غالب کے خطوط نگاری
اردو ادب پر ایک نظر
شاعر داغ دہلوی پر ایک نظر
شاعرہ ادا جعفری پر ایک نظر
اردو شاعری پر ایک نظر
فیض احمد فیض پر ایک نظر
ناول فسانہ آزاد پر ایک نظر
شاعر بہادر شاہ ظفر پر ایک نظر
فورٹ ولیم کالج پر ایک نظر
ناول آنگن پر ایک نظر
غالب کے خطوط نگاری
غالب کے خطوط نگاری
غالب سے پہلے خود نہایت روایتی انداز میں لکھے جاتے تھے عربی الفاظ میں لمبے چوڑے القاب سے خط شروع کیا جاتا تھا پھر اپنی خیریت لکھ کر مکتوب الیہ کے خیریت خدا کی درگاہ سے مطلوب ہوتی اس کے بعد اصل مطلب لکھا جاتا آخر میں گھر کی طرف سے سلام اور دعا لکھی جاتی ہے۔ آخیر میں بعض مقررہ کے ساتھ اپنا نام لکھا جاتا۔ مثلا، احمد،عاجز،سلیم، وغیرہ۔ غالب جو روشن عام پر چلنا پسند نہیں کرتے بلکہ وبائے عام پر مرنا بھی گوارا نہ تھا انہوں نے خط لکھنے کے ان مروجہ تحریروں کو خدا حافظ کہہ دیا۔ جہاں الفاظ القاب کا تعلق ہے اگر رائیسوں، راجاؤں، اور مہاراجاؤں کو خط لکھتے تو پرانے انداز کے عربی الفاظ استعمال کر لیتے ورنہ انہوں نے القاب کو یا تو بہت مختصر کر دیا یا بالکل اڑا دیا اور پہلی جملے سے اصل مطلب پر آگئے غرض کہ غالب کے خط میں پرانے تکلفات کم سے کم ملیں گے۔
غالب کے خطوط کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ ان کے خطوط بات چیت کا بدل معلوم ہوتے ہیں۔کیوں کہ اس خوبی کا احساس خود غالب کو بھی تھااور انہوں نے کسی کے نام اپنے حق میں لکھا ہے ہے میں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے ہے اب ہزار کوس سے گفتگو کیا کرو اور ہجر وصال کے مزے لیا کرو۔
خط بالکل ڈرامہ ہیں نہیں نہ شکل میں ملتے ہیں اور غالب نے ڈرامائی مکالمے اس وقت لکھے جب اردو میں ڈرامے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
اگرچہ غالب نے اپنے خطوط میں ہر طرح کی باتیں لکھی ہیں یعنی نہایت عالمانہ اور شاعرانہ باتیں بھی لکھی ہے۔ فارسی اور اردو کے بڑے بڑے شاعروں کے بارے میں اظہارِ خیال بھی کیا ہے۔ شاعروں کے بارے میں اپنے نظریات بھی ظاہر کی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ان کی خطوط خطوط ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور یہی ان خطوط کی سب سے بڑی خوبی معلوم ہوتی ہے۔ پوری طرح سمجھنے کے لئے ایک مثال ذہن میں رکھیے مولانا عبد الکلام آزاد کی خطوط کا مجموعہ غبارِ خاطر ایک زندہ رہنے والی کتاب ہے مولانا آزاد کے خطوط میں اعلی درجے کی بہت سی خوبیاں موجود ہے۔
لیکن ان خطوط کو پڑھتے وقت یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی خط پڑھ رہے ہیں۔خط پر مقالہ کا گمان نہیں ہونا چاہیے خط کو ہر حال میں خط ہی ہونا چاہیے یہ خوبی غالب کی تمام خطوط میں موجود ہیں۔غالب نے اپنے خطوط میں جس طرح نثر استعمال کی ہے تاریخی اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ادبی اعتبار سے سے۔ غالب کے زمانے تک ان کے بعد کے زمانے تک اردو نثر میں تکلف اور تصنع بہت تھا۔لوگ سیدھی سادی زبان میں لکھنا اور بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے غالب نے اپنے زمانے کے برعکس سادگی اور سلاست اختیار کی چھوٹے چھوٹے جملے لکھے اور ایسے خوبصورت جملے لکھے جو ان کے شعروں کی طرح آسانی سے یاد رہ جاتے ہیں۔
اردو کے چند بہترین نثر نگاروں میں سے ہے ان کی نگاری نے اردو نثر کی ترقی کا راستہ ہموار کر دیا یہ ان کی نثر کی تاریخ اہمیت ہے غالب سے پہلے میر امن دہلوی نے اپنی کتاب باغ و بہار میں میں سادگی اختیار کی تھی غالب کے بعد سرسید احمد خان نے سادگی کو فروغ دیا یا لیکن زبان کی سادگی کی ساتھ جتنا اعلی درجہ کا اسلوب غالب کے یہاں ملتا ہے وہ اردو کی کسی اور ادیب کے یہاں نہیں ملتا۔
غالب کے خطوط تین اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں اول اردو میں بہترین خطوط ہونے کے اعتبار سے، دوسری سوانح نقطہ نظر سے، غالب کے خطوط میں ان کی سوانح عمری پوشیدہ ہے مولانا غلام رسول مہر نے غالب کے خطوط کو سوانح عمری کے اعتبار سے ترتیب دے کر ان کی سوانح عمری مرتب کر دی ہے ہے انہوں نے اپنی طرف سے غالب کے بارے میں کچھ نہیں لکھا پھر بھی سوانح عمری تیار کر دی ہے۔ کے خطوط کی تیسری اہمیت یہ ہے۔ کہ ان میں تاریخی مواد کثرت سے ملتا ہے انہوں نے اپنے بہت سے خطوں میں اپنے زمانے کے حالات لکھے ہیں۔جو مورخین کے لئے قیمتی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں
غالب