میرانیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات
میرانیس کی مرثیہ نگاری میں چند بڑی خصوصیات یہ ہیں۔میرانیس اردو ادب کے ایسے شاعر گزرے ہیں جنہوں نے زمین سخن کو آسمان کردیا ہے۔جس طرح سودا نے قصیدہ گوئی میں کمال کرکے دکھایا ہے اسی طرح میرانیس نے بھی مرثیہ گوئی میں اپنا کمال کرکے دکھایا۔اس طرح بہت سے شعرا اردو ادب میں گزرے ہیں مثلا میرتقی میر نے غزل گوئی کو اپنا میدان بنا کر کمال دکھایا اردو ادب کو ترقی کی راہ سے گامزن کیا، اور اس میر حسن بھی مرثیہ نگاری میں کمال رکھتے ہیں اور بے مثل ہے۔میرانیس نے اپنے مرثیہ نگاری میں بہت سے نئے موضوعات شامل کیے ہیں اور اردو ادب میں ایک نیا رنگ دکھایا ہے جو اردو ادب کے لیے لازمی تھا۔اگر ہم مرثیہ نگاری کی میدان پر نظر رکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ مرثیہ نگاری کی میدان کو میرانیس نے بہت وسیع کیا ہے۔نئے نئے خیالات اور کمالات سے روشن کیا ہے۔۔۔
میرانیس کی مرثیہ گوئی چند کمالات ذیل ہیں۔
مثلا میرانیس نے واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد صفوی دور میں فارسی شعرا نے مذہبی عقیدت کی بناء مرثیہ نگاری شروع کی جن میں محتشم کانام سرفہرست ہے اردو کے دکنی دور میں بے شمار لکھے گئے شمالی ہند گوئی کا آغاز ہوا۔لیکن سودا سے پہلے جتنے مرثیے لکھے گئے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔سودا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لیے مسدس کو مخصوص کردیا جس کی اور مرثیے کے لیے مسدس کو مخصوص کردیا۔
مناظرت فطرت کی عکاسی،
مناظرت فطرت کی عکاسی میں میر انیس نے مرثیہ میں مختلف قسم کے مضامین بیان کیے ہیں اور مختلف قسم کی تصویریں الفاظ کے زریعے کھینچ کر ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے مرثیے مختلف تم کی تصویروں کے مرقعے نظر آتے ہیں۔ تصاویر ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ لیکن ان سے مرثیہ کی وحدت متاثر نہیں ہوتی۔ مثلا صبح کی تازگی شام کا سلونا رنگ، چاندنی رات کا پرکیف منظر، حد نظر تک سبزے سے ڈھکا فرش ، گرمی کی شدت وغیرہ جیسے مناظر ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود مرثیہ کے مختلف اجزاء ہیں۔ ان اشعار سے اندازہ اچھی طرح سے لگایا جاسکتا ہے کہ انیس کومناظر فطرت کی عکاکی کا کس قدر ملکہ حاصل ہے۔
صبح شفق سے چرخ پر جب لالہ زار صبح
گزار شب خزاں ہوا آئی بہار صبح
کرنے لگا فلک زر انجم نثار صبح
سرگرم ذکر ہوئے طاعت گزار صبح
تھا چرخ اخضری پہ رنگ آفتاب کا
کھلتا ہو جیسے پھول چمن میں گلاب کا
میرانیس کے بارے رام بابو سکسینہ کہتے ہیں کہ انیس کی شاعری جذباتِ حقیقی کاآئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور ازاد کے زمانے اے ہوا اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیاٹ سے کیا۔ پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوؤں کی کثرت ہے جن میں زچان پر فتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جابے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اتار چڑھاؤ اور فطرت کا ہر نقش نظر آتا ہے ان کا دعویٰ جس طرح بے جا نہیں۔
