شیخ محمد ابراہیم ذوق
محمد ابراہیم ذوق بہترین اور ایک چمکتا ہوا ستارا اردو ادب میں گزرا ہے۔شیخ محمد ابراہیم ذوق کی شاعری اور "قصیدہ نگاری"دل کی درد سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں ابراہیم ذوق بہترین شاعر کیا بہترین قصیدہ گو سمجھا جاتا ہے۔
محمد ابراہیم ذوق اردو ادب کے۔ بہترین اور عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے ہم عصر تھے۔ایک ایسا وقت تھا کہ ذوق اور غالب دونوں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اساتذہ محترم سمجھے جاتے تھے۔
مغل خاندان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر دونوں شاعر ذوق اور غالب سے اصلاح لیتے تھے اور مغل خاندان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر ایک بہترین شاعر اور مصنف گزرے ہیں جو شاعری کی میدان میں پہلے محمد ابراہیم ذوق کے اور بعد میں مرزا اسداللہ خان غالب کے شاگرد رہے۔
شاعر محمد ابراہیم ذوق
22 آگست 1790ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور شاعری کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا کافی حد تک اپنے زمانے میں اور اردو ادب میں
"ذوق
کی شاعری" پسند کی گئی ذوق دہلی میں اپنے زمانے اور ہم عصر میں بہترین شاعر گزرا ہے۔
محمد ابراہیم ذوق کی عمر
64 سال تھی اور
64 سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا جس پر غالب کو کافی صدمہ ملا۔ دہلی کی فضا سوگ میں ڈوب گئی ہر طرف سوگ ہی سوگ پھیل گیا۔محمد ابراہیم ذوق نے دہلی میں وفات پائی تھی۔اور ذوق شہریت سے مغلیہ خاندان سے تھا۔اور عرفیت ذوق سے اپنے زمانے میں مشہور رہا۔
ذوق نے قلمی نام ذوق استعمال کیا ہے اور اصل محمد ابراہیم ذوق لکھا کرتا تھا جو یہ آپ پیدایشی نام تصور کیا جاتا ہے۔اور شاعری کی میدان نے محمد ابراہیم ذوق نے ذوق تخلص استعمال کیا ہے۔پیشہ کے لحاظ سے ذوق مصنف،شاعر تھا۔ اور ذوق شاعری میں جس صنف سے کام لیا ہوا ہے وہ ہے صنفِ غزل،قصیدہ،مخمس ذوق کا بہترین موضوع رہا ہے۔
ذوق اپنے موضوعات سے محبت سے
"ذوق شاعری" کرتا تھا۔
ذوق شاعری میں بہادر شاہ ظفر اور شاعر داغ دہلوی سے متاثر رہا ہے۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق کی ابتدائی زندگی
شاعر ذوق کا تعلق دبستان دہلی سے تھا اور شاعری میں ذوق نے دبستان کو زیادہ اہمیت دی ہے۔اور دبستان دہلی ہی کی شاعری سے ذوق کی شاعری کو رونق ملی شاید کسی اور کو ملی ہو۔شاعر محمد ابراہیم ذوق ایک غریب سپاہی محمد رمضان کا بیٹا تھا جو
1789ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ذوق نے خافظ غلام رسول کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی جس سے ذوق کو کافی علم ملا۔ اس سلسلے میں محمد ابراہیم ذوق کے استاذ محترم خافظ غلام رسول نے شاعری سے شوق رکھا تھا جس سے ذوق کو اصلاح ملی۔اس وجہ سے ذوق نے بھی شعر کہنا اس وقت شروع کیا جوانی کی عمر اور کافی مشہور رہا اس زمانے میں۔
اس زمانے یعنی دبستان دہلی میں شاہ نصیر دہلوی بڑا مشہور تھا ہر جگہ شاہ نصیر دہلوی کا چرچا ہی چرچا تھا۔چلتے چلتے شاعری کی میدان میں ذوق نے شاہ نصیر دہلوی کے شاگر ہوگئے اور کافی ترقی ملی وہاں سے ذوق نے شاعری کو اپنا پیشہ بنالیا اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ شاعری کی میدان نے بہت محنت سے کام لیا جس سے ذوق کی شاعری چمکی اور ادبی اور علمی حلقوں میں شہرت پائی اور قلعہ معلی اس زمانے میں چرچا پر تھی اس تک رسائی حاصل ہوئی۔
سخت محنت کرنے کے بعد بہت پزیرائی ملی اور پورے دہلی میں چرچا رہا۔اور اس پزیرائی سے خود محمد ابراہیم ذوق نے مغل خاندان کے آخری حکمران بہادر شاہ ظفر کو اپنا مایہ ناز کلام پیش کرنے لگا۔ جس محمد ابراہیم ذوق کو حوصلہ ملا۔اور بہادرشاہ ظفر کو بھی کلام بہت پسند آیا۔اور اپنا استاذ محترم مقرر کیا۔
