اہمیت کے حامل ہے۔
کے اجراء نے جیویں صدی کے آغاز میں رومانوی تصورات کے فروغ کے لیے با قاعدہ پلیٹ فارم مہیا کر دیا۔ ترکی میں قیام کے باعث یلدرم نے رومانوی تصورات کی خوشبو کو اپنے طرز احساس میں سمو یا اور اردو نثرکو تازگی، شادابی اور نگارگی سے روشناس کرا کے ایک پوری نسل کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ ان کے افسانے اور مضامین مخون میں شائع ہوئے تو انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ جو اردو ادب کے لیے بہترین ارتقاء تصور ہوتی ہے۔
ان کا شہرت یافتہ افسانہ "خارستان و گلستان ایک افسانوی مجموعہ ہے اگرچہ یہ ترکی ادب سے ماخوذ ہے مگر انہوں نے اپنے اسلوب کی بھر کاری سے اسے طبع زاد بنادیا ہے، ڈاکٹر سلیم اختر " فارستان و گلستان " کو اردو کا پہلا جنسی افسانہ قرار دیتے ہیں۔ یلدرم نے اس افسانے میں بنیادی جبلتوں کو موضوع بناتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ مردوزن کے رشتے کے سامنے، غیر فطری اور مصنوعی پابندیاں، ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔
افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کے اسلوب اور طرز احساس میں متاثر ہونے والوں میں نیاز فتح پوری، حجاب اختیار علی مہدی افادی، شاعر مجنوں گورکھپوری اور سجاد انصاری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ادب لطیف کی اس روایت کو ادیب شاعر مرزا ادیب نے سحرنوراد کے رومان اور صحرنوراد کے خطوط کے ذریعے آگے بڑھایا۔ اسی طرح قاضی عبد الغفار سے لیلیٰ کے خطوط میں رومانوی طرز احساس اپنی معراج پر نظر آتا ہے۔ اردو شاعروں میں رومانوی رجحان، سب سے زیاد و اختر شیرانی کے ہاں ملتا ہے۔ اردو شاعری کے افق پر جو وزن کا کر تو صدیوں سے تھا مگر اختر شیرانی نے بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی کی کھلی کھلی فضا میں بلٹی اور مہرا کی محبت کے ایسے دلکش سریلے گیت گائے کہ وہ شاعر رومان قرار پائے۔ ان کی نظم "اے عشق کہیں لے چل تو اس دور کے نوجوان طبقے کے دلوں کی دھڑکن من گی۔ اختر شیرانی نے حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرانے کی بجائے تخیل اور جذبے کی مدد سے ایک کی دنیا آباد کی جس کا ہر رنگ نوع اور زاد یہ لکھا تھا۔
علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری میں بھی رومان کے رنگ جھلکتے ہیں ۔ وہ جذبے اور وجدان کے پر لگا کر اڑے مگر بہت جلد ان کی فکر کے آفاقی پہلوؤں نے عشق کا ایک بلند تر نصب امین پالیا ہے اس لیے اگرچہ انہیں صرف رومانوی شاعر نہیں کیا جا سکتا مگر انہوں نے رومانوی طرز احساس کو وقار اور اختیار عطا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس لیے ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں کہ اقبال رومان کے ذریعے ہی انقلاب اور سیاسی و سماجی آزادی کی منزل تک پہنچے۔ جوش ملیح آبادی کی عشقیہ اور انقلابی شاعری میں بھی رومانیت کے رنگ جابجا بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ماضی پرست ہیں، فطرت سے والہانہ شیفتگی رکھتے ہیں اور حسن کو زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
شاعر حفیظ جالندھری کے ہاں بھی ماضی پرستی اور فطرت سے لگاؤ بہت نمایاں ہیں، ان کے شعری مجموعوں، بسوز و ساز اور تلخاب پر شیریں کی نظموں اور گیتوں میں پائی جانے والی غنائیت اور فطرت کی رنگار گلی ان کی رومانیت کی نمائندگی کرتی ہے۔
رومانوی نقادوں نے بھی اپنی تحریروں میں حسن کاری اور تاثراتی انداز کو پیش نظر رکھا۔ عبد الرحمن بجنوری، مجنوں گورکھپوری، نیاز فتح پوری، مہدی افادی اور صلاح الدین احمد وغیرہ نے اردو تنقید و تخیل اور جمالیات کا پیراہن عطا کر کے اس صنف کو دل پذیری و رعنائی عطا کی۔ اگر چہ آج رومانیت کا سورج غروب ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود رومانوی افکار کی کرنیں آج بھی اُردو ادب کے قارئین کے لیے سامان کشش رکھتی ہیں۔ جو قاب دید تاریخی شہرت ہے۔