علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ
"ساقی نامہ" کا کوئی متعین موضوع نہیں بلکہ یہ فکر اقبال کے عمومی واساسی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں پیام اقبال کے نمایاں عناصر کی تلخیص و تقطیر کی گئی، گویا یہ عطر مجموعہ ہے، چنانچہ مختلف اہم تخلیقات میں بکھرے ہوئے موضوعات اس نظم میں یک جا و یک جہت ہو گئے ہیں۔
یہ ایک نهایت خوشنما اور دبیز نفیس قالین ہے جس میں متعدد رنگوں کے متنوع نقوش ایک دوسرے میں سموکر بین دیے گئے ہیں۔ عنوانات قائم کیے بغیر، خضر راہ کے ابواب صحرانوردی، زندگی سلطنت سرمایہ ومحنت ، دنیائے اسلام "ساقی نامہ کے اندر حل اور باہم دگر پیوست ہیں۔ ان کے علاوہ فطرت کی منظر نگاری، ذوق و شوق، کے ارتعاشات اور طلوع اسلام کے ارتسامات بھی نظم کی سطح پر ابھرے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تنوع کا ایک مرکز ہے، تصور خودی، جس کے گرد فطرت، عصر حاضر، مغرب و ملت شخصی واردات اور حرکت وحیات کے نقطے اور زاویے جمع کر دیے گئے ہیں، گویا خودی کے محور پر پوری کائنات فکر استوار کر دی گئی ہے۔
اس مقصد کے لیے مثنوی کی بحر بڑی چستی و چابک دستی کے ساتھ استعمال کی گئی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے رواں دواں مصرعے اجزائے تخیل کو سمیٹ کر ایک رخ پر ہمواری کے ساتھ بہانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اس آیت بجن میں اقبال کا آہنگ بہت تند و تیز ہو گیا ہے، جس سے روانی نغمہ میں ہے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اوّل تا آخر حرکت نظم اتنی تیز رفتار ہے کہ کسی ایک تصویر پر نگاہ جمتی نہیں بلکہ پراں تصویریں یکے بعد دیگرے سرعت کے ساتھ ابھرتی اور گزرتی جاتی ہیں۔ اس لیے رنگ برنگ پیروں کے باوجود سارا زور آہنگ پر پڑتا ہے اور ترسیل خیال پر معنی صداؤں کے ذریعے ہوتی ہے ۔
دقیق سے دقیق نکات لطیف نغمات بن کر فردوس گوش ہوتے ہیں۔ یہ اقبال کی نہایت تیز و شدید صوتی حسیات کا بہترین اظہار ہے۔ گرچہ پیمانہ صوت یہاں مختصر ہے مگر آواز کی باریکی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اس آواز میں بانسری کا سُریلا پن ہے، کہہ سکتے ہیں کہ نظم کے ٹھوس خیالات لطیف آوازوں میں تحلیل ہو کر ایک دوسرے میں اس طرح کھل گئے ہیں کہ ان کو الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان کا تجزیہ کرنا دشوار ہے۔ ایک خیال دوسرے میں پیوست ہے، دوسرا تیرے میں اور تیسرا چوتھے میں۔ اس طرح کڑی سے کڑی نہ صرف ملی بلکہ متھی ہوئی ہے۔ اس سے بیت پر پیچ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت لچکدار ہوگئی ہے اور شاعر کو موقع ملا ہے کہ ہلکے ہلکے ختم دے کر تخیل کو ایک کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بہ آسانی موڑتا چلا جائے ۔
یہاں تک کہ نقطہ عروج غیر محسوس لیکن مربوط طور پر سامنے آ جائے۔ یہ ایک سیال اسلوب بیان ہے۔ اس نظم میں ہر منتخب موضوع پر اقبال نے اپنے افکار کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے اور بڑے والہانہ انداز میں، جوش و نشاط ، سرمستی و رعنائی اور سوز و ساز کے ساتھ نغمہ پیرائی کی ہے۔ افکار کی ترتیب و تسلسل بھی نفے کی طرح منتظم ہے، ابتدائے نظم میں فطرت کی پر بہار منظر نگاری کے بعد اور اس کے تسلسل میں جوئے کہستاں، کی کو شکن حرکت کی بہترین تصویر کھینچی گئی ہے۔