Ahmed Nadeem Qasmi Biography in Urdu
احمد ندیم قاسمی کا تعارف
اردو ادب کا عظیم افسانہ نگار عظیم شاعر جناب احمد ندیم قاسمی پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگاری کی میدان میں ایک عظیم کالم نگار تھے۔قلم کی میدان میں احمد ندیم قاسمی نے افسانہ نگاری میں زیادہ شہرت حاصل کرکے ساتھ ساتھ شاعری کی میدان میں شہرت پائی۔اس کے علاوہ موصوف ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین میں شمار ہو جاتا ہے کچھ عرصہ بعد کسی معاملے میں کی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں لکھیں۔
ابتدائی حالات احمد ندیم قاسمی
افسانہ نگار شاعر احمد ندیم قاسمی معرفی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں ۲۰ نومبر ۱۹۱۳ء کو پیدا ہوئے ۔احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے،احمد ندیم قاسمی شاعری میں ندیم لکھتے تھے۔
آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت کی وجہ سے پرہیز گار راسخ اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے احمد ندیم قاسمی کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ اور سن ۱۹۴۰ ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ ۱۹۳۳ء میں والدہ کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں نہیں ملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا ۔ ۱۹۲ تا۲۵ میں گورنشست مدل اینڈ بارٹل اسکول کیمبل پور (اٹک ) میں تعلیم پائی۔ ۱۹۳۰ ۲۰ ۱۹۳۱ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور ۱۹۳۱ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے احمد ندیم قاسمی نے ۱۹۳۵ء میں لیا اس کالج سے بی اے کیا۔
حالات زندگی
احمد ندیم قاسمی کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات سے بھری پڑی تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیر بار کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی زندگی کے گزر بسر کا کوئی سہار نہ ملا نہ تھا۔ کئی بار سخت مشکلات کی وجہ احمد ندیم قاسمی پر فاقہ کشی کی نوبت بھی آگئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے باز رکھا۔ ان کڑے دنوں میں ان کی ملاقات اردو ادب کا مایہ ناز شاعر اختر شیرانی سے ہوئی۔احمد ندیم قاسمی کو بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے بھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لا ابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا انداز ہوتا ہے۔ اختر شیرانی ایک رومانی شاعر تھے اختر شیرانی کی شاعری اور اس کی شخصیت اردو ادب میں کلیدی کردار کے مالک سے قاسمی صاحب کا دلی لگاؤ آخیر تک رہا۔ انھی دونوں میں احمد ندیم قاسی ۔کی ملاقات اردو مصنف امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسانے " پھول کی ادارت کی پیش کش کی اور وہ پیش کش احمد ندیم قاسمی نے قبول کر لی ۔ " پھول بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔ کافی حد تک مقبولیت شہرت سے ہم کنار ہوئے۔
سن۱۹۳۶ء میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں میں بیس روپے کے ماہوار پر محور کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ۱۹۳۷ء تک اس ادارے دفتر میں کام کرتے رہے اور اس کے بعد ۱۹۴۵ء کے دوران ایکسائز میں سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی۔ محکمہ آب کاری میں ملازم ہو گئے ۔۱۹۳۲ء میں ریٹائر ہو کر لاہور چلے آئے۔اور اس کے بعد تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی۔
کچھ عرصہ بعد (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اس کے بعد میں ریڈیو پشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر کے حثیت سے وابستہ رہے تقسیم کے بعد احمد ندیم قاسمی ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور اسٹیشن میں ملازم رہے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ "سیاست" لاہور کے سراوراق پر شائع ہوئی اور یہ احمد ندیم قاسمی کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ کچھ عرصہ بعد ۱۹۳۳ ء اور ۱۹۳۷ء کے دوران ان کی متعدد میں نظمیں رسالہ "زمیندار" لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالم نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔
سب سے مقبول غزل
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا
گھر میں گر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
تیرا پیمان وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
پہلی نظم ۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کی جو روزنامہ سیاست کا لاہور میں چھپی ۔ پہلا شعری مجموع ۱۹۴۲ء میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۳۹ ء میں شائع ہوا۔
انجمن ترقی پسند
سن ۱۹۳۲ ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی ۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب انجمن نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو احمد ندیم قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
افسانوی مجموعے درج ذیل ہیں۔
بگولے
چوپال
طلوع وغروب
گرداب
سیلاب
آنچل
آبلے
آس پاس