جہاں گری کی تپش اور شدت وطمازت کا بیان کرتے ہیں تو انیس کے الفاظ لو دینے لگتے ہیں۔
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
فطرت کو جودوں آب تو گوہر سے ملا دو
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھو
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھو
وہ لو وہ آفتاب کی شدت و تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
خود نہر عقلمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تها دھوپ سے پانی فرات کا
ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں کہ "میر انیس کے ہاں صبح عاشور تخلیق کاپر تولیے برآمد ہوئی ہے"۔ اور ڈاکٹر وزیر آغا مذید کہتے ہیں کہ میر انیس شعر میں شمع کی تصویریں اس طرح کھینچتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ ابھی پروانے آکر گرنے لگے گے۔ وہ جنگ کا نقشہ بھی اس طرح بیان کرتے ہیں کے تلواریں چلتی اور خون بہتا ہوا نظر آتا ہے۔
میرانیس کے آخری آرام گاہ کی تصویر
مراثی انیس کے اجزائے ترکیبی۔
چہرہ،چہرہ مرثیہ کا پہلا جزو ہوتا ہے اس کی حیثیت تقریباً ایسی ہی ہے جیسے قصیدے میں تشبیب کی ہوتی ہے۔چہرہ سے مرثیہ گو اپنے مرثیہ کا آغاز کرتا ہے یہ آغاز مختلف نوعیت کا ہوسکتا ہے۔انہوں نے خدا اس مرثیہ میں دعا کی ہے۔ مثلا۔
یارب! چمن نظم کو گلزار ارم کر
اے ابرکرم! خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سو نہ جائے
اقلیم سخن میرے قلم رو سے نہ جائے
سراپا،
مرثیے کا دوسرا جزو سراپا ہوتا ہے جس میں کرداروں کے جسم، قدوقامت اعر خط وخال کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ مثلا میرانیس کہتا ہے کہ،
گلدستہ حسین میں اکبر ساگلبدن
قربان جس کے تن کی نزاکت پہ یاسمن
سنبل کو لائے پیچ میں وہ زلف پر شکن
غل تھا کہ تنگ تر کہیں غنچے سے ہیں دہن
مطلب کھلا ہوا ہے خط سرسبز رنگ کا
بہ حاشیہ لکھا ہے اسی متن تنگ کا
رخصت،
مرثیہ کا تیسرا جزو رخصت ہے جب کوئی جنگ کے لیے جاتا ہے تو اہل بیت اس کو رخصت کرتے تھے جس کا ذکر ذیل کی سطور میں جارہا ہے۔حضرت زینب کے بچے علی پر ملاحظہ ہو۔
خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر
دیکھا کہ حسین انب علی روتے ہیں در پر
بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی وہ صفدر
ننہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر
بچے بھی تیری راہ میں زینب کے پلے ہیں
آمد۔
آمد کو ہم مرثیہ کا چھوتھا جزو تصور کرتے ہیں اس میں مرثیہ گو کردار کی آمد پیش کرتا ہے اور اس کی شان وشوکت پر روشنی ڈالتا ہے میرانیس نے اپنے مرثیوں میں مختلف کرداروں کی آمد دکھائی ہے مثلا حسینی لشکر میں سب سے زیادہ بہادر حضرت عباس تھے اس یہ سبب ہوا کہ ان کا عید شباب تھا اس لیے ان کے بازوؤں میں بچوں بوڑھوں سے زیادہ طاقت تھی۔
رجز،
مرثیہ کا پانچواں جزورجز ہے جب کردار میدان جنگ میں آتا ہے تو وہ آباؤاجداد کی شجاعت جا بیان کرتا ہے۔اور اسی بہادری کا قصد اعدا کے دل میں بٹھاتا ہے۔مثلا میرانیس نے حضرت امام حسین رضی اللہ کے رجزخوانی میں ماہر تھے۔اس لیے حضرت امام حسین علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ۔