یہی سے محمد ابراہیم ذوق کی درباری زندگی اور درباری شہرت ملی اور پورے دربار میں مانا جاتا تھا۔بہادر شاہ ظفر نے محمد ابراہیم ذوق کو خاقانی ہند کا خطاب بھی کیا تھا وہ صرف اور صرف ذوق کی لائق اور بہادر شاہ ظفر پر قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعرا اور خاقانی ہند کا خطاب دیا گیا۔ذوق بہادر شاہ ظفر کے دربار میں پہلے ماہانہ چار روپے مقرر ہوا اور اس ماہانہ بھگار کو ذوق نے غنیمت سمجھا۔اور ذوق کی مذید قابلیت کی خاطر اور آخر میں یہ تنخواہ سو روپے تک پہنچ گئی کیوں کہ ذوق بہادر شاہ ظفر کا بہترین استاذ محترم تھا جس سے بہادر شاہ ظفر نے کافی درس لی اور شاعری کی میدان میں آگے رہا۔
ذوق مسلسل شاعری کی میدان سخت کرنے والا اور یہ چمکتا ہوا نجم اس فانی دنیا سے ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا اور اردو ادب کا ستون گر گیا۔
ذوق کی تاریخ
وفات16 نومبر1854ء بتائی جاتی ہے اور جگہ دہلی۔
اور ذوق کی آخری آرام گاہ کی جگہ پہاڑ گنج،شمالی دہلی بتائی جاتی ہے۔
مرنے نے سے پہلے ذوق نے یہ شعر کہا تاکہ دنیا کو میرا دردبھری پیغام پہنچے۔
کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے۔
ذوق صرف اردو ادب کا نہیں تھا بلکہ ذوق نے عربی،فارسی،اور مختلف علوم میں دل چسپی لی ہے۔مثلا۔نجوم،طب،تعبیرخواب وغیرہ پر کافی عبور رکھتا تھا۔ذوق مزاج سے انتہائی نرم اور ہنس مکھ تھا۔
ذوق نے تمام عمر شعروشاعری میں اور منفرد شاعری انداز میں گزر لی۔اور نے آخری عمر تک شعر گوئی کو اپنا پیشہ لیا اور شعر کہتا رہا۔
تاریخ وفات
شاعر محمد ابراہیم 65سال کی عمر اور16نومبر
1854ء کو دہلی میں انتقال کر گیا اور دہلی تدفین کی گئی۔
"شیخ محمد ابراہیم ذوق اور
قصیدہ نگاری"
محمد ابراہیم ذوق قصیدہ کی میدان میں کافی شہرت رکھتا ہے اور ان قصیدہ گوئی کی وجہ بہادر شاہ ظفر نے ملک الشعراء کے خطاب سے نوازا۔اگر دکھا جائے تو ذوق قصیدوں کو زیادہ ترجیح دی ہیں کیوں قصیدہ ایک تعریفی صنف ہے۔ اس وجہ سے ان کی غزلیں کم اور قصیدہ زیادہ ہیں۔اور ذوق کی زیادہ تر قصائد بادشاہوں کی تعریف پر مبنی ہے اس وجہ سے ذوق ایک بہترین درباری شاعر سمجھا گیا تھا۔اردو ادب میں مرزا رفیع سودا کے بعد اگر قصیدہ میں کوئی بڑا شاعر ہے تو وہ ذوق کو تسلیم کیا جاتا ہے کیوں ایک بہترین قصیدہ گو ہے۔
کے بارے کلیم الدین احمد لکھتے ہیں کہ"ذوق نے اپنے قصیدے بڑے شوق سے لکھے ہیں اور ذوق کے قصیدوں کے رنگ ہر کسی سے اردو ادب میں جدا ملتے ہیں۔ اور ذوق نے اپنے قصیدوں میں نیا موڑ پیدا کرنے لگن کی ہے جو پورا ہوا ہے۔اور ذوق نے سودا کی پیروی ضرور کی ہے لیکن ان کے قصیدوں میں جوش وہ گرمی اور وہ خقیقت میسر نہیں ہے۔"
ذوق کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہے کہا جاتا ہے ذوق کی گھر اچانک آگ بھڑک اٹھی جس سے ذوق کی کافی قصائد جل گئی اور اس طرح ذوق کی شاعری پر اندھیرا چھا گیا لیکن پھر بھی ذوق کی شاعری میں ایک روشنی سی ہے جو دور سے کرن بن کر چمکتی ہے۔اس آگ سے جو قصائد بچ گئے تھے ان میں محققین اور ناقدین نے تعداد
25 تک بتائی ہے لیکن کنفرم نہیں ہے۔اور اس لیے بعض جگہ یہی
قصائد 27 بتائی جاتی ہے۔ذوق کی شہرت یہی ہے اس نے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کی شان میں جو قصیدہ لکھا ہے وہ قابل قدر ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس قصیدے میں کل
18 اشعار اور مختلف
18 زبانوں میں چھپا اور ترجمہ بھی کیا گیا اور دہلی لوگوں میں ذوق کا دیوان کافی پسند کیا گیا۔
ذوق نے جس فن حصوصیات سے کام لیا ہوا ہے وہ درج ذیل ہے۔
پہلا ،تشبیب ہے۔
دوسرا،گریز ہے۔
تیسرا،مدح ہے۔
چوتھا، مدعا و دعا۔
شیخ ابراہیم ذوق کی کچھ اشعار
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عشق نے کشتہ کیا صورت سیماب مجھے
چمن دہر میں جوں سبزہ شمشیر ہوں میں
آب کی جائے دیا کتے ہیں زہراب مجھے
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں بھی ہیمشہ خط میں
قبلہ وکعبہ لکھا کرتا ہے القاب مجھے