ولی دکنی
بابائے غزل ولی دکنی
تیرا لب دیکھ حیواں یاد آوے
ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے
ترے دو نین دیکھوں جب نظر بھر
مجھے تب نرگستاں یاد آوے
ترے مکھ کی چمن کو دیکھنے سوں
مجھے فردوس رضوان یاد آوے
مذید معلومات ِ ولی دکنی۔
ولی دکنی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔اہل گجرات انہیں گجرات کا باشندہ ثابت کرتے ہیں اور اہل دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد دکن تھا۔ولی کے اشعار سے دکنی ہونا ثابت ہے۔ولی اللہ ولی،سلطان عبداللہ قلی،قطب شاہوں کے آٹھویں فرماں روا کے عہد میں 1667ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔اس کے بعد حصول علم کے لیے احمد آباد آگئے۔جو اس زمانے میں علم وفن کا مرکز تھا۔وہقں حضرت شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں گزرا۔اس شہر کے فراق میں انہوں نے ایک پردرد قطعہ بھی لکھا۔ولی دکنی گجرات سورت اور دہلی کا سفر میں بھی کیا۔اس کے متعلق اشارے ان کے کلام میں موجود ہیں۔
آبرو شعر ہے ترا اعجاز
پر ولی سخن کرامت ہے
تجھ مثل اے سراج بعد ولی
کوئی صاحب سخن نہیں دیکھا
Wali dakni
ولی دکنی اور دور۔
1518ءتا1687ء تک قطب شاہی دور میں محمد قلی قطب شاہ،محمدقطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ جیسے عظیم صاحب دیوان شعرا گزرے ہیں ان میں قلی قطب شاہ 1565ء تا1611ء کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے لیکن ولی دکنی نے اردو غزل کو پستی سے نکال کر بام عروج اور بلندی پر پہنچایا ان کےشاعری میں فصاحت و بلاغت،پختگی،دلگدازی،موشگافی،قادراکلامی،عشق اور صنائع وبدائع کا اعلیٰ نمونہ موجود ہے۔دیوان ولی پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔زبان میں جدت ہے بقول میر،
واقف نہیں ہم یونہی ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا
لیکن ولی دکنی کو جو باوا آدم بناتا ہے وہ اسلوب زبان و بیان ہے ایسی زبان اور الفاظ منتخب کئیں جو دکن اور دہلی میں سمجے اور بولے جاتے ہیں۔ان کے تغزل تشبیہات و استعارات کی ایک انفرادی شان ہے۔
مثلا ولی دکنی کہتے ہیں کہ۔
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
اردو شاعری کا باوا آدم ولی دکنی۔
ایک طویل عرصہ تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا غزل گو تسلیم کیا جاتا رہا لیکن بعد میں تحقیق سے یہ بات ثبوت کو پہنچ گئی کہ اردو غزل کا آغاز ولی سے پہلے امیر خسرو سے ہی ہوچکا تھا۔ڈاکٹر وحید قریشی اس بارے میں لکھتے ہیں۔ کہ "ولی دکنی سے پہلے کم ازکم دو ادوار گزر چکے ہیں۔پہلا دور حضرت امیر خسروسے شروع ہوتا ہے۔ جڈ میں دس شعرا ہیں دوسرا قلی قطب شاہ سے شروع ہوکر میراں ہاشمی تک ہے یعنی چودہ شاعروں پر مشتمل ہے اس کے بعد ولی دکنی کے معاصرین کا زمانہ ہے۔"
گویا یہ بات طے ہو گئی کہ اردو غزل کی خشت اول ولی دکنی کے ہاتھوں نہیں رکھی بلکہ ولی سے صدیوں قبل غزل اپنی ابتدا کر چکی تھی تو پھر کس بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ اردو غزل گو کی اولیت کا تاج ولی کے سر پر رکھا جائے۔
اس سلسلے میں ہمیں "آب حیات" میں مولانا آزاد کی ایک رائے پر غور کرنا ہوگا۔وہ اپنے مخصوص انداش میں لکھتے ہیں۔"یہ نظم اردو کی نسل کا ادم جب ملک عدم سے چلا تو اس کے سر لر اولیت کا تاج رکھا گیا جس میں وقت کے محاورے نے اپنے جواہرات خرچ کیے اور مضامین کے رائج الوقت دست کاری مینا کاری کی۔
ولی دکنی کے بارے میں آزاد کے یہ تاثراتی اور ذاتی الفاظ اس بحث کا باعث بنے کہ ولی دکنی کو باوا آدم قرار دیا جائے یا نہیں اگر اسے باوا آدم مان لیا جائے تو ان سے پہلے غزل گو شاعر کس کھاتے میں جائیں اگر ان کو باوا آدم تسلیم نہ کریں تو ان کی شان میں کیا کمی آجائے گی وغیرہ وغیرہ
سفرِ دہلی"سعد اللہ گلشن سے ملاقات"
ولی دکنی کی سعد اللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔تو وہ ان کا کلام دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تنام مضامین کو جو فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ریختہ کی زبان میں کام میں لانا چاہہے،تاہم یہ بات متنازع ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے اس نے اپنے کتاب"اردو کا ابتدائی زمانہ" کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو کے اولین تذکرہ نگار میرتقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آکے دہلی میں اردو غزل کا آغاز کرے۔اس لیے گلشن والا واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے یعنی سعداللہ گلشن نے ولی دکنی کو شاعری سکھائی تھی۔دوسرا مشورہ یہ دیا کہ ولی دکنی الفاظ کا استعمال کم کرو اور ان کی جگہ فارسی کے شیریں الفاظ کا انتخاب کرو تو بہت بہتر رہے گا اور آپ کی شاعری چمکی گی۔
فلسفہ کی گہرائیوں اور علمی مضامین اور اخلاقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ولی کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔جب بھی اردو غزل کی بات ہوگی اولیت کی تاج ولی دکنی کے سر کی زینت بنے گا۔وہ اردو غزل کا بابائے آدم نہ سہی،غزل کو نئے راستوں پر ڈالنے کا معمار اول ضرور ہے۔
مسند گل منزل شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدہ بیدار کا
قائم چاندپوری نے اپنے تذکرے نکات سخن میں لکھا ہے کہ ولی دکنی نے سعد اللہ گلشن کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کلام کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کہ امراء کی محفلوں میں اور جلسوں اور کوچہ وبازار میں ولی دکنی کے اشعار لوگوں پر تھے۔ولی دکنی کو محمد حسین آزاد نے اردو شاعری میں وہی مقام دیا ہے جو انگریزی شاعری میں چاسر اور فارسی شاعری میں رودکی کو حاصل ہے۔اس اردو ادب میں ولی دکنی کو وہ مقام حاصل اور واقعی حقدار بھی ہے۔
ولی دکنی کی تاریخ وفات بھی بے حد متنازع ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق وہ1730ء کے بعد فوت ہوئے،تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی دکنی 1708ء کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