اعدا کی زبانو پہ یہ حیرت کی تھی تقدیر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تو لے ہوئے شمشیر
دیکھو نہ مٹائو مجھے اے فرقہ بے پیر
میں یوسف کنعاں رسالت کی ہوں تصویر
واللہ تعلی نہیں یہ کلمہ حق ہے
عالم میں مرقع میں حسین ایک ذوق ہے
جنگ،
مرثیے کا چھٹا جزو جنگ قرار دیا جا سکتا ہے اس میں کربلا کی جنگ کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔میرانیس نے عون ومحمد کی جنگ کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔
میدان میں عجب شان سے وہ شیر آئے
گویا کہ بہم حیدر کی بہن و جعفر آئے
غل پڑگیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دوقمر آئے
یوسف سے فزوں حسن گراں مایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا
۔
شہادت،
مرثیے کا ساتواں جزو شہادت ہے دراصل شہادت کا سلسلہ میدان کربلا سے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔جب اہل جوفہ نے حضرت امام حسین کو اپنے وطن میں بیعت کے لیے بلایا تو انہوں نے اپنے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔وہاں اہل کوفہ نے ان کے ساتھ دغا کی اور ان کو شہید کردیا۔
بین،
بین کو ہم مرثیے کا آٹھواں جزو تصور کرسکتے ہیں اس حصہ میں شہدائے کربلا پر اہل بیت ماتم کرتے ہیں۔عورتیں سر کے چال کھول کر فریاد،فغاں کرتی ہیں۔اور مرد بھی رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں۔مگر بین کا زیادہ تر تعلق مستورات کی گریہ وزاری سے ہیں۔
جذبات نگاری،
نگاری میرانیس نے جذبات انسانی کی تصویریں منہ بولتی ثبوت ہیں چند اشعار ملاحظہ ہو
بیٹے کی جدائی پر۔
حضرت علی اکبر میدان جنگ میں اترنے کے لیے اجازت مانگتے ہیں ایسے موقع پر میر انیس نے کچھ یوں خاکہ کھینچا ہے کتنی فنکاری اور مرثیہ کمالات سے۔
مومنوں مرنے کو ہم شکل نبیٔ جاناہے
دولت بازوئے بکس پر زوال آتا ہے
کیا الم ہے کہ جگر سینے میں تھراتا ہے
داغ بیٹے کا فلک باپ کو دکھلاتا ہے
ماں تڑپتی ہے شہ جن وبشر روتے ہیں
کس جواں بیٹے سے ماں باپ جدا ہوتے ہیں
باوفا بھائی کے آخری لمحات،
حضرت امام حسین نے جب اپنے بھائی علمدار لشکر حضرت عباس صدائے استغاثہ سنی تو اپنے بیٹے حضرت علی اکبر کے ساتھ فوج کی طرف بڑھے۔ اسی اضطراری کیفیت میں باوفا بھائی کی جو محبت سموئی ہوئی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔حضرت امام حسین بیٹے کے ذریعے مضطرب و حیران بھائی کی پہنچتے ہیں جو دم توڑ رہا ہے۔
القصه لئے باپ کو اکبر ترائی میں
زخمی ملا وہ شیر دلاور ترائی میں
میں پائی جو بوئے خون برادر اور ترائی میں
لاشے کے پاس گر پڑے سرور ترائی میں
گزرتی عمر ہاتھ جیسے جوڑتے ہوئے
دیکھا اسی کو خاک پہ دم توڑتے ہوئے
حضرت امام حسین کی آخری رخصت۔،
امام حسین آخری رخصت کو قیام اہل بیت میں تشریف لاتے ہیں۔ بیوی، بہنیں اور بیٹیاں ساتھ گھیرے ہوئے ہیں۔یہ منظر نہایت دلدوز ہے۔
تھرا رہے تھے پاؤں شہہ تشنہ کام کے
سردوش پر تھا زینب عالی مقام کے
فرماتے تھے بہن علی اکبر گزر گئے
ہم ایسے تخت جاں تھے کہ ابتک نہ مر گئے
میر انیس کی مصورانہ قدرت۔
