فورٹ ولیم کالج
اس کالج کا پس نظر یہ ہے 1798 جب لارڈ ولزلی ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر ہوا تو یہاں کے نظم و نسق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ انگلستان سے جو نئے ملازمین کمپنی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے یہاں آتے ہیں وہ کسی منظم اور باقاعدہ تربیت کے بغیر اچھے کارکن نہیں بن سکتے۔
لارڈ ولزلی کے نزدیک ان ملازمین کی علمی قابلیت میں اضافہ کرنا اور ان کو ہندوستانیوں کے مزاج اور ان کی زندگی کے مختلف شعبوں ان کی زبان اور اطوار طریقوں سے واقفیت لادنا۔
یہاں پہلے زبان سیکھنے کے لئے افسروں کو الاونس دیا جاتا تھا لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد کی نہیں ہو سکتے تھے۔اس لیے لارڈ ولزلی گورنر جنرل بن کر انھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ انگریزوں کو اگر یہاں حکومت کرنی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کا مقامی زبانوں اور ماحول سے آگاہی کے لیے تعلیم وترتیب کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔ان وجوہات کی بناء پر ولزلی نے کمپنی کے سامنے ایک کالج کی تجویز پیش کی۔کمپنی کے کئی عہداروں ور پادریوں نے اس کی حمایت کی۔
اور اس طرح جان گلکرسٹ جو ہندوستانی زبان پر دسترس رکھے تھے۔کمپنی کے ملازمین کو روزانہ درس دینے کے لیے تیار ہوگئے اور لارڈ ولزلی نی یہ حکم جاری کیا کہ ائندہ کسی سول انگریز ملازم کو وقت تک بنگال،اڑیسہ اور بنارس میں اہم عہدوں پر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک وہ قوانین و ضوابط کا اور مقامی زبان کا امتحان نہ پاس کر لے۔اس فیصلے کے بعد گلکرسٹ کی سربراہی میں ایک جنوری 1799ء میں ایک مدرسہ اورینٹل سمیناری قائم گیا۔جو بعد میں فورٹ ولیم کالج کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔کچھ مسائل کی وجہ سے اس مدرسے سے بھی نتائج برآمد نہ ہوئے جن کی توقع تھی۔ جس کے بعد لارڈ ولزلی نے کالج کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔
اردو ادب میں فورٹ ولیم کالج کی اہمیت۔
فورٹ ولیم کالج اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج اردو ادب کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اگرچہ یہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا۔تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لیے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔
سر زمین پاک ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ء میں قائم کیا گیا تھا۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام
لارڈ ولزلی نے کمپنی کے اعلیٰ حکام سے منظوری حاصل کرکے 10 جولائی 1800ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے قیام کااعلان کیا۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یوم تاسیس 23 مئی 1800ء تصور کیا جائے۔کیوں کہ یہ دن سلطان ٹیپو شہید کے دارالحکومت سرنگا پٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔جب کہ کالج میں باقاعدہ درس وتدریس کا سلسہ 23 نومبر1800ء کو یعنی کالج کے قیام کے اعلان کے بعد 6 ماہ بعد شروع ہوا۔کالج کے قواعد و ضوابط بنائے گئے اس کے علاوہ گورنر جنرل جو جالج کا سرپرست قرار دیا گیا۔ کالج کا سب سے بڑا افسر پروسٹ کہلاتا تھا۔پروسٹ کا برطانوی کلیسا کا پادری ہونا لازمی تھا قرار دیا گیا۔
فورٹ ولیم کالج میں نصابِ تعلیم۔
اس کالج کے ریگولیشن کے تحت کالج میں اردو ہندوستانی عربی فارسی سنسکرت مرہٹی اور کٹری زبانوں کے شبعے قائم کیے گئے۔اس کے علاوہ اسلامی فقہ ہندو دھرم اخلاقیات اصول قانون برطانوی قانون معاشیات جغرافیہ ریاضی یورپ کی جدید زبانیں انگریزی ادبیات جدید وقدیم تاریخ ہندوستان دکن کی قدیم تاریخ فزکس کیمسٹری اور عکوم نجوم وغیرہ کے تعلیم کا بندوست کیا گیا تھا۔کالج میں مشرقی زبانوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔اس کیے السنہ شرقیہ کے شعبوں میں انگریز پادریوں کے علاوہ پروفیسروں کی مدد کے لیے شعبے میں منشی اوع پنڈت بھی مقرر کیے گئے تھے۔ ہندوستان زبان کے شعبے میں پہلے بارہ منشی مقرر ہوئے جس سے بعد میں بڑھا کر پچیس کر دیا گیا۔
فورٹ ولیم کالج کے مصنفین۔
اس کالج میں صرف ایک تعلیمی ادارہ نہ تھا بلکہ یہ جالج اس زمانے میں تصنیف و تالیف کا بجی بڑا مرکز تھا اس کالج کے استاتذہ اور منشی صاحبان طلباء کو پڑگانے کے علاوہ کتابیں بھی لکھتے تھےیہی وجہ ہے کہ اس کالج میں لغت تاریخ اخلاقی قصوں اور مذہبی کی کتابیں لکھی گئی اور مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے منظور شدہ کتابوں پر انعام بھی دیا جاتا تھا۔کالج کے قیام کے ابتدائی چار سالوں میں 23 کتابیں لکھی گئیں۔ذیل میں بعض مخہور اہم مصنفین اور ان کی تصانیف کا ذکر اختصار کے ساتھ درج ہے۔
ذکرِ تصانیف اور مصنفین
گلکرسٹ،میرامان اللہ یعنی میرامن،سید حیدر بخش حیدری،میرشیرعلی افسوس،میر بہادر علی حسینی،مظہر علی ولا،مرزا کاظم علی جوان،خلیل خان اشک،نہال چند لاہوری، بینی نارائن جہاں،
ان مصنفین کے علاوہ جن کا اوپر زکر ہوا ہے۔۔ کالج کے ان مصنفین نے کافی ادب کو ترقی دی اور انگریزوں کو درس دینے میں کمال کرکے دکھایا۔
مثلا۔ مرزا جان تپش، میر عبداللہ مسکین، مرزا محمد فطرت، میر معین الدین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
کالج کی خدمات۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انگریزوں نے یہ کالج سیاسی مصلحتوں کے تحت قائم کیا تھا۔ تاکہ کالج انگریز یہاں کی زبان سیکھ کر رسم و رواج سے واقف ہوکر اہل ہند پر مضبوطی سے حکومت کر سکیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فورٹ ولیم کالج شمالی ہند کاوہ پہکا ادبی اور تعلیمی ادارے ہے جہاں اجتماعی حیثیت سے ایک واضح مقصد اور منظم ضابطہ کےتحت ایسا کام ہوا جس سے اردو زبان وادب کی بڑی خدمت ہوئی۔
اس کالج کے تحت جو علمی و ادبی تخلیقات ہوئیں جہاں وہ ایک طرف علمی و ادبی حیثیت سے بڑی اہمیٹ رکھتی ہیں۔تو دعسری طرف ان کی اہمیت۔ وافادیت اس بناء پر بھی ہے۔کہ ان تخلیقات نے اردو زبان و ادب کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل میں بڑا حصہ لیا۔حصوصا ان تخلیقات نے اردو نثر اور روش کو ایک نئی راہ پر ڈالا
فورٹ ولیم کالج