اردو غزل کی مختصر تاریخ
اردو غزل کی تاریخ، غزل کب وجود میں آئی ، بی نام اس کو کب ملا ، اس کے متعلق کچھ کہنا موجودہ حالات کی روشنی میں ناممکن نظر آتا ہے ۔ تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے صرف یہ بات پتہ چل سکی ہے کہ آٹھو میں صدی عیسوی سے قبل غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا۔ اور غالبانو یں صدی کے اواخر تک یا اس سے بھی پہلے ، فارسی غزل گوئی کا آغاز ہو چکا تھا۔ رودکی جو پہلا صاحب دیوان غزل گو شاعر ہے، دسویں صدی کے نصف اول میں گذرا ہے ۔ گیارہو میں صدی میں جب فارسی کے پہلے سب سے بڑے صوفی شاعر شیخ ابوسعید ابوالخیر کوسی موزوں شعری بیت کی ضرورت پڑی تو انہوں نے غزل کو نہیں چھیڑا بلکہ روباعی کو اختیار کیا۔ غزل میں تصوف کی آمیزش سو برس بعد محمود سنائی کے حصہ میں آئی ۔ بار ہو میں اور تیر ہو میں صدی میں سنائی کے علاوہ عطار اور روقی نے غزل کی عاشقانہ بات چیت کو تصوف کے نئے کیف سے آشنا کیا۔ یہ ایک بہت ہی بڑا ترقی پسندانہ قدم تھا۔ جس کیلئے رائج الوقت غزل کی زمین تیار بیتھی ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ محمودستانی کی غزل میں ایک قسم کی غرابت محسوس ہوتی ہے ۔ سنائی کے بعد سعدی کی سلاست نے اس نئی غزل کو مقبول عام تک پہنچایا اور حافظ کے سر در والحان نے چار دانگ عالم میں ایک گونج پیدا کر دی۔
دوصدیاں اور گزر میں تو صفوی عہد کے شعراء نے فلسفہ ونفسیات کے مضامین کو بڑی خوبی سے غزل میں بیان کیا ۔ستر ہو میں صدی میں بعض خیال بند شعراء نے (جن کے سرخیل مرزا عبد القادر بیدل میں عشق سے روگردانی کر کے علوم عقلیہ کو بڑی شد و مد سے غزل کا موضوع قرار دیا۔
حضرت امیر خسرو ": المعروف (طوطی هند) (1325 - 1253): حضرت ابوالحسن یمین الدین خسرو جیسے عالی دماغ ، طباع شاعر نے شمالی ہندوستان میں جنم لیا۔ آپ ایک ترک سردار امیرسیف
الدین کے بیٹے ہیں ۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی ( ممالک متحدہ آگرہ اودھ ) میں سکونت اختیار کی اور اسی علاقے میں تیر ہو میں صدی عیسوی ( 405 ھ ) میں امیر خسرو کی ولادت ہوئی۔ آپ کی والدہ ہندوستانی تھیں ۔ کچھ دنوں بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہو گیا۔امیر خسرو نے سلطنت دہلی ( خاندان غلامان خلجی اور تغلق ) کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ مثلاً غیاث الدین بلبن ، معزالدین کیقباد وغیرہ کے درباروں میں مختلف عہدوں پر ممتاز رہے اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی زندگی میں گرمجوشی سے حصہ لیا۔
انہوں نے ہر صنف شعر، مثلا: مثنوی ،قصیدہ ،غزل، ہندی دو ہے، پہیلیاں ،بکریاں ، انملیاں، دو سخنے اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ آپ نے غزل کے پانچ یادگار دیوان چھوڑے ہیں ۔ آپ کی کتاب " خالق باری" آج بھی مقبول عام ہے ۔ شاعری کی مناسبت سے آپ کا لقب ” طولی ہند مشہور ہو گیا۔ ہندوستان میں موسیقی میں ترانہ قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے ۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگاۓ ۔ راگنی (ایمن کلیان ) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے ۔ کہتے ہیں کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے جڑھایا تھا۔ آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مرید تھے ۔ آپ کو اپنے مرشد سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی موت کا صدمہ آپ سے برداشت نہ ہوا اور اسی وجہ سے چند دن بعد سفرآخرت کے راہی ہو لئے اور مرشد ہی کے قدموں میں جائے مدفن نصیب ہوئی ۔ آپ اردوغزل کور پختہ کہتے تھے ۔ان سے جوغزل منسوب ہے وہ خالصتاً اردوغزل نہیں ہے بلکہ فارسی اور ہندی تراکیب کا بہترین ملاپ ہے ۔
ان کے اس کلام کو نصرت فتح علی خان کے علاوہ غلام فرید صابری اور مقبول صابری نے مل کر نہایت ہی خوبصورت انداز میں گایا ہے ۔ جو کہ آج بھی انٹرنیٹ پر ویڈ یو ڈیو دونوں کی صورت میں دستیاب ہے ۔
اردو کے متغزلین
اس کے بعد اردو کے متغزلین آۓ ۔ انہوں نے نہ صرف فارسی غزل کے محاسن ولطائف کی تجدید کی بلکہ ہمارے گزشتہ دور معاشرت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا محمد قلی قطب شاہ (1611-1581) کوار دوغزل کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا رہا مگر بعد کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ اردوغزل بہمنی دور 1350ءتا 1525ء میں بھی موجودتھی۔ چناچہ شاہ منی ( 1482ء) کے دور کا مشہور غزل گو شاعر مشتاق تھا۔ اردو کے ابتدائی دور میں دکنی شعراء کی جتنی بھی غزلیں ملتی ہیں وہ مشتاق لطفی ،شہباز سینی ،مرزا دولت شاہ ظہوری حسن شوقی ،کمال خان رستمی ، ملک خوشنود محمد عادل شاہ ،نصرتی ، ہاتھی ، ویہی غواصی عشرتی ، آزاد، وجدی ، فراقی اور ولی دکنی کی ملتی ہیں ۔ ولی دکنی کواردو غزل کا با قاعدہ شاعر تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اس دور کے خاتمے پر مرزا غالب بظاہر غزل کا آخری بڑا شاعر نظر آتا تھا۔ لیکن پھر معلوم ہوا کہ غزل کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوۓ ۔خود ہمارے زمانے میں اقبال نے ازسرنو ان کا جائزہ لیا اور بڑی کامیابی سے سیاسی و عمرانی موضوعات پر اپنی بیشتر غزلیات کی بنیا درکھی ۔