Iqbal Urdu Poetry
علامہ محمد اقبال کی اردو شاعری
which of these is iqbal’s first collection of urdu poetry?
علامہ اقبال نے شعر گوئی کا آغاز اس وقت کیا جب وہ سیالکوٹ میں شکول کے طالب علم تھے ۔ سکاچ مشن سکول کی طالب علمی کے دوران وہ سیالکوٹ کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے ۔ 1895ء میں وہ لا ہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب بنے ۔ 1899 ء میں انہوں نے ایم اے (فلسفیہ 0914 امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں حصول تعلیم کے دوران وہ لاہور کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور انہوں نے بعض اوقات ایسی غزلیات لکھیں جن کے اشعار نے سامعین کو چونکا دیا۔
1899 ء میں اقبال نے عربی زبان کے محقق کا کام شروع کیا اور 1903 ء تک یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 1901 ء سے 1905 ء تک وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شعر گوئی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ان کا کلام جو غزلیات کی علاوہ نظم کی بھی کئی اصناف پر محیط تھا' ملک کے مشہور ادبی رسائل خصوصاً مخزن لاہور میں طبع ہونے لگا۔ شعر گوئی کا یہ سلسلہ جاری تھا اور اس کے ساتھ ہی ان کی توجہ نثر کی طرف ہو گئی۔ انہوں نے کچھ مضامین لکھے ۔ " علم الاقتصاد اسی زمانے میں شائع ہوئی (1904ء) جو اردو میں جدید معاشیات پر لکھی جانے والی اولین کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ اس زمانے کے لحاظ سے یقینا یہ ایک قابل قدر علمی کارنامہ تھا۔
1905 ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ روانہ ہوئے ۔ وہاں وہ 1908 ء کے وسط تک مقیم رہے۔ اس دوران میں انہوں نے انگلستان سے بارایٹ لا اور جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ یورپ میں قیام کے اس مختصر زمانے میں ان کی توجہ زیادہ تر حصول تعلیم پر رہی اور شعر گوئی کے لئے انہیں نسبتا کم وقت ملا۔ تا ہم اس عرصے میں بھی ان کی نظم گوئی کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہا۔
یورپ سے واپسی کے بعد انہوں نے چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کر دی۔ اگلے ہی سال وکالت کے ساتھ ساتھ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ بھی پڑھانے لگے جس کے لئے انہیں خصوصی اجازت ملی کیونکہ سرکاری ملازمت کے ساتھ کوئی اور نفع بخش کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔
1910ء میں اقبال نے ذاتی تاثرات پر مبنی ایک ڈائری انگریزی زبان میں لکھنی شروع کی جو چند ماہ تک جاری رہی اور پھر کبھی نہ لکھی گئی ۔ اردو شاعری کی تخلیق کا سلسلہ برابر جاری تھا اور 1915 ء تک اقبال اپنی بہت سے مشہور نظمیں مثلاً گورستان شاہی، شکوہ حضور رسالت مآب ﷺ میں شمع اور شاعر فاطمہ بنت عبد اللہ
جواب شکوہ والد و مرحومہ کی یاد میں وغیرہ لکھ چکے تھے جو کئی سال بعد با تیک درا میں شامل کی گئیں۔ اس دوران ان کی توجہ قاری شاعری کی طرف ہو گئی۔ ان کی پہلی قاری شعری تصنیف 1915 ء میں شائع ہوئی ۔ یہ فارسی مثنوی اسرار خودی تھی جس میں انہوں نے تفصیل سے نظر یہ خوری پیش کیا تھا۔ 1913 ء میں " رموز بیفوری طبیع ہوئی جسے نظر یہ خودی ہی کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔ یہ بھی فارسی زبان میں ہے ۔ 1923ء میں ان کا تیسرا مجموعہ کلام یام مشرق" کے نام سے چھپا۔
گویا اس وقت تک کیفیت یہ تھی کہ علامہ کو ان کے اردو کلام کی وجہ سے بہت شہرت نصیب ہو چکی تھی لیکن ان کے تینوں شعری مجموعے فارسی زبان میں پیسے تھے جن سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اردو والوں کے متقابلے میں بہت کم تھی ۔ اس لیے ہر اطراف سے اصرار اور ہا تھا کہ اردو مجموعہ کلام چھپنا چاہیے۔