سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری
Urdu afsana nigar Saadat Hasan Manto,
سعادت حسن منٹو کا شمار 20 ویں صدی کے عظیم اردو ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اردو ادب میں ان کی خدمات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر مختصر کہانی لکھنے کے میدان میں۔ منٹو کی کہانیاں اکثر معاشرے کے تاریک پہلوؤں پر مرکوز ہوتی ہیں، جن میں غربت، تشدد اور جنسیت شامل ہیں۔
منٹو 1912 میں بھارت کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور 1930 کی دہائی میں بطور مصنف اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے بطور صحافی کام کیا اور اردو اخبار روزنامہ جیسی کئی رسائل اور اخبارات کے لیے لکھا ہے اور مقبول ہوتا رہا۔ منٹو کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ آتشِ چنار 1936 میں شائع ہوا اور اس نے اپنے مسقبل کے دوران مزید کئی مجموعے لکھے۔
منٹو کی کہانیاں اکثر متنازعہ رہتی تھیں، اور انہیں تقسیم ہند کے بعد برطانوی نوآبادیاتی حکومت اور بعد میں پاکستانی حکومت کی طرف سے سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود منٹو نے اپنی کہانیاں لکھنا اور شائع کرنا جاری رکھا، جو اب اردو ادب کی کلاسک سمجھی جاتی ہیں۔
منٹو کی کہانیاں اکثر ہندوستان اور پاکستان کی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نمٹتی ہیں جن میں غربت، عصمت فروشی اور تشدد شامل ہیں۔ اس کی تحریر انسانی فطرت کی خام، ایمان داری تصویر کشی کے لیے مشہور ہے، اور اس کے کردار اکثر پیچیدہ اور اخلاقی طور پر مبہم ہوتے ہیں۔
منٹو کے کام نے جنوبی ایشیا اور اس سے باہر کے مصنفین کی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ اس کی جنم دن آج بھی منائی جارہی ہے، اس کی کہانیوں کو فلم اور ٹیلی ویژن کے لیے ڈھال لیا گیا ہے اور اس کے کام کا دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں مطالعہ کیا جا رہا ہے۔
آخر میں، سعادت حسن منٹو کی اردو ادب، خاص طور پر مختصر کہانی لکھنے کے میدان میں، بہت زیادہ قابل قدر خدمات ہیں۔ اپنے پورے کیریئر میں سنسر شپ اور تنازعات کا سامنا کرنے کے باوجود، منٹو نے اپنی کہانیاں لکھنا اور شائع کرنا جاری رکھا، جو اب اردو ادب کی کلاسک سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی جنم دن آج بھی منائی جارہی ہے، اور ان کا کام جنوبی ایشیا کی ادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔
منٹو کی افسانہ نگاری تفصیلی جائزہ
اردو ادب کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں منٹو کا شمار ہے۔ منٹو بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ افسانے لکھنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے قلم برداشتہ لکھتے تھے۔لکھتے کیا تھے یوں سمجھئے کہ افسانہ ان پر نازل ہوتا تھا۔وہ سچ ہی کہتے تھے میں افسانہ نہیں لکھتا افسانہ مجھے لکھتا ہے۔سعادت حسن منٹو خود لکھتے ہیں کہ افسانہ میرے دماغ میں نہیں جیب میں ہوتا ہے کیونکہ میں افسانے کے پیسے پیشگی لے چکا ہوتا ہوں۔
مرنے سے کچھ ہی دن پہلے اٹھارہ اگست 1954ء کو انہوں نے اپنی قبر کا کتبہ آپ لکھا تھا۔ملاحظہ فرمائیے۔ "یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے اس کے سینے میں افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے۔”
انسانی زندگی اس عظیم فن کار کے افسانوں کا موضوع تھا۔انھوں نے ہر طبقے اور ہر طرح کے انسانوں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔کلرک ، مزدور ،نیک، بدکار ،طوائف، دلال مولوی ،استاد، ہر طرح کے لوگ ان کی نظر میں تھے۔ان کا اصل میدان جنس ہے اور جنس کا بھی صحت مند اور فطری پہلو انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرتا۔جنسی کجروی انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ بے محابہ اس پر لکھتے ہیں۔ان پر فحش نگاری کے جرم میں مقدمے چلے اور انھیں عریاں نگار کہا گیا۔
