کلام اقبال میں منظر نگاری
شاعری میں منظر نگاری ضروری ہے اگر شاعری میں شاعر منظر نگاری سے کام نہ لیں یا اس کی شاعری میں منظر نگاری کی فن میں کوئی کمی ہو تو اس کی شاعری میں تصویروں کی صورت میں پیش کرنے کا عمل کمزور سمجھا جاتا ہے اور اس کی شاعری اچھی شاعری نہیں سمجھی گردانی جاتی ہے۔ یہ منظر نگاری فنی حوالے سے بھی اور خاص تجزیے سے بھی اور باطنی گہرائی کے توسط سے یہ اس قدر آسان فن نہیں ہے جو ہر شاعر کے ہاں ملتا ہو اور ہر شاعر نے اس فن کو سمجھا ہو۔
اگر شاعر کسی منظر کو دیکھ کر اور اس منظر کو علامہ اقبال کی سطحی انداز میں ڈھال دے اور اسے اپنی بہترین لفظوں سے روشناس کرادیں۔
اقبال کی شاعری کی حصوصیات،منظر نگاری کی تعریف،منظر نگاری کے اصول،علامہ اقبال کی انقلابی شاعری،اقبال کی شاعری کا پہلا دور،
منظر نگاری
علامہ محمد اقبال نے جس منظر نگاری سے اپنی شاعری میں کام لیا ہے وہ ایک تخلیقی عمل اور شعری واردات کا نتیجہ ہی ہے۔ جو اقبال کے اعلیٰ تخیل پر مبنی اور شاعرانہ بصیرت کے متنوع زاویوں سے ترتیب ہے۔علامہ محمد اقبال نے جس منظر نگاری سے کام لیا ہے وہ ایک فکر ہے ایک روشن خیال بھی۔ جو سوز دروں سے حرارت آشنا کرکے ایک جدید ترتیب اور تراکیب کے ساتھ متحرک صورت میں جلوہ افروز ہوتا ہے۔ خقیقت میں اقبال نے اپنی شاعری میں منظر نگاری میں انسان کے بارے میں کہا ہے کہ انسان ابتدا سے اپنی تہذیبی و تمدنی زندگی بھاگ دوڑ سے اور فطرت کی ظاہری اور فطرت کی پوشیدہ قوتوں سے نبردآزما رہا ہے۔ کیوں کہ انسانی زندگی کی داستان اور ارتقائی سفر فطرت سے مسلسل ٹکر ہی سے عبارت ہے۔ اس سلسلے میں دو تبصرے ایک قدرت کے سامنے بے بسی کا اوع دوسرا فطرت میں مزاحم کا سامنے آتا ہے۔
لیکن قدرت کے سامنے اور انسان کے درمیان ہونے والے یعنی پائے جانے والے بندھن میں اقبال کی شاعری میں ایک تیسری عکس ابھرتی ہے۔ وہی عکس قدرت اور انسان کے درمیان پائی جانے والی تعلق اور ہم آہنگی کی ہے۔ اس کے بارے میں علامہ محمد اقبال کی پہلی نظم ہمالہ ہے جس کی منظر نگاری فطرت کے مختلف عناصر کی ہم آہنگی سے منسلک ہے۔مثلا اقبال کہتے ہیں کہ اپنی ہمالہ نظم میں۔۔
اقبال نے یہاں خقیقت کی توجہ دیں کے بہترین منظر نگاری پیش کی ہے اور اس میں اقبال کا قدرتی پیغام پوشیدہ ہے۔ کہ ندی کی خاموشی اور حسین نظارے میں سب صورتیں پوشیدہ ہے۔ یہاں اقبال نے اپنی کو جس فن میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور قدرت کے حسین وجمیل منظر نگاری کو پیش کرنے کوشش کی ہے شاید کسی کے ہاں ایسا فن اور اس طرح کی قدرتی صلاحیت ملیں جس طرح اقبال نے شاعری میں ملکہ سے کام لیا ہوا ہے۔اقبال کی اس منظر نگاری میں ایک تفکر اور گہرا پراثر تخیل ایک تخلیقی انداز میں پایا جاتا ہے اور تخلیقی انداز کائنات کی خوب صورتی ہی ہے جس نے اقبال کو اپنے طرف کینھچ لیا ہے اور جس نے اقبال کی شاعری ذوق سلیم پیدا کی ہے۔
