تصور مرد مومن
اقبال ایک بہترین شاعر ہے جس نے اپنی شاعری کا محور صرف اور صرف اپنی ذات تک محدود رکھا۔علامہ محمد اقبال نے جگہ جگہ تصور مرد مومن کو سارے مسلمانوں کے لیے وجہ شہرت بنایا ہے۔
شاعر اسلام علامہ محمد اقبال نے اپنے افکار میں مرد مومن اور انسان کامل کا بیان کافی بہترین انداز میں کیا ہے۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال جدید شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔اگر دکھا جائے تو علامہ محمد اقبال نےجو اصطلاحات سے کام لیا ہے وہ ذیل ہے۔
مثلا مردحق،بندہ مومن،بندہ آفاقی،اور مردِ مومن،بہترین اصطلاحات استعمال کیا ہے۔اقبال نے یہ اصطلاحات حقیقتاً ایک ہستی کے لیے استعمال کیا ہے یہ نام ایک ہستی ہے جو شاعر مشرق اقبال نے صرف اور صرف ایک ہستی کے لیے استعمال کیا ہے۔لیکن مختلف نام سے پکارا گیا ہے۔یہ سب نام تصور خودی کا مثالی پیکر بنا ہوا نظر آتا ہے۔
اس کی مثال اس شعر میں دیکھ سکتے ہیں۔
پہلا مثال دیکھیے۔
نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقین
اور عالم تم،وہم وطلسم ومجاز
دوسرا مثال دیکھیے
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
شاعر مشرق، شاعر اسلام کو یہ مثال بہت محبوب ہے اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اس مثالی ہستی کا ذکر باربار جگہ جگہ ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس پر یعنی مثالی ہستی کی کردار پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں اور لوگوں میں بہت مقبول رہا ہے۔ان کردار میں سب سے جو بڑا اور مضبوط کردار ہے وہ مرد مومن، سوال یہ بنتا ہے کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے یہ مثالی ہستی کی کردار کہاں سے لیا ہوا ہے اور کہاں سے اخذ کیا ہوا ہے جو شاعر مشرق اقبال کو اتنا عزیز کیوں لگا اور اس میں کیا ایسی خاص بات ہے اور وہ خاص صفات کیا ہے؟اور ایک بات یہ بنتی ہے کہ کیا وہ مثالی کردار تخیلی ہے یا کوئی اور شخصیت یا کردار ان کے لیے مثال بنی۔
ان سب سوالوں کا جواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی کلام اس کی گہری مطالعہ اور باریک بینی سے دیکھنا ضروری بن جاتا ہے پھر ان سب سوالوں کا جواب مل سکتا ہے۔
ان باتوں ان سوالوں کے بارےمیں مختلف ادیبوں کی دانش وروں کی آراہ ملتی اور درکار ہیں۔
کچھ مرد مومن کے بارے میں۔
کچھ دانش ور کہتے ہیں کہ یہ اقبال نے یہ مثالی کردار اسلامی تعلیمات اور اسلامی تصورات پر مبنی ہے جو کافی حد تک درست آراہ لگتی ہے۔اس بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسلامی مفکرین سے شاید مطالعہ اور استفادہ لیا ہوا ہے اس لیے شاید یہ کردار علامہ کو بہت پسند آئے۔اس بارے میں عبد الکریم الجیلی جیسے عظیم مفکر اسلامی سے علامہ نے استفادہ لیا ہوا ہے۔اور اس مثالی کردار کے بارے میں ایک گروہ اس مثالی کردار کو مغربی فلسفی نیٹشے سے تشبیہ دیتے ہیں شاید یہ بھی درست ہو۔اور کچھ تویہ خیال کرتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے قدیم یونانی فلاسفرز سے لیا ہے اور کچھ تو مولانا روم کی دین داری قرار دیتے ہوئے رونق دیتے ہیں اور گہرے مطالعہ سے تسلیم کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔
ان سب باتوں اور ان سب مختلف آرا سے اور متضاد آرا سے ضروری بنتا ہے ان مثالی کرداروں پر بات کرنے سے پہلے ان سب افکار تخیل کو باریک بینی سے مطالعہ کرنا جائزہ لینا ضروری ہے۔
جو یہ مثالی کردار کا تصور قبل مشرق اور مغرب میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے موجود تھے۔
