مصنف پنڈت ناتھ سرشار
دور 1878تا 1880
ملک ہندوستان، لکھنو تہذیب معاشرت
فسانہ آزاد اردو ناول نگاری کے عہد اولین کا
نقش ہے جیسے پنڈت ناتھ سرشار نے لکھا ہے۔
درخقیقت یہ ناول 1878 میں لکھا گیا تگا اور شروع میں یہ لکھنو کے اودھ اخبار میں ظرافت کے عنوان سے قسط وار شائع ہوتا رہا پھر 1880ء میں پہلی دفعہ اسے منشی نول کشور لکھنو نے کتابی میں چھپا۔یہ کتاب اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے اور ڈیڑھ سوسال گزرنے کے باوجود مقبول وعام ہیں۔
ابتدا میں کچھ رتن ناتھ سرشار کے بارے میں۔
رتن ناتھ سرشار ایک معزز خاندان میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ابھی چار سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ مسلمان شرفاء کے گھروں میں آنا جانا تھا۔ اس طرح ان کی معاشرت کو قریب سے دیکھنے کا اور بیگماتی زبان عبور حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔ کنگ کالج میں داخل ہوئے مگر ڈگری نہ لے سکے۔ کالج چھوڑنے کے بعد چند سال تک ایک سکول میں مدرسی کی ۔ اسی دوران لینی ۱۸۷۲ ء میں ”اودھ پنچ" میں مضامین لکھنا شروع کیے۔ ان کا اوالین مضمون کشمیری پنڈتوں کے ایک رسالے میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ دوسرے اخبارات بھی لکھتے رہے۔ منشی نول کشور نے اودھ اخبار جاری کیا تو سرشار اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ 1894 ء میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد کی دعوت پر حیدر آباد (دکن ) چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ ناول نگار کی حیثیت سے انھوں نے بہت کچھ لکھا۔ مثلا ہشو، کامنی ، پدمنی، کڑم دھڑم ، رنگے سیار، جام سرشار، میر کہسار وغیرہ زیادہ مشہور ہیں ۔ سرشار کا بڑا شاہکار افسانہ، فسانہ آزاد کی تخلیق ہے۔ جوتین ہزار سے ز یا د صفحات پر مشتمل ہے
اجمالی معلومات۔
عبد الحلیم شرر پنڈت ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ" آپ فسانہ آزاد کیا لکھا اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے" بیگم صاحبہ عابدہ حسن فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہے کہ"اردو زبان جو سمجھنے کے لیے فسانہ آزاد پڑھنا چاہیے۔"
فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا اور کافی مقبول رہا۔ قارئین اخبار ہر قسط کے لیے بے تاب رہتے اور زوق سے اسے پڑھتے رہے۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا ہو۔
لیکن آج تک یہ بات متنازع ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان۔ چناں چہ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں "کہ فسانہ آزاد ناول کی تکنیک سے باہر کی چیز ہے نہ پلاٹ ہے اور نہ واقعات ہیں۔ اور ربط اور تسلسل بھی نہیں ملتا۔بلکہ بعض واقعات تو ایسے ہیں کہ ان کا مرکزی قصے سے کوئی تٹ نہیں اس لیے ان کے نکال دینے بھی کوئی فرق نہیں پڑھتا"
اب جب کہ یہ ناول بھی نہیں تو اس شمار کونسی صنف ادب میں ہوتا ہے اس بارے میں پریم پال اشک لکھتے ہیں کہ"دراصل فسانہ ازاد ناول اور افسانے کی کڑی ہے جس ہم دوسرے لفظوں میں صحافتی ناول serial fiction بھی کہتے ہیں."