یہاں خقیقت میں منظر نگاری ہی ہے لیکن ایک قدرتی پیغام ہی ہے۔ کہ ندی کی خاموشی میں یہ سب صورتیں پوشیدہ ہے۔ اس کے بارے میں حضور صلی اللہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے۔
"السکوت خیرمن البشر" ترجمہ بندے کے لیے خیر وبرکت ہے۔ اور اقبال نے اس نظم میں فراز کوہ سے اترتی ندی کو اس انداز میں دکھایا ہے کہ پڑھنے والا صرف اس کے پانی اور اس پانی کے شفاف پن کو بصارتوں میں اترتے ہوئے محسوس کرنے لگتا ہے۔
اس شاعری میں موجوں کی گنگناہٹ اور پتھروں سے ٹکراتی آہنگ اس کی سماعتوں میں ایک بہترین کیفیت اور ایک دل نواز آہنگ بھر دیتی ہے۔ اقبال کی بہت سے نظمیں اس فن سے بھرے پڑھے ہیں۔ایک اور نظم ہے "ایک آرزو" میں دنیا کی شورشوں سے اکٹاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے وہ ایک عافیت کے متلاشی نظر آتے ہیں۔
یعنی وہی انسان جو فطرت سے ہم آغوش ہو اور وہ اس عظیم جذبے کو تابندگی عطا کر سکیں۔
اس میں اقبال اس کائنات کو ساکن اور متحرک عکس میں فطرت کی حسن اور اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اور اقبال کی اس نظم کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اقبال اس کائنات کی خوب صورتی میں ڈوب ہوکے ایک شدت کی آرزو میں مگن ہے اس اقبال کی اس آرزو میں فطرت کے درمیان کوئی مزاحمت نہیں ہے۔بلکہ ایک سیرت ایک انسانیت ان اس نظم اور فطرت کی بہترین عکاسی میں نظر آتی ہے۔اور اقبال کے نظر میں اور قدرت کی خوبی میں یہ سب کچھ سکوت کے فکری ارتباط کا سریلا آہنگ نقارہ ہی ہے۔ اس کے بارے میں ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔ السکوت مقام الجنتہ، ترجمہ سکوت مقام جنت ہے۔ اور اقبال نے اسی عمل کے تحت نظم جگنو میں بھی فطرت کی منظر کشی اپنی قلبی و روحانی واردات اور اس کے نتیجے میں لانے اور اس خیالات و نظریات کے پس منظر کے طور پر برتا ہے۔
اقبال خقیقت میں فطرت کی کثرت حسن اور حسین وجمیل نظارے میں پوشیدہ وحدت کا متلاشی ہے۔ اور اقبال نے یہاں قدرت کی پوشیدہ رازوں سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بارے میں ہمارے پیارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ السکوت غرق فی التوحید والنور، ترجمہ، سکوت توحید اور نور میں غرق ہونے کا نام ہی ہے۔ اقبال نے یہاں فطرت کی دل چسپی بڑھانے کے لیے ان کے پوشیدہ رازوں سے اپنے خیالات ونظریات کو پس منظری فضا بندی کے لیے منظر نگاری کو بڑے اور فنکارانہ انداز میں شاعرانہ صلاحیتوں ہنروں کے ساتھ ساتھ برتتے ہیں۔ اور اس سے اقبال حسن فطرت سے مرعوب ہوکر اور ہم آہنگ ہونے کی آرزو کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اقبال ایک نظم میں "لالہ صحرا" میں تو وہ کائناتی کشادگی کے ساتھ ساتھ اور اس کے سکوت میں خود کو خوف زدہ بھی پاتے ہیں۔ مثلا اقبال نظم لالہ صحرا میں یوں فرماتے ہیں کہ۔۔۔
اقبال کے ہاں یہاں اس کلام میں منظر نگاری میں معنوی کیفیت موجود ہے اس میں اقبال لامکان میں غرق ہونے کا نام ہے۔اور اس میں کلام کی خوبصورتی اقبال نے برقرار رکھی ہے اور طرح طرح کے تصویر نگاری میں