Amjad Islam Amjad
امجد اسلام امجد
امجد برطانوی ہندوستان (اب پاکستان) میں لاہور، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا اصل تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ شاعر ادیب امجد اسلام امجد نے اپنی ثانوی تعلیم لاہور میں حاصل کی، اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور سے گریجویشن کیا۔زمانہ طالب علمی میں امجد اسلام امجد کالج میں کرکٹ ٹیم کا رکن بھی تھا اور اپنی قابلیت سے انٹر کالجیٹ ٹورنامنٹ میں بھی حصہ لیا تھا۔ امجد اسلام امجد نے پنجاب یونی ورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔اور آپ نے کیریئر کا آغاز گورنمنٹ میں بطور لیکچرار کیا۔ کالج کا نام M.A.O کالج لاہور تھا۔ تدریس میں واپس آنے سے پہلے امجد اسلام امجد نے 1975ء تا 1979ء تک پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں بطور ڈائریکٹر کام کیا۔
امجد اسلام امجد کی شاعری ۔
اک عہد تمـــام ہوا !
نہایت افسوسناک خبر !
جینے کے ان کے ساتھ بہانے چلے گئے
اٹھ کر گئے وہ یوں کہ زمانے چلے گئے
امجد اسلام امجد
معروف شاعر ، ڈرامہ نگار، کالمسٹ اردو ادب کا درخشندہ ستارہ ، پاکستان کا فخر جناب امجد اسلام امجد ہم میں نہیں رہے ۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون o اردو ادب کا بہت بڑا نقصان.
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
امجد اسلام امجد
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
فلک پر کہکشاں در کہکشاں اک بے کرانی ہے
نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے
بس اتنا یاد ہے مجھ کو
ازل کی صبح جب سارے ستارے
الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پہ نکلے تھے
تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا
اسی تارے کی صورت کا
مری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی اک خواب رہتا ہے
میں اپنے آنسوؤں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں
اور اس کی راہ تکتا ہوں
سنا ہے گمشدہ چیزیں
جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں
وہیں سے مل بھی جاتی ہیں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے!
امجد اسلام امجد
1989ء میں امجد اسلام امجد کو اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ وہ چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ امجد وارث سمیت پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے لیے کئی ڈرامے سیریز کے مصنف ہیں۔ آپ نے بہت سے کالم، ترجمہ، تنقید اور مضامین لکھے ہیں جب کہ ان کا بنیادی مرکز نظمیں، اردو شاعری کی ایک قسم ہے۔ ان کے نمایاں ڈراموں میں جو شہرت یافتہ ڈرامے ہیں مثلا دہلیز، سمندر، رات، وقت اور اپنے لوگ شامل ہیں۔
امجد اسلام امجد نے 2003ء کی فلم پاپ کے لیے من کی لگان کے بول لکھے، یہ گانا جس نے راحت فتح علی خان کے بالی ووڈ کیریئر کا آغاز کیا۔
جون 2008 میں انھوں نے اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس میں شمولیت اختیار کی اور چشم تماشا کے عنوان سے کالم لکھا۔
دسمبر 2019 میں، امجد کو ترکی کے شہر استنبول میں نیکپ فاضل انٹرنیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ ملا۔
امجد اسلام امجد 10 فروری 2023 کو 78 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
ان کے شعری مجموعے یہ ہیں۔
بارش کی آواز
شام سرائے
اتنے خواب کہاں رکھوں
نزدیک
یہیں کہیں
ساتواں در
فشار
سحر آثار
ساحلوں کی ہوا
محبت ایسا دریا ہے
برزخ
اس پار
پھر یوں ہوا
ذرا پھر سے کہنا
باتیں کرتے دن
رات سمندر میں
ہم اس کے ہیں( کلیات)
میرے بھی ہیں کچھ خوب( کلیات)
سپنوں سے بھری آنکھیں
اسباب (حمد و نعت)
کالموں کے مجموعے یہ ہیں:
تیسرے پہر کی دھوپ
کوئی دن اور
چراغ راہگذر
دیگر تصانیف یہ ہیں:
ریشم ریشم (سفرنامہ)
یہ افسانے
اپنے لوگ
وقت
وارث
آنکھوں میں ترے سپنے
سپنے بات نہیں کرتے
عکس
سپنے کیسے بات کریں
خواب جاگتے ہیں(ڈرامے)
یا نصیب کلینک
دھند کے اس پار
BBC Report 2023,
شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد لاہور میں وفات پا گئےمع
معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ کہ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے اور ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔
1944 میں لاہور میں جنم لینے والے امجد اسلام امجد کا شمار پاکستان کے مشہور ادیبوں میں ہوتا تھا اور وہ 20 سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔
امجد اسلام امجد نے اپنے کریئر کا آغاز شعبۂ تدریس سے کیا اور پنجاب یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہے اور بعد میں وہ دو ادوار میں لاہور کے ایم اے او کالج کے شعبۂ اردو سے منسلک رہے۔
1975 میں پنجاب آرٹس کونسل کے قیام کے بعد امجد اسلام امجد کو اس ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
اس کے علاوہ وہ پاکستان ٹیلیویژن سے منسلک رہنے کے علاوہ چلڈرن کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی رہے۔
امجد اسلام امجد نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں پاکستانی ٹیلیویژن کے لیے متعدد ایسے ڈرامے تحریر کیے جنھوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جن میں وارث، دہلیز، سمندر، دن، فشار اور ان جیسے کئی ڈرامہ سیریل شامل ہیں۔