پریم پال کےاس رائے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فسانہ آزاد ایک صحافتی ناول ہے اور جو مرتبہ اور مقام فسانہ آزاد کو حاصل ہوا وہ کسی اور صحافتی ناول کو نہ مل سکا۔
اسلوب
بقول ایک محقق۔
فسانہ آزاد میں کردار بولتے ہیں انسان باتیں کرتے ہیں خود ساختہ سرشار نہیں۔ ان کے اسلوب میں توانائی اوریجنیلیٹی اور اصلیت ہے۔"
تقلید۔
پروفیسر آل احمد سرور نے سرشار کی نثر کو فسانہ عجائب کی ترقی یافتہ صورت قرار دیا ہے۔یعنی انھوں نے اپنی اس کتاب میں رجب علی بیگ سرور کی اسلوب کے حوالے سے تھوڑی بہت تقلید ضرور کی ہے۔
مثال کے طور پر "دیکھتے کیا ہیں کہ ابر نور بہار،نسیم مشکبار نے تمام شہر کو ننونی ارم بنایا دیا ہے۔"
اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جنمیں ہیمیں سرشار کے اسلوب کا رنگ ملتا ہے۔اس لیے پریم پال اشک لکھتے ہیں کہ"فسانہ آزاد میں جہاں تقلیدی انداز ملتا ہے وہاں صاف اور صحیح طور پر منشی رجب علی بیگ سرور کی جھلک نظر آتی ہے۔"
بیگماتی زبان فسانہ آزاد میں۔
پنڈت ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں میں خاکروب سے لے کر نواب تک کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے اور لطف یہ ہے کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطاچق سرشار نے بیگناتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیھکی تھی۔یہی وہ درسگاہ تھی جہاں سے انھیں زبان ورثے میں ملی اور انھوں نے اپنے سینت میں سال ہا سال چھپائے رکھا اور آخر تک اتنے سالوں کے بعد اسے فسانہ آزاد کی شکل میں پیش کر دیا"مثلا۔ میں کہی ہوں یہ ماجرا کیا ہے آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ منھ دیکھنے کو نگوڑا جی ترس گیا۔ دن رات کڑھا کرتی ہوں اوپر سے نیچے سے اوپر میرے جی کا حال اللہ ہی جانتا ہے یا میں جانتی ہوں آپ کا تو یہ حال ہے کہ چوبیسویں دن صورت دکھائی تو جیسے آگ لینے آئے تھے"
محاورے۔
پنڈت ناتھ سرشار نے جگہ جگہ محاوروں کا بہترین استعمال کیا ہے۔اور فسانہ آزاد میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کیے ہیں مثلاً ابیرکرنا(معنی دیر کرنا) اسی اڑنا(معنی ناچنا گانا) وغیرہ اس کے علاوہ سرشار نے ایک دودھ کھانا دودھ پینا کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہ محاورہ دلی تو کیا ہر جگہ دودھ پینا ہی بولا جاتا ہے۔ لیکن یوسکتا ہے کہ سرشار نے یہ محاورہ دودھ خود دن سے لیا ہو یا پھر دودھ سے بنی ہوئی مختلف اشیائے خوردنی مثلاً ربڑی، کھویا،برفی اور بالائی وغیرہ بنتی ہیں اور سرشار نے کسی کو دودھ کھانا ہی کہتے اور بولتے سنا ہوگا۔ ہاں لکھنو میں دودھ کھنا ہی کہتے اور بولتے سںنا ہوگا۔
رنگینی اور توانائی۔
سرشار کی ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھرمار ہے وہ مشکل نثر لکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔لیکن اس کے باوجود تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ان باتوں سے سرشار کے ہاں اسلوب کا بہترین استعمال کر اور الفاظ کی رنگینی ،ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر۔ میاں آزاد تھوڑی دیر کے لیے آدمی بن گئے مگر عشق کا حرف درمیان میں آیا خوش اور ہوش اڑ گئے۔ جںوں سر ہر چڑھ بیٹھا۔ اس سروجوئبار رعنائی اور گلبن گلزار دلربائی کا بوٹا ساقد آنکھوں میں پھر گیا۔
رنگینی و توانائی
سرشار کے ہاں ثقیل الفاظ اور فارسی اشعار کی بھر مار ہے۔ وہ مشکل نثر لکھتے ہیں جس کی وجہ سے طرز تحریر میں ثقالت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ اس سے انداز بیان کی وقعت اور فراوانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سے سرشار کے اسلوب میں رنگینی، ندرت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر: ”میاں آزاد تھوڑی دیر کے ليے آدمی بن گئے۔ مگر عشق کا حرف درمیان میں آیا اور ہوش اُڑ گئے۔ جنوں سر پر چڑھ بیٹھا۔ اس سروجوئیار رعنائی اور گلبن گلزار دلربائی کا بوٹا سا قد آنکھوں میں پھر گیا۔
مزاح
اس ناول میں اکثر مضحک خاکوں کے طور پر پہش کیا ہے۔ مثلا اس میں خوجی کا کردار اہم ہے اور اس ناول میں لکھنو معاشرت کی برائیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
مثال کے طور پر آزاد اور خوجی کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو۔
خوجی آزاد سے آپ کی طبعیت کیسی ہے؟
آزاد۔ مرہاہوں
خوجی۔الحمداللہ!
آزاد۔ خڈا کی مار تجھ پر۔ دل لگی کا بھی کیا بگونڈا ققت ہاتھ آیاہے۔ جی چاہتا ہے اس وقت زہر کھالوں۔
خوجی۔نوش جاں اور اس میں تھوڑی سی سنکھیا بھی ملا کیجیے گا۔
آزاد۔ مرکم بخت
خوجی۔ اب بوڑھا یوں، کس پر، مرنے کے دن تو لد گئے۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے مزاح سے جگہ جگہ کام لیا ہے۔آزاد کہیں کہیں مزاح پیداکرنے کے لیے"روز توند نجالے بیھٹے رہا کرتے تھے جیسے پن چکی کا دستہ یا گاؤ تکہ در بغل۔ یہ توند یا بے ایمان کی قبر".