اردو ادب، کا عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو حقیقت نگار افسانہ نگار تھے انسان کے جتنے اصلی روپ ہو سکتے ہیں منٹو ان سب کے رمز شناس ہیں۔منٹو کو اعتراف ہے کہ چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمنان سے سو جاتی ہے میرے افسانوں کی ھیرو نہیں ہو سکتی۔میری ہیروئین چکلے کی ایک رنڈی ہوسکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیاہے۔
جنسی کجروی ان کے نزدیک زندگی کی تلخ حقیقتوں میں ںسے ایک ہے۔منٹو کے افسانوں میں جو عریانی نظر آتی ہے اور جس کے سلسلے میں ان پر مقدمے بھی چلے وہ ان کی اپنی پیدا کی ہوئی نہیں ہے۔وہ سوسائٹی میں پہلے سے موجود ہے منٹو جب اس سوسائٹی کی تصویر کھینچتے ہیں تو عریانی کو پردوں میں کس طرح چھپا سکتے ہیں۔انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔
منٹو کا فن منٹو کے موضوعات سے زیادہ اہم ہے۔ ان کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں مواد اور فن دونوں گھل مل گے ہیں۔
انسانی نفسیات پر منٹو کو مکمل عبور حاصل ہے۔ اپنے کرداروں کی ذہنی کیفیت پر منٹو کی تہہ رس نگاہیں جمی رہتی ہیں۔ ان کے بعض افسانے تو اسی مقصد سے لکھے گئے ہیں کہ کسی کردار کی نفسیاتی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے۔ جن افسانوں میں یہ مقصد پیش نظر نہیں رہا وہاں بھی قدم قدم پر نفسیاتی حقائق کی ترجمانی نظر آتی ہے۔
تلخ مصلحانہ طنز منٹو کے افسانوں کی بےحد نمایاں خصوصیت ہے۔منٹو کے افسانوں میں طنز و ظرافت تلاش کیجئے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ظرافت کم ہے اور طنز زیادہ۔ اس کے علاوہ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو طنز بھی بہت شدید نشتر کی سی کیفیت لئے ہوئے ہے۔ ایک بد نام افسانہ نگار کی حیثیت سے منٹو نے بہت شہرت پائی۔ انہوں نے جنسی موضوعات پر بڑی بے باکی سے قلم اٹھایا۔ سماج، رشتے ناسوروں کو سفاکی سے بے نقاب کیا ۔
منٹو کے افسانوں پر کہیں بناوٹ کا گمان نہیں ہوتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیدھے سادے انداز میں کوئی کہانی، کوئی واقعہ سنا رہے ہیں، اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کر رہے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ ان کا فن بالکل غیر محسوس طور ان کے افسانوں میں کام کرتا ہے اسی میں ان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔
منٹو کے افسانوی مجموعے
سعادت حسن منٹو کا "آتش پارے” منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو انیس سو چھتیس (1936) میں شائع ہوا۔اس افسانوی مجموعہ میں آٹھ افسانے ہیں۔
سعادت حسن منٹو مثالی"افسانے اور ڈرامے” انیس سو ترتالیس (1943) میں شائع ہوا جس میں سات افسانے ہیں۔
یہ افسانہ"لذت سنگ” انیس سو سنتالیس (1947) میں شائع ہوا جس میں تین افسانے ہیں۔
"سیاہ حاشیے” 1948 میں شائع ہوا جس میں اکتیس 31 افسانےہیں۔
یہ ایک بہترین افسانہ ہے "چغد”1948 میں شائع ہوا جس میں نو 9 افسانے ہیں۔
جنسی حوالے سے بہترین افسانہ"ٹھنڈا گوشت1950 میں شائع ہوا جس میں آٹھ افسانے ہیں۔ٹھنڈا گوشت قیام پاکستان کے بعد منٹو کا پہلا افسانہ تھا اور جس پر فحاشی کے الزام میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔
