Urdu Poet Allama Muhammad Iqbal Pdf
اقبال کا فن پس منظر
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شمار دنیا کے عظیم ترین شعراء میں ہوتا ہے ان کے فکروفن نے بیسویں صدی کے اردو شعر و ادب پر بہت گہرے اور دور رس اثرات مرتب کئے اردو شاعری کو انہوں نے فکری اور بھی اعتبار سے کسی بھی جہتوں سے آشنا کیا وہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے بلکہ ادب برائے زندگی کے نظریے کے پر جوش ترجمان تھے۔
فکر و فلسفہ کی دنیا میں ان کے نظریہ خودی کو زبر دست اہمیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ان کا نظریہ ین ان کے تصور خودی ہی کا حصہ ہے ان کے نزدیک تخلیقی خون کو جن میں شعر و ادب کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے خودی کا ترجمان اور انسانی شخصیت و انفرادیت کا معمار اور محافظ ہونا چاہیے۔ جون شخصیت کو کمزور کرتا ہے وہ ان کے بقول انیلا اور چنگر سے زیادہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔
چنانچہ بلند پایہ اور حیات محمل شاعری وہی ہے جو انسانوں کے باطن میں مقاصد عالیہ کی تخلیق کر سکے فرد اور معاشرے کو ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے ہر نوع کی جدو جہد پر آمادہ کر سکے۔
اقبال کے نزدیک من وہی ہے جو انسانی زندگی (خودی) کو ایسے سوز و ساز سے بہرہ مند کرے جس کا ثمر تہذیب انسانی کی تعمیل کی صورت میں حاصل ہو گئے۔ اقبال کے نظریہ فن کی رو سے فن تحمیل ذات کا ذریعہ ہے۔ مقصود بالذات نہیں اس اعتبار سے اقبال کے نزدیک
شاعری کے معنوی ( فکری اخلاقی) اور تمیری پہلوز یادہ اہم ہیں یہ نسبت اس کے فنی پہلوؤں کے۔ اسی لیے اقبال نے خود کو عام اور بھی معلوم میں شاعر کہلوانے سے گریز کیا بکہ ایک فارسی شعر میں اس حد تک کیا کہ اس آدمی سے غیر کا ظہور نہیں ہو سکتا جس نے مجھ پر شاعر ہونے کی بہت لگائی ۔
کچھ تو اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے آپ کو عام معنوں میں شاعر کہلوانا پسند نہیں کیا اور اس سبب سے کہ ان کی شاعری کے فکری پہلووں یعنی ان کے فلسفہ حیات اور نظریہ طوری کی تفہیم و تشریح نے عصر حاضر کے بعض غیر معمولی اذہان کو مصروف کار رکھا ۔
ان کی شاعری کے منی پہلووں پر زیادہ توجہ نہ دی جا سکی لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ ان کے ان کو بجھا نہیں گیا البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موضوع کے حوالے سے تشریحاتی مواد زیادہ سامنے آیا۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا نظریہ فن
اقبال کے نظر یمن کا ان کے نظریہ جمال کے ساتھ گہرا تعلق ہے ان کے نظریہ جمال کی اساس بھی احکام خودی کے تصور پر ہے وہ صرف حسن کو حیات یا حقیقی عمل کی جامع اور کامل صورت قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے ساتھ قوت اور توانائی کے عصر کی آمیزش کو ضروری خیال کرتے ہیں اس لئے ان کے نزدیک قاہری کے بغیر دلبری جادوگری" سے زیادہ کچھ نہیں۔ گویا ان کے نزدیک معیاری فن دی ہے جس میں جمال و جلال کا اخراج پایا جائے۔
فن چوں کہ ان کے نزدیک خودی کی تحقیقی فعلیت کی نمود ہے اس لئے خودی کے امکانات کی رونمائی اور ان کی تحمیل کے لیے جہد پیہم کی تحریک تحقیقی خون ہی فراہم کرتے ہیں جن میں شاعری سرفہرست ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال ایک عظیم منظر اور مصلح قوم ہونے کے باوجود حقیقی فنون کی اہمیت وفنون کے شدت سے قائل تھے۔
اقبال کے نزدیک فن کی تخلیق فطرت سے رہائی پانے کے مترادف ہے یہ غیر موجود کو موجود کرنے کا عمل ہے اسی لئے ہر اعتبار سے قابل قدر ہے اقبال کے اپنے الفاظ میں " جو آ رشت زندگی کا مقابلہ کرتا ہے وہ انسانیت کے لیے باعث برکت ہے وہ تخلیقی عمل میں خدا کا رفیق کار ہے۔
اس کی روح میں زمانہ اور ابدیت کا پر تو منعکس ہوتا ہے۔ ( مرقع چغتائی کا انگریزی (دیباچہ ) اقبال بھی (کیٹس کی طرح) اس بات کے قائل ہیں کہ حقیقت حسن اور حسن حقیقت ہے لیکن ان کے نزدیک آرٹ کا منہا روحانی اور اخلاقی اقدار تصورات کا احساس و ادراک ہے جس کے ذریعے وہ انسانیت کی بدی سے بدی خدمت سر انجام دے سکتا ہے۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی رائے میں شاعری ( دوسرے حقیقی خون کی طرح) خوب سے خوب تر کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ غرض اقبال کا تصور شاعری مثالی بھی ہے اور حقیقت پسندانہ بھی تاہم وہ مقصدیت کو ہر حال میں مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ خالص بھی تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کا کلام شاعری کے بلند ترین معیاروں پر پورا اترتا ہے بلکہ انہوں نے اپنے منظر و تخیل اور مشکل طرز بیان سے شاعری کے تصور میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