مکالمہ نگاری
ناول نگار اپنا نقطہ نگاہ مکالموں کی مدد سے پیش کرتا ہے۔اس میں معیاری مکلمے بڑی بہترین خوبی پیش کیے گئے ہیں۔
مثلا ایک بانکے کی مکالمہ دیکھیے۔
"اجی حضرت دھمکانا کیسا ہم خود بلا میں پھنس گئے۔خدا ہی بچائے تو بچیں۔ صاف صاف یوں ہے کہ یہاں ہنارا, ایک پٹیٹ, ہے۔کمیدان ہے بلا کا پھکیت, ستم کا نکیت, قیامت کا ہاتھ۔ اس سے ہم ڈانٹ ہوگئی۔ کل نو چندی جمعرات کو ہمیں درگاہ میں گھرے گا کوئی دوسو بانکوں کی جماعت سے ہم پر حربہ کرنے کا قصد ہے۔اس طرف ساری خدائی ہے۔ادھر کچھ بھی نہیں ہم سوچتے ہیں کس برتے پر۔۔یار تم بانکپن پر حرف آتا ہے۔جائء تو کس برتے پر یار تم ساتھ چلو تو مزے ہیں ورنہ ہے موت مرے"
خامیاں۔
فسانہ آزاد کی سب بڑی خامی تو یہ ہے کہ اس میں ربط اور تسلسل کی کمی ہے 1878ء میں اودھ اخبار میں سرشار نے فسانہ ازاد قسط وار لکھنا شروع کیا۔ سرشار نے اسے قلم برداشتہ لکھا اور یہی اس کی سب سے بڑا نقصان یہ یوا کہ واقعات ایک دوسرے سےخلط ملط ہوگئے۔اس طرح واقعات اور کردار کے لحاظ سے یہ بہت سے چھوٹے چھٹ واقعات اور کرداروں میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ کبھی کبھی تو اس کی الجھی ہوئی ڈور کا سرا بھی نہیں ملتا۔ اور نہ ہی ایک کڑی دوسری کڑی سے جڑی ہوئی نظر آتی۔کیوں کہ سارا ناول بے اعتدالی میں لکھا گیا۔اس لیے اس میں ربط و تسلسل کا کوئی گزر نہیں۔ تکرار جو کہانی کے لیے سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔اس قصے میں بار بار آتی ہے۔جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو پہلی جلد میں پتہ نہیں چلتا کہ فسانہ آزاد کا پلاٹ کیا ہے اور اس کے کون کون سے اہم کردار ہیں۔
لکھنوی معاشرت کی عکاسی
بقول حامد حسن قادری
"سرشار نی اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہی جیسے متکلم سنیما کے پردہ پر چلتی پھرتی بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔۔۔ سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔"
سیاسی، معاشی،تہذیبی،پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین چہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
تعیش پسندی
مذہبی معتقدات کا ایک خاص رنگ
علمی و ادبی مذاق
ان میں تعش پسندی سب پر غالب ہے اس تعیش پسندی نے نوابین اودھ امرا جاگیرداروں اور خوش حال طبقہ کو عمومی طور پر عورتوں کا رسیا بنادیاتھا۔طوائف کا کوٹھا کے نمایش شاہدان بازاری کے سرعام رقص ورامش نے لکھںو کے مردوں سے بہادری کا جوہر چھین کر ان کو عیاش طبع بنا دیا۔
فسانہ آزاد کا موضوع
لکھنو کی تہذیب ومعاشرت سرشار کے فسانہ آزاد کا موضوع ہے۔اس تہذیب اور معاشرت نے جن افراد کو جنم دیا انہیں مردانہ وار زندگی گزارنے کا حوصلہ نہیں۔ہر ایک کردار کے فجر وعمل سے سطحیت عیش پرستی اور تماش بینی جھلکتی ہے۔
بقول ارشد کیانی
سرشار کا فسانہ آزاد کسی سیاح کا روزنامچہ نہیں ہے اور نہ ہی حالات واقعات کا کوئی بیانیہ ہے۔بلکہ یہ ایک زندہ تہذیب ومعاشرت کی مرقع نگاری ہے۔سرشار نے اپنے ناول میں ناول نگاری کی ذریعے گردوپیش کی زندگی پیش کی ہے۔اس کی زندگی کی عجاسی اتنی صحیح کی گئی ہے کہ نقل اور اصل میں فرق معلوم نہیں ہوتا۔
طبقاتی کشمکش۔
سرشار کسی فلسفہ حیات کے غلام یا داعی نہیں وہ طرز کہیں سے بیزار اور آئین نو کی دھن میں سرشار ہیں۔لیکن وہ چلتی پھرتی بے بنیاد اور کھوکھلی معاشرت پر چلتی ہوئی فقرہ بازی کرکے گزر جاتے ہیں۔
حقیقت نگاری۔