میرانیس نے لفظوں کے زریعے ایسے زبردست مرقعے کھینچے ہیں جو شاید ایک مصور کا قلم اس بانکپن سے نہ کھینچ سکے۔ترائی کے علاقے میں جہاں زمین اونچی نیچی ہوتی ہے۔ایک چابکدست سوار کی سواری کا اس سے بہتر اور کیا منظر ہوسکتا ہے۔
برچھیوں اڑتا تھا دب دب فرس کر رانوں سے
آنکھ لڑ جاتی تھی دریا کے نگہبانوں سے
جب بچہ سہم جاتا ہے تو ماں باپ سے لیپٹ جاتا ہے۔یہ بچوں کی نفسیات ہیں۔ چناں چہ حضرت علی اصغر کے واپسی کے وقت کا منظر اس سے فطری اور حسب حال ہوسکتا ہے۔
دکھائی شکل اجل نے تو ڈر گئے اصغر
لیپٹ کے باپ کی چھاتی سے سہہ گئے اصغر
رزمیہ شاعری،
انیس نے رزمیہ شاعری اپنی پوری تابناکی کے ساتھ اردو زبان میں داخل کی۔وہ اس فن میں طاق نظر آتے ہیں۔ قاری کے سامنے تمام مناظرشدت ہولناکی کیفیت ، حرارت اور بہادری کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں ۔ میر انیس نے سینکڑوں انداز کے تلوار اور گھوڑے کی تعریف کی ہے۔ لیکن ہر بیان اپنے اندر ایک نیا انداز رکھتا ہے۔ اس رزمیہ شاعری میں وہ زور ہے کہ اسے دنیا کی بڑی سے بڑی شاعری کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ انیس نے ہر جنگ میں تلوار اورگھوڑے کے نئے نئے ڈھنگ سے تعریف کی ہے۔
ہنگامہ جنگ،
میدان جنگ میں جب دور فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہوتی ہیں ۔ میر انیس اس ہنگامے کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔
کا نے عبق زمیں کے پہلے چین لاجورد
مانند کہرا ہوا مٹی کا رنگ زرد
اٹھ کر زمیں سے بیٹھ گئی زلزلے میں گرد
تینوں کی آنچ وکھر کے بھاگی ہوائے سرو
سے ران کے پوش اڑے حوش وزیر کے
روزمرہ اور محاورہ،
میر انیس نے روزمرہ اور محاورہ کا استعمال بہت خوب صورت طریقے اور فنکارانہ طریقے سے کرتے ہیں اور ان کی مرثیہ گوئی میں جگہ جگہ روزمرہ اور محاوروں سے کام لیتے ہیں مثلا۔
گر کر کبھی اٹھے کبھی رکا زمین پر
اگلا کبھی لہو تو سنبھالا کبھی جگر
تشبیہات و استعارات کا استعمال،
میرانیس نے مرثیہ گوئی میں جگہ جگہ تشبیہات و استعارات کا استعمال کافی مہارت سے کیا ہے جس سے ان کی مرثیہ گوئی مذید نکھری اور سجی ہے۔
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی
یوں برچھائیاں تھیں چار طرف اس جناب کی
جیسے کرن نکلتی ہے گرد افتاب کی
تلوار کی تیزی،
میرانیس نے جس طرح گھوڑے کی تیزرفتاری کی تعریف کی ہے اسی طرح تلوار کی تیزی کی بھی تعریف کرتا رہتا ہے مثلا۔
جس پر چلی وہ تیغ وہ دوپارہ کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارہ کیا اسے
سراپا نگاری،
میرانیس نے مختلف عمر کے لوگوں اس سراپا نگاری میں ان لوگوں کی بہترین تصویریں کینھچی ہیں۔مثلا وہ حضرت امام عباس رضی اللہ عنہہ کے جواں مردی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے حسین وجمیل چہرے کے تعریف میں کہتے ہیں کہ ان کے چہرے سے جلال وجمال برس رہا ہے۔
تھا زیب سر عمامہ محبوب کبریا
مہتاب سے سفید تھی کاندھے پہ ایک عبا
پہنے قمیص حضرت یوسف تہہ قبا
باندھے ہوئے کمر میں کمر بند مرتضیٰ
داؤد کی زرہ شہہ عالی کے بر میں تھی
وہ ذوالفقار حیدر صفدر کمر میں تھی۔