افسانہ نگار کرشن چندر
کرشن چندر کی ابتدائی شہرت اور مقبولیت کا سبب ان کا رومانی طرز نگارش ہے۔ وہ طبعار و مانی فنکار تھے۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ زیاد ود یر تک اس رومانی فضاء میں کھوئے نہیں رہے اور جلد ہی اس فضا سے نکل کر وہ حقائق کی دنیا کی طرف گامزن ہو گئے۔ چناں چہ نثری کتاب طلسم خیال“ کے بعد ان کے افسانوں کا یہ دوسرا لاجواب مجموعہ ”نظارے“ کے نام سے منظر عام پر آیا اور اس مجموعے کے افسانوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے زاویہ نظر باریک بینی میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلی آرہی تھی۔ اور ان داتا، میں تو کرشن چندر رومان پرست کی بجائے تلخ حقیقت نگار اور انقلاب پسند کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔
کرشن چندر کی عظمت کی کئی وجوہات ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ ان کے افسانوں کے موضوعات میں برا نوی ہے۔ ان کے افسانوں میں فطرت کے حسن اور عورت کی رومانی دلکشی کے علاوہ اپنے عہد کی وسیع عکاسی بھی ملتی ہے۔ ان کے مشاہدے کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ وہ اپنے موضوعات ، اپنے گرد و پیش کی دنیا سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات میں سماجی معاشی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں۔ دوسری بات کرشن چندر منظر کشی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ بقول محمد حسن منظر نگاری میں آج بیک ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں فطرت کا سار حسن سمٹ کر رہ گیا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ اپنے طرز نگارش کے ذریعے وہ افسانے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے اُن کی نثر کو شاعری کہا ہے جو شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی محفل لوٹ کر لے جاتا ہے۔ کرشن چندر نے فسادات کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا چنانچہ ان کے مجموعے "ہم وحشی ہیں“ کے سارے افسانے فسادات سے متعلق ہیں۔ ان کے باقی مجموعوں نام یہ ہیں۔ طلسم خیال، نظارے، ہوائی قلعے ، گھونگھٹ میں گوری جلسے ، ٹوٹے ہوئے سہارے ، ان داتا، ہم وحشی ہیں، تین غنڈے، زندگی کے موڑ پر، نفے کی موت اور پرانا خدا و غیرہ