پنڈت رتن ناتھ سرشار(افسانہ نگار،شاعر
نام، پنڈت رتن ناتھ سرشار
تخلص۔ سرشار
پیدائش،1846ء
پیدائش جگہ، لکھنو،ہندوستان
وفات، 21جنوری1903ء
وفات جگہ۔حیدرآباد،ہندوستان
سال، 57 سال میں وفات پائی۔
خاندان۔ کشمیر
مذہب، اسلام
پیشہ،مصنف،شاعر
کارہائے نمایاں، فسانہ آزاد
رتن ناتھ سرشار ایک معزز خاندان میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ابھی چار سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ مسلمان شرفاء کے گھروں میں آنا جانا تھا۔ اس طرح ان کی معاشرت کو قریب سے دیکھنے کا اور بیگماتی زبان عبور حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔ کنگ کالج میں داخل ہوئے مگر ڈگری نہ لے سکے۔ کالج چھوڑنے کے بعد چند سال تک ایک سکول میں مدرسی کی ۔ اسی دوران لینی ۱۸۷۲ ء میں ”اودھ پنچ" میں مضامین لکھنا شروع کیے۔ ان کا اوالین مضمون کشمیری پنڈتوں کے ایک رسالے میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ دوسرے اخبارات بھی لکھتے رہے۔ منشی نول کشور نے اودھ اخبار جاری کیا تو سرشار اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ 1894 ء میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد کی دعوت پر حیدر آباد (دکن ) چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ ناول نگار کی حیثیت سے انھوں نے بہت کچھ لکھا۔ مثلا ہشو، کامنی ، پدمنی، کڑم دھڑم ، رنگے سیار، جام سرشار، میر کہسار وغیرہ زیادہ مشہور ہیں ۔ سرشار کا بڑا شاہکار افسانہ، فسانہ آزاد کی تخلیق ہے۔ جوتین ہزار سے ز یا د صفحات پر مشتمل ہے۔
طرز نگارش (مع تبصرہ)
واقعات کی مصوری۔
سرشارفسانہ آزاد میں حقیقت پسندانہ انداز سے واقعات کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے بظاہر ایسے لکھنو تہذیب وثقافت کی مصوری کی ہے جو عیش عشرت کی بہترین مثال اور گہوارہ نظر آتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے بقول اس ظاہری عیش ونشاط کے پردے میں ایک تصویر کی جھلک ملتی ہے جو زوال انحطاط اور انتشار کی سوسائٹی ہے۔ جو نہ غم خاضر رکھتی ہے اور نہ فکرفرد بعض نے اسے ایک زوال پزیر تہذیب کہا ہے۔ تو سچ ہی کہا ہے۔
قدرت زبان
طرز تحریر کے سلسلہ میں ہمیں سرشار کی سب سے نمایاں خوبی زبان پر ان کی قدرت کاملہ نظر آتی ہے۔ اس لیے ان کی زبان سخت اور مضبوط ہے۔ کہ پڑھنے والا ان سے کچھ اس طرح بدگمان ہونے لگتا ہے کہ وہ لفاظی کا فن جانتے ہیں ۔ اسی طرح ایک طبقہ وہ بھی ہے کہ جو ان کی زبان میں تکلف کے زیادہ عنصر کی شکایت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ رجب علی بیگ سرور کی زبان کا پرتو ہے لیکن انصاف کی نگاہ سے دیکھا جاے تو زبان و بیان سے اپنے کرداروں میں جان ڈال کر دیئے ہیں زبان ہی سے تعلق سے ہمیں ان کے اس کمال کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ انھوں نے بیگماتی گفتگو کو بڑے حقیقی اور پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ برج نرائن چکیت کا یہ قول بہرحال درست ہے کہ سرشار نے محلات کے طرز معاشرت میں بول چال کا وہ رنگ دکھایا ہے کہ باید و شاید بیگمات کی نستعلیق چال ڈھال اورشتہ و پاکیزہ تقریر کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے۔
ظرافت اور طنز کی آمیزش
