تاریخ زبان اردو
ہند آریائی کی مختصر تاریخ
ماہر لسانیات اور مورخین کا خیال ہے کہ آریہ ہندوستان میں داخل ہونے سے قبل مشرقی ایران اور افغانستان میں کچھ عرصے کے لیے آریہ قبیلے ایران میں ٹھہرےاس دوران ان کی زبانیں ایک حد تک ارتقاء پاچکی تھی۔ اسی زبانوں کو ہم ہند آریائی خاندان السنہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
قیاس ہے کہ آریائی زبان بولنے والے ہندوستان میں ۵۰۰ق۔م میں آئے یہی وہ زمانہ ہے جس میں وید کی تخلیق ہوئی ہندوستان میں آنے سے پہلے کچھ کرنے کے لیےآریہ قبیلے افغانستان میں ٹھہرے اور کچھ دریائے کابل اور قرم کے کنارے سے پنجاب میں داخل ہوئے۔ابتدائی آریہ لاطینی زبانیں بولتے تھے اور خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ ہندوستان میں آریوں کی آنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ لوگ نیم خانہ بدوش قوم کی حیثیت سے زندگی گزارتے تھے۔ اس لئے انہیں نئی جگہ اور نئے وطن کی تلاش تھی۔ چنانچہ ہندوستان کو بھی ان لوگوں نے اپنا مستقر بنالیا۔اس سلسلے میں جارج گریر نے ان نظریے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ان کا خیال ہے کہ ہندوستان میں آریوں کے دو گروہ آئے۔ ایک پہلے دوسرابعد میں، پہلا گروہ دو آب گنگو جمن میں آباد ہوا اور دوسرے گروہ نے پہلے گروہ کو شمال جنوب اور جنوب مغرب کی طرف
دھکیل دیا۔ ای طرح بعد میں آنے والا گروہ بیرونی آریہ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
وید اور برہمنوں کی تہذیب و معاشرت نے اندرونی آریوں کے دائرے میں پرورش
پائی اور ان کی زبان بیرونی آریوں کی زبان سے الگ رہی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ دو الگ
الگ زبانوں کے گروہ پیدا ہوئے جو اس طرح ہیں۔ اندرونی دائرہ کی زبانیں
بیرونی دائرہ کی زبانیں
اندرونی دائرہ میں مغربی ہندی اور اس کی شان میں، اگر وہ قومی اور برج بھاشا
وغیرہ ہیں۔
بیرونی دائرہ کی زبائیں، سندھی، گجراتی، راد پوتی ، مرہٹی، مشرقی ہندی کی
میں اور ان کے علاوہ بہار کی، بنگالی، اڑیہ اور آسائی شامل ہیں۔
مگر گریر سن کے اس نظریئے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے بہر حال موجودہ ہند آریائی
زبانوں کو ان کی لسانی اور ترکیبی خصوصیتوں کے لحاظ سے پانی شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو اس طرح ہیں۔
شمالی مغربی
جنوب مغربی
وسطی
مشرقی
جنوبی
شمال مغربی
اس گروہ کی زبانوں میں مغربی اور مشرقی پنجابی اور سندھی کے علاوہ ان چینیوں کی
بولیاں بھی شامل ہیں جو آرمینیا ایشیائے کو چک شام اور یورپ کے مختلف مقامات میں پائے
جاتے ہیں۔
مغربی پنجابی۔
مغربی پنجانی کے اور کئی نام ہیں۔ لہذا، ہند کو چمکی، مالی وغیرہ یہ کئی بولیوں کا مجموعہ
ہے۔ جو مغربی صوبہ پنجاب کے تقریبا پانچ میلین باشندوں میں رائج ہے۔ اس کے بولنے
والے علمی اور ادبی مقاصد کے لئے بالعموم أردوخال خال ہندی اور پنجانی استعمال کرتے ہیں۔
مشرقی پنجابی۔
مشرقی پنجابی جو عام طور پر پنجابی کہلاتی ہے تقریبا۱۲میلین باشندوں کی زبان ہے۔
مشرقی پنجابی کی کئی اہم زبانیں ہیں۔ جن میں ڈوگری زیادہ مشہور ہے ۔ یہ بولی ریاست کشمیر