اقبال نے سب کرداروں سے کس حد تک فائدہ لیا اور ان سب باتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اقبال کا اسلامی تصور
اسلامی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کائنات کو اور انسانی صلاحیتوں کو اور انسان کی خوبٹ کو بے حساب کمالات سے نوازا ہیں۔اور اس ارض پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات قرار دے رکھا تاکہ یہ انسان کل میرا بنے اور میرا اقرار کر لیں۔
اور اس عظیم انسان یعنی اشرف المخلوقات کو بہترین اعزاز سے نوازا۔اور اس کمزور اور عظیم کے انسان کے درجات کو بہت بلند فرمایا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہی انسان اللہ تعالیٰ کے اوصاف کا چمکتا ہوا آئینہ بن سکتا ہے اور کامل انسان بن سکتا ہے۔ان سب باتوں کے لیے اللہ تعالٰی نے ایک شرط دی ہے کہ آدمی جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور میرے محبوب کی نقش قدم پر چلے گا وہی انسان کامل اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق ہوگا۔
اس لیے اللہ تعالٰی نے سب بنی نوع انسان کے لیے پیغمبرِ اسلام کا طریقہ اور نمونہ بہترین عمل اور درجہ قرار دیا ہے ۔اگر یہی انسان خود کو اس عمل کے لیے اور اپنے پیروکار کے طریقے پر چلنے کی کوشش کریں تو یہی بندہ نواز اللہ تعالیٰ کی رنگ میں رنگا اور سجاوٹ سے لیس ہو گا اور اس دنیا میں اور آخرت میں یہی بندہ غریب نواز اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور بہت عزیر بندہ تصور ہوگا۔ان سب کا باتوں کی جڑ اور اسلام کا حقیقی مطلب مقصد ایسے ہی انسان پیداکرنا بنانا ضروری ہے۔
اسلامی مفکرین
اسلامی اور مسلمان انسان کامل کے تصور کو اپنا موضوع بنالیا ہے اور دوسری طرف روحانی ارتقا کے بارے میں کافی بیان کیا ہے جو ذیل ہے۔ بعض لوگ اس قدر سریع فکر اور درست نظر اور صاحب رائے معلوم ہوتے ہیں کہ آئندہ ہر قسم حادثات کے پیش گوئی کرنے والے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی لوگ غیب کی باتوں کو دیکھ اور جان بھی لیتے ہیں۔جب انسان اس باریک کمالات کا صاحب بنتا ہے تو اپنے کمالات کی وجہ ملائک کی سرحد میں داخل ہوجاتا ہے اور اپنے کمالات اور اعلیٰ درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ان کمالات کی وجہ اس انسان میں اور فرشتوں میں تھوڑا سا فرق رہ جاتا ہے کیوں کہ فرشتہ ایک نورانی مخلوق خدا ہے اور انسان نورانی نہیں بلکہ کائناتی مخلوق خدا ہے۔
کچھ ابن مشکویہ کے بارے میں۔
"جو زندگی آئین الہی کی تابع ہوتی ہے وہ مردمومن بن جاتا ہے اور خقیقت کا راز اس پر صاف ظاہر ہوجاتا ہے۔ غرض یہ کہ اس ہر عمل سکنت خدا کا بن جاتا ہے۔اس کی انکھ خدا کی آنکھ اور اس کلام خدا کا کلام اور اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔یہ کمالات اور کرشمہ انسانیت اور الہیت آپس میں جوڑ جاتی ہے اور اس کا نتیجہ انسان ربانی کی بہترین مثال بن جاتی ہے۔بقول "عبد الکریم الجیلی"
کچھ نیٹشے کے بارے میں۔
یہ ایک مشہور جرمن فلسفی گزرا ہے جس نے اپنی کئی کتابوں میں فوق البشر یعنی انسان کے تصور کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔اگر نیٹشے کا مطالعہ کر لیں تو یہ جرمن فلسفی اوائل عمر میں خداکامنکر تھا۔ بعد میں اس ایک ایسے انسان کی تلاش کی شوق ہوگئی جو سپرمین فوق البشر یا مرد برتر ہو کہلا سکے۔وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ۔"فوق البشر وہ اعلی فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اورجو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے ابھرے گا اور سب پر چھا جائے گا"