سرشار نے اپنی تحریروں میں بڑی حد تک فطری مزاح دکھائی دیتا ہے ہنسنا اور ہنسانا ان کی شخصیت کا ایک جزو دکھائی دیتا ہے۔اور اس عنصر سے ان کی نثر میں ایک چاشنی اور رنگینی کا رنگ پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں ایک تضاد کی کیفیت واضح نظر آتی ہے کہ اگر ایک طرف ان کا مزاج بڑا بلند اور معیاری ہے دوسری طرف بہت پست بھی۔ اس کا جواز بھی ہوسکتا ہے کہ موقع و مناسبت سے مزاح کا رنگ قائم رہتے ہیں لیکن یہ جواز بہر حال قابل قبول نہیں اور وہ اس لیے کہ ان کے معیاری مزاح سے جہاں قاری لطافت و تازگی محسوس کرنا شروع کرتا ہے وہاں اچانک متبدل نزاح سے دوچار ہوکر اس کی ساری کوفت اور بددلی میں بدل جاتی ہے۔
حثیت انھوں نے بطور نثر نگار پائی اور اس میدان میں ان کی نمائندہ تصنیف"فسانہ آزاد"ٹھہری۔بلاشبہ ان کا فسانہ آزاد فسانہ تہذیب لکھنو ہے۔وہ اپنی داستان میں کہیں بھی ہوں۔بنیادی و تصوراتی طور پر لکھنو کی فضاؤں میں ہی کھوئے رہتے ہیں۔
سرشار اور لکھنوی معاشرت کی عکاسی
بقول حامد حسن قادری
"سرشار نی اپنے تمام افسانے میں لکھنو کی معاشرت کا حال دکھایا ہے۔ سرشار کی مصوری ایسی ہی جیسے متکلم سنیما کے پردہ پر چلتی پھرتی بولتی چالتی تصویریں۔۔۔۔۔۔ سرشار چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل لکھتے ہیں۔"
سیاسی، معاشی،تہذیبی،پس منظر کو سامنے رکھ کر جب ہم لکھنوی معاشرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کی تین چہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی حقیقت نگاری۔
سرشار نے فسانہ آزاد میں لکھنو کی معاشرت کو صحیح خدوخال میں پیش کیا ہے اس میں کوئی چیز مصنوعی نہیں۔۔ کہانی میں مبالغے کی رنگ آمیزی ضرورہے لیکن تصنع یا بناؤٹ کہیں نہیں۔ سرشار کا افسانہ جس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ چوں کہ وہ مصنوعی کہانی کا ہے اور ریا کاری کا مظہر ہے
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی لکھنو سے عشق
پنڈت رتن سرشار کی تحریر میں لکھنو سے عشق۔
سرشار نے جہاں لکھنوی ماحول سے باہر قدم رکھا وہیں منہ کی کھائی بمبئی شہر کی عکاسی کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے گویا لکھنو سے دہلی آرہا ہوں۔ترکی کے شہروں اور بازاروں کے مناظر خارجی اعتبار سے بہت دل چسپ ہیں۔ لیکن داخلی نقطہ نگاہ سے زیادہ موثر نہیں۔گویا سرشار نے اپنے مطالعہ کے بل پر منظر نگاری کی ہے۔
سرور پر فوقیت رجب علی بیگ سرور لکھنو سے والہانہ عشق تھا۔اس نے بھی فسانہ عجائب میں لکھنوی تہذیب ومعاشرت کی مرقع کشی کی ہے۔ سرور نے اپنے کتاب کے دیباچے میں اور سرشار نے اپنے افسانے میں لکھنو معاشرت اور سوسائٹی اور تہذیب وتمدن کا حال دکھایا ہے۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی کردار نگاری۔
کردار نگاری
سرشار کی کردار پر کئی اعترضات ہوئے مثال کے طور پر انہوں نے کرداروں کی کردار کشی کی ہے۔اور کسی کو بھی سنجیدہ اور متین نہیں دکھایا اور انہوں نے زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے
پنڈت رتن ناتھ سرشار کی فن کارکردگی اور محاورہ۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے جگہ جگہ محاوروں کا بہترین استعمال کیا ہے۔اور فسانہ آزاد میں پورب کے ٹھیٹھ محاورے استعمال کیے ہیں مثلاً ابیرکرنا(معنی دیر کرنا) اسی اڑنا(معنی ناچنا گانا) وغیرہ اس کے علاوہ سرشار نے ایک دودھ کھانا دودھ پینا کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہ محاورہ دلی تو کیا ہر جگہ دودھ پینا ہی بولا جاتا ہے۔ لیکن یوسکتا ہے کہ سرشار نے یہ محاورہ دودھ خود دن سے لیا ہو یا پھر دودھ سے بنی ہوئی مختلف اشیائے خوردنی مثلاً ربڑی، کھویا،برفی اور بالائی وغیرہ بنتی ہیں اور سرشار نے کسی کو دودھ کھانا ہی کہتے اور بولتے سنا ہوگا۔ ہاں لکھنو میں دودھ کھنا ہی کہتے اور بولتے سںنا ہوگا۔