ان کا شمار پاکستان میں غزل اور نظم کے ایسے شعرا میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی یکساں تھی۔
امجد اسلام امجد کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں سنہ 1987 میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 1998 میں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔
پاکستانی ادب کا چہرہ
شاعر اور ادیب سعود عثمانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امجد اسلام امجد لاہور اور پاکستانی ادب کا چہرہ تھے۔‘
’ایسا چہرہ جو پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا تھا۔ لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ اور محبت ان کو صرف ملتی ہی نہیں تھی، وہ اس محبت کو بانٹتے بھی تھے۔‘
سعود عثمانی نے بتایا کہ ’امجد صاحب سے میرا ذاتی تعلق کم و بیش 45 سال سے تھا۔ ان سے رشتہ داری تو بعد میں ہوئی لیکن ادب میں سب سے زیادہ جس شخصیت نے مجھے خوش آمدید کہا اور پزیرائی دی، وہ امجد اسلام امجد تھے۔‘
’ہنر مند لوگوں کو پہچاننا اور پروموٹ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔‘
سعود عثمانی نے بتایا کہ خرابی صحت کے باوجود امجد اسلام امجد کی زندہ دلی اور شگفتگی ویسی ہی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ ایک بہترین سفر کے ساتھی تھے۔ ہم ان سے جونیئر تھے لیکن وہ ہمارا برابری کی سطح پر خیال کرتے تھے۔‘
’میری کتاب چھپی تو امجد صاحب نے پوچھا تم کتاب کب چھاپ رہے ہو۔ میں نے کہا اتنی کتابیں ہیں، ایک اور کتاب سے کیا ہوگا، تو انھوں نے کہا کہ دیکھو ایسا نہ کرو بلکہ یہ کام کرو کہ اللہ سے توفیق مانگو کہ وہ آپ کی توفیق بڑھا دے۔‘
امجد اسلام امجد کی برجستگی
آمنہ مفتی کا امجد اسلام امجد سے قریبی تعلق رہا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ امجد اسلام امجد کی بیٹی میری سہیلی تھیں لیکن ’امجد اسلام امجد صاحب کو میں نے کبھی انکل نہیں کہا کیوں کہ ان کی لکھائی اتنی زندہ دل اور جوان تھی۔‘
’عمر کے آخری حصے میں ان کو ذیابطیس ہو گئی تھی لیکن ان کو میٹھا بہت پسند تھا اور ان کو جب کچھ کھلاتے تھے تو ان سے شاعری کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اب تم نے روٹی کھلائی ہے تو مزدوری بھی لو گے۔‘
’ایک دن دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے تو حفیظ صاحب نے ایک شعر پڑھا کہ ’جو میرے خیر کے منظر میں اپنا شر ملاتے ہیں‘۔۔۔ تو اس پر امجد بھائی نے برجستہ کہا کہ ’میں ان کے خیر کے منظر میں اپنا شر ملاتا ہوں۔‘ وہ ایسی اچانک گرہیں لگاتے تھے حالانکہ حفیظ صاحب کا اگلا مصرع تھا کہ میں ان کے سامنے پھر خیر کا منظر بناتا ہوں۔‘
ادیب اور محقق ڈاکٹر عظمی سلیم نے بھی امجد اسلام امجد کی شخصیت کے اس پہلو پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے کہا کہ ’امجد اسلام امجد صاحب کی ایسی شخصیت تھی کہ ان کے اندر کسی قسم کا غرور نہیں تھا۔ وہ ہر کسی سے ملتے تھے، جونیئرز کو عزت دیتے تھے اور ہر لکھنے والے کو دوست سمجھتے تھے۔‘
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امجد اسلام امجد کی شخصیت کی اہم چیز ان کی حس مزاح تھی۔‘
’لاہور میں جس محفل میں بھی امجد اسلام امجد موجود ہوتے تھے، وہاں قہقے گونجتے تھے۔ ان کی جملے بازی اور مزاح مشہور تھا۔‘
ادیب اور شاعر حارث خلیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امجد اسلام امجد کی رحلت اردو شعر و ادب کا بڑا نقصان ہے۔‘
’ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں ان کا ایک علیحدہ مقام تھا- ان کے کلام میں تازہ کاری بھی تھی اور توانائی بھی، ان کی نظمیں ہمیں ایک خاص رومانوی طرزِ احساس سے روشناس کراتی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر مداحوں کا اظہار افسوس
امجد اسلام امجد کی وفات پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی دکھ کا اظہار کیا۔ انھوں نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ’آج معروف شاعر اور دانشور امجد اسلام امجد کی وفات کی صورت میں اردو ادب کا ایک عظیم دور ختم ہوگیا۔ انہوں نےاپنے ڈراموں اور تصانیف کے ذریعے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔ ان کی شاعری کا ترنم ایک لمبے عرصے تک ہمارے کانوں میں رس گھولتا رہے گا۔ اللہ تعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں۔‘
پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے امجد اسلام امجد کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی صدر عارف علوی سمیت ان کی مداح ان کی شاعری سیئر کرتے ہوئے ان کی وفات کو اردو ادب کا عظیم نقصان قرار دے رہے ہیں۔
ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کرنے والوں میں پاکستانی ادکار اور مشہور شخصیات شامل ہیں۔
اداکار عمران عباس نے بھی اسے اردو شاعری کا اداس تین دن قرار دیا۔ سابق کرکٹر شعیب اختر نے بھی امجد اسلام امجد کی وفات کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔
ڈاکٹر نعمان نیاز نےلکھا کہ ’معروف ڈراما نگار، اعلیٰ ترین شاعر، یونیورسٹی کے سابق کرکٹر اور ایک قابل ذکر انسان امجد اسلام امجد نہیں رہے۔ 1995-96 میں کئی شوز میں ان کی میزبانی کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرنا باعث مسرت تھا۔‘