نام۔ادا جعفری
قلمی نام۔ عزیزجہاں
پیدائش۔22 اگست 1924ء
پیدائش جگہ۔ہندوستان،بدایوں
وفات۔12مارچ،2015ء
وفات جگہ۔پاکستان
قومیت۔ پاکستانی
شریکِ حیات۔ نور الحسن جعفری
پیشہ۔ شاعر
اصناف۔ غزل،آزادنظم،ہائیکو
نمایاں کارنامہ۔شناسائی
اہم اعزازات۔آدم جی ایوارڈ،تمغہ امتیاز،کمال فن ایوارڈ
اولاد۔صبحہ جعفری،عظمی جعفری،عامر جعفری
شعری سفر کا آغاز۔ترقی پسند تحریک
کچھ پاکستانی شاعرہ ادا جعفری کے بارے میں
ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں اور تخلص ادا،اور قلمی نام ادا جعفری ہے۔ وہ بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کانام مولوی بدرالحسن تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق نجی طور پرتعلیم حاصل کی ۔ عہد حاضر میں ان کا شمار بلند پایہ شاعرات میں ہوتا ہے۔ ان کی سخن سرائی کا آغاز دوسری جنگ عظیم اور پاک و ہند تحریک آزادی کے آشوب زمانے میں ہوا۔ ابتدا میں وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں ۔ نور الحسن جعفری سے شادی کے بعد ادا جعفری بن گئیں۔ ادا نے ایسے شہر میں جنم لیا جسے ادبی دنیا میں بڑی شہرت حاصل ہے۔سخن سرائی فضا کا ایسا اثر ہوا کہ وہ ایک معروف شاعرہ بن گئیں۔ ادا نے جب اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا تو اردو ادب کے عظیم شاعر اختر شیرانی اور شاعر اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی تھیں۔ ان دنوں آزاد نظم کا نیا رواج ہوا تو ادا جعفری نے آزاد نظم شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔ ادا جعفری کی ان کے دو شعری مجموعے شہرِ درد پر ادبی انعام سے نوازا گیا ادا جعفری نے کئی ملکوں میں ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ حکومت پاکستان کی طرف آپ کو تمغہ امتیاز دیا گیا۔وفات
محتصر علالت کے بعد 12مارچ 2015ء کو آپ کا انتقال ہوگیا۔
ادا جعفری کی شاعری پر ایک نظر۔
ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔وہ کم وبیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر وکمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔اور جو کچھ کہہ رہی ہیں۔ جس کی بدولت آج اردو ادب اس ادا کی شاعری ایک مقام رکھتی ہے۔وہ اپنے شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں۔حرف و صوت کی شگفتگی اور فکروخیال کے تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔چالیس سال کی سال پہلے ان کا شعر پہچان لیا جاتا ہے یہ ادا جعفری کی شاعری میں قدرتی فن ہے جو پورے اشعار کی رونق بن کر رونما ہوتا ہے اور اردو ادب میں جذب ہوجاتا ہے۔
ادا جعفری کی ہائیکو نظم پر ایک نظر۔
ادا جعفری نے جاپانی صنفِ سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ان کی ہائیکو کا مجموعہ"سازسخن"شائع ہو چکا ہے۔اس میں ادا جعفری نے صغائے حیات اور مسائل کائنات کو موضوع بنایا ہے۔ان کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہی کی رہنمائی وپیش قدمی نے نئی آنے والی پودے کو حوصلہ دیا ہے۔اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا ہے بلاشبہ وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے
نور کی تلاش۔