جموں اور ضلع کا گروہ میں رائج ہے۔ دور جدید میں سکھ “ قوم اسی زبان میں کچھ ادب کا
اضافہ کر رہی ہے۔
سندھ
یہ زبان دریائے سندھ کے نشیبی وادی اور علاقے ہی میں بولی جاتی ہے اس کے
بولنے والے تقریبا ساڑھے تین میلین ہیں۔ اس کی پانچ شاخیں ہیں۔ سریکی، کچھی، لاری ،تھریلی
وجودی،
سندھی جس رسم الخط میں لکھی جاتی ہے وہ فارسی اور عربی سے ماخوذ ہے۔
اقلیدس کاخیالی نقطہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر۔ غزل کو نیم وحشی صنف فن قرار دیتے ہیں۔تذکروں کی اولین اہمیت کے منکر ہیں صرف تاریخی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ انہیں تذکروں
میں بھی تنقیدی بصیرت نظر نہیں آتی۔ حالی، شبلی، مولوی عبد الحق غرض کوئی بھی ایسا
ادیب، فنکار، نقاد یا پھر ادب کی صنف نہیں جس پر کلیم صاحب نے کاری ضرب نہ لگائی ہو۔
ان کی نگاہ میں کوئی ادیب، کوئی فنکار ، کو ئی نقاد یا کوئی بھی صنف ایسی نہیں جو پورے معیار پراترتی ہو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کلیم صاحب مشرقی معیار نقد کو مغربی معیار نقدکے اصولوں پر تو لیتے ہیں۔ ظاہر ہے دونوں کی اپنی اپنی فضا ہے، اپنا اپنا ماحول ہے، اپنی اپنی سرزمین ہے اور دونوں کی بھی صورت میں ایک معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔ لیکن کلیم صاحب اپنی مغربی تعلیم کی روشنی میں مشرقی تنقید کو اس معیار پر پہونچانے کی کوشش کرتےہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی تنقید نکتہ چینی اور سخت گیری کے دائرے میں الجھ کر رہ گئی ۔ اگرچہ کلیم صاحب اگر چاہتے تو مشرتی تنقید کو اسی کی فضا میں مغربی تنقید کی روشنی میں سنوار سکتے تھے
لیکن جنون نے انہیں بے راہ روی پر لا کھڑا کیا۔ اس طرح ان کے تنقیدی نظریات پر اگر غور
کیا جائے تو ہم پاتے ہیں کہ وہ مشرقی تنقید کو مغربی اصول پر پرکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نقاد
کے لیے انہوں نے جو شرائط رکھے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ زبردست قوت حاسبہ کا مالک ہو، وسیع
المطالعہ ہو، شعر و ادب کے مفہوم و مسائل سے واقف ہو، بنیادی اور فرد کی باتوں میں فرق
کر سکتا ہوں، موازن، تجزیہ، تمیز اور فیصلے کی قوت رکھتا ہو اور واضح مدلل اور دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہہ سکتا ہو۔ غرض کہ کلیم الدین احمد کے نظریات پر ایلیٹ اور رچرڈز کے نظر ینے کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ ایلیٹ کی کتاب
"and Individual talent
ساری باتیں کلیم صاحب کی کتاب ”اردو تنقید پر ایک نظر میں نظر آتی ہے۔ معلوم ہو تا ہے
کہ کلیم صاحب نے خاص طور سے اسی کتاب کو اپنی کتاب کی بنیاد بنایا ہے ۔
اردو تنقید کی دنیا میں کھلے ہی کلیم الدین احمد کی تنقید کو تخری تنقید سے تعبیر کیا
جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے نظریات نے اردو تنقید کے لیے نئے راستے اور زاویے
جمع کئے۔ حالی کے بعد کلیم الدین احمد ہی وہ نقاد ہیں جنہوں نے عملی تنقید کو باضابطہ آگئے
بڑھایا۔ ان کی دوسری کتا ہیں" سخن ہائے گفتنی - اقبال ایک مطالعہ ہیں۔