سرشار فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو اڈ کے صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے اس میں کوئج چیز مصنوعی نہیں۔۔ حقٹ میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرورہے لیکن تصنع یا بناؤٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چوں کہ وہ مصنوعی قسن کا ہے اور ریا کاری کا مظہر ہے۔
لکھنو سے عشق۔
سرشار نے جہاں لکھنوی ماحول سے باہر قدم رکھا وہیں منہ کی کھائی بمبئی شہر کی عکاسی کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے گویا لکھنو سے دہلی آرہا ہوں۔ترکی کے شہروں اور بازاروں کے مناظر خارجی اعتبار سے بہت دل چسپ ہیں۔ لیکن داخلی نقطہ نگاہ سے زیادہ موثر نہیں۔گویا سرشار نے اپنے مطالعہ کے بل پر منظر نگاری کی ہے۔
سرورپر فوقیت
رجب علی بیگ سرور لکھنو سے والہانہ عشق تھا۔اس نے بھی فسانہ عجائب میں لکھنوی تہذیب ومعاشرت کی مرقع کشی کی ہے۔ سرور نے اپنے کتاب کے دیباچے میں اور سرشار نے اپنے افسانے میں لکھنو معاشرت اور سوسائٹی اور تہذیب وتمدن کا حال دکھایا ہے۔
کردار نگاری
سرشار کی کردار پر کئی اعترضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا اور انہوں نے زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے۔
آزاد
آزاد فسانہ آزاد کا ہیرو سارا قصہ اس کے گرد گھومتا ہے وہ ایک آوارہ کا گھمگو انسان ہے۔کوئی نہیں جانتا وہ کون ہے کس کا بیٹا ہے کہاں سے تعلیم پائی۔کس خاندان سے تعلق ہے اور اس کا ذریعہ معاش کیا ہے۔اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ کشمیری مسلم گھرانے کا فرد ہے۔ اس کی عادات بانکوں سے ملتی چلتی ہیں۔ وہ ایک ترقی پسند انسان تھے وہ جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈے کا قائل نہیں۔تعلیم نسواں کا حامی ہے اور سماج کی ہر دکھتی رگ کو بڑی ہوشیاری سے پکڑتا ہے۔
خوجی۔
خوجی کا پورا نام بدیع الزماں ہے فسانہ آزاد کے اگرچہ بعض دیگر کردار بھی مزاحیہ ہیں۔لیکن ان سب سے خوجی کا کردار مزاحیہ اور جاندار ہے۔یہ کردار پورے ناول پر چھایا ہوا ہے۔اور قارئین اسی کی بدولت ناول میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ کردار ںاول کے ہیرو کے کردار سے زیادہ متحرک اور دلچسپ ہے۔
دوسرے کردار۔
ناول کا ایک کردار ہمایوں فر کا ہے جو لکھنو کا نگڑا ہوا نواب دکھائی دیتا ہے۔وہ ناول کی ہیروئن حسن آرا پر فریفتہ ہے وہ اپنی محبوبہ کو اپنی جواں مردی کے کارنامے سنا کر اسے آرام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک دفعہ وہ ایک جلتے ہوئے مکان میں گھس کر ایک بچے کو آگ کے شعلوں سے اٹھایا لاتا ہے۔ تو اس کی محبوبہ اس کی جوانمرادی سے متاثر ہو کر اس پر جان چھڑکنے لگتی ہے۔سسپہراآرا اور ہمایوں فر کی محبوبہ ہے جو آزاد خیال ترقی پسند ہوشیار اور تیز طرار لڑکی ہے وہ خوابوں پر یقین رکھتی ہے۔ اور ان کی تعبیر دریافت کرتی رہتی ہے۔
مجموعی جائزہ
اعتراضاتکی بھرمار کے باوجود سرشار کے فسانہ آزاد کی اہمیت کو کوئی کم نہیں کر سکتا۔یہی کتاب دراصل اپنے اصل معنوں میں ناول کے لیے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔سرشار نے مکمل طور پر اپنے معاشرے کی عکاسی کی ہے۔اور اردو ادب کو ایک عظیم اور خوب صورت کردار خوجی سے بھی نوازا ہے۔اسلوب اور زبان کے حوالے سے بھی انھوں اپنے انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔
بقول شوکت سبزواری۔
سرشار زندگی کے مصور نہیں بلکہ نقاد ہے۔ان کی مصوری تخلیق حیات نہیں،تنقیدِحیات ہے۔