رحمت مہردرخشاں کے عنوان سے اس مقدمے کی روداد بھی اس مجموعے میں شامل ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانوں کی تعداد آٹھ ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔ٹھنڈا گوشت، گولی، رحمت خداوندی کے پھول، ساڑھے تین آنے، پیرن، خورشیٹ، باسط اور شاردا۔
افسانہ"خالی بوتلیں خال ڈبے "1950 میں شائع ہوا جس میں تیرہ افسانے ہیں۔
افسانہ "بادشاہت کا خاتمہ” 1951عیسوی میں شائع ہوا جس میں گیارہ افسانے ہیں۔
افسانہ"یزید ” 1951میں شائع ہوا جس میں نو افسانے ہیں۔
افسانہ"نمرودکی خدائی” 1952میں شائع ہواجس میں بارہ افسانے ہیں۔
افسانہ"سڑک کے کنارے "1953 میں شائع ہوا جس میں گیارہ افسانے ہیں۔
افسانہ"سرکنڈوں کے پیچھے "میں تیرہ افسانے 1953 میں شائع ہوا۔
افسانہ"پھندنے "1954 میں شائع ہوا جس میں گیارہ افسانے ہیں۔افسانہ پھندنے کو ایک نئے تجربے سے موسوم کیا گیا ہے۔
افسانہ"بغیر اجازت” 1955 عیسوی میں شائع ہوا جس میں گیارہ افسانے ہیں۔
افسانہ"برقعے” 1955عیسوی میں شائع ہوا جس میں گیارہ افسانے ہیں۔
افسانہ"شکاری عورتیں”1956 میں شائع ہوا جس میں بارہ افسانے ہیں۔
افسانہ"رتی ماشہ تولہ”1956 میں شائع ہوا جس میں دس افسانے ہیں۔
سعادت حسن منٹو کے اس کے علاوہ درج ذیل افسانے ہیں مثلا انارکلی، شیطان ،طاحرہ سے طاحر، مینابازار، بانجھ، کالی شلوار، بڈھاکھوسٹ وغیرہ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔
اردو ادب کا عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے جن افسانوں پر مقدمہ چلا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ دھواں، کالی شلوار، بو، ٹھنڈا گوشت، اوپر نیچے اور درمیان۔
اس کے علاوہ سعادت حسن منٹو کے تقسیم ہند کے موضوع پر منٹو کے بہترین افسانے ملتے ہیں جو بہترین انداز میں لکھے گئے ہیں۔
مثلا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، موذیل، ٹھنڈا گوشت، سہائے، رام کھلاون، یزید، لہر نام کور، ڈارلنگ، عزت کے لیے، وہ لڑکی۔ طنزومزاح کے مجموعے شامل ہیں۔
اردو ادب کا عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضامین ، تلخ ترش شیریں اوپر نیچے اور درمیان۔
ڈراموں کے مجموعے شامل ہیں۔
اردو ادب کا عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ڈرامے، جنازے ،تین عورتیں، افسانےاورڈرامے کروٹ، شیطان۔
سعادت حسن منٹو نے صرف ایک ناول لکھا ہے جس کا نام” بغیر عنوان کے” ہے جو 1954 میں شائع ہوا۔
منٹو کے خاکوں کے مجموعے شامل ہیں۔
اردو کا بہترین افسانہ"گنجے فرشتے "1952،”لاوڈ اسپیکر "1955اور” شخصیتں’ 1956۔
سعادت حسن منٹو سے متعلق چند اہم باتیں۔
سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانہ تماشہ ہے۔
سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ آتش پارے ہے۔
سعادت حسن منٹو نے بائیس شخصیتوں پرخاکےلکھے۔
سعادت حسن منٹو کے ریڈیائی ڈراموں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔
افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے بہترین افسانے
کالی شلوار ،میرا نام رادھا ہے، شاردا، یزید، انجام بخیر ، ٹھنڈا گوشت، بو ،بابوگوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، موذیل، خوشیا، جانکی، دھواں، شانتی، بلاؤز، چغد وغیرہ۔
Certainly! Here are some of Saadat Hasan Manto's most famous Urdu afsanas:
1. Toba Tek Singh
2. Khol Do
3. Thanda Gosht
4. Bu
5. Khali Botlein
6. Aik Purani Kahani
7. Deewaroon pe Likhna
8. Badshahat ka Khatimah
9. Shikari Auratein
10. Hatak
These are just a few examples of Manto's vast body of work. Each of these afsanas deals with a different facet of human nature and society, and they are all highly regarded in the world of Urdu literature.