1950ء تک زندگی کے شب کدے میں ادا جعفری کو جس نور کی تلاش تھی وہ اسے مل گیا ہے اور اس نور نے ان کی بساط جسم وجاں پر بہت خوش گوار اثر ڈالا ہے۔خواب وخیال کی دھندلی راہوں میں امید کی چاندنی چٹکا دی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے دوپہر کی کڑی دھوپ میں جاننے چلنے والے تھکے ماندے مسافر کو دیوار کا سایہ میسر آگیا ہے۔اس دیوار کے ڈائے میں ہوئی ہے۔داخلی دنیا کے ہنگاموں میں قدرے ٹھہراؤ ایا ہے۔اور خارجی دنیا پر تازہ امنگوں کے ساتھ جرات مندانہ نگاہ ڈالنے جا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔اب ان کے لیے زندگی کی جوئی خوشی یا کوئی غم محض ذاتی یا محض کائناتی نہیں رہا بلکہ دونوں ایک دوسرے سے الگ طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ ان کوایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہوگیا ہے۔یوں کہںا چاہیے کہ ذات و کائنات میں وہ دوئی جس نے 1950ء سے کچھ پہلے تک ان کے دروں خانہ جاں میں تضاد وتصادم کی کرب آلودہ فضا ہیدا کررکھتی تھی۔اب وہ باقی نہیں رہی ہلے ان کو نظر ماضی حال پر مرکوز تھی۔اب ان سے آگے بڑھ کر مستقل کو خوش آئند بنانے اور نژاد نو کو زندگی کی تازہ بشاتوں سے ہمکنار کرنے کی جستجو میں ہے وہ خود کہتی ہیں
ادا جعفری کی ایک بہترین نظم۔
جان،تم کو خبر تک نہیں
لوگ اکثر برامانتے ہیں
کہ میری کہانی کسی موڑ پر بھی
اندھیری گلی سے گزرتی نہیں
کہ تم نے شاموں سے ہر رنگ لے کر
مرے ہر نشان قدم کو دھنک سونپ دی
نہ گم گشتہ خوابوں کی پر چھائیاں ہیں
نہ بے آس لمحوں کی سر گوشیاں ہیں
کہ ںازک مری بیل کو،اک توانا شجر
ان گنت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں
کوئی نارسائی کا آسیب اس رہگزر میں نہیں
یہ کیسا سفر ہے کہ روداد جس کی
غبار سفر میں نہیں۔
ماحول
ادا جعفری شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔اس وقت دوسری جنگِ عظیم کی بھونچال اور پاک ہند کی تحریک آزادی کا پر آشوب ماحول تھا۔یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940ء اور 1950ء کے درمیان عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے۔یہ دہائی سیاسی اور سماجی شعری وادبی ،ہر لحاظ سے پر شعور و ہنگامہ خیز دہائی تھی۔تاج برطانیہ ہندوستان سےاپنا بستر بوریاں سمیٹ رہا تھا اور نئی بساط سیاست بچھ رہی تھی۔پاکستان اور ہندوستان کے نام دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔اس لیے ادا جعفری کی شاعری میں وہ رونق ہے جو چاہیے تھا اس دور کے عین حالات کے مطابق مثلا ادا کہتی ہے کہ۔
کیا جانیے کس بات پر مغرور رہی ہوں
کہنے کو جس راہ پہ چلایا ہے۔ چلی ہوں
تم پاس نہیں ہوتے تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے بھول گئی ہوں
ترے لیے تقدیر میری جنبشِ ابرو
اور میں ترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں
صدیوں سے میرے پاؤں تلے جنتِ انساں
میں جنتِ انساں کا پتا پوچھ رہی ہوں
دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرہ خوں ہے
کس آس پہ سنگِ سرِ راہ چلی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اجالا کہ اندھیرا
دل شغلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں
ایک اور جگہ ادا کہتی ہے کہ۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہے تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجائیں راہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے ترے در وبام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرکوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبہ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے
تصانیف۔
میں ساز ڈھونڈتی رہی 1950ء میں شاعری کتاب
شہردرد1967ء شاعری کتاب، اس کتاب پر 1968ء میں آدم جی ایوارڈ بھی ملا ہے۔
غزالاں تم تو واقف ہو۔ 1974ء شاعری کتاب،
ساز سخن بہانہ ہے 1983ء شاعری کتاب،جاپانی صنف ہائیکو
حرف شناسائی،شاعری کتاب
موسم موسم کلیات 2002ء
جو رہی سو بے خبری 1995ء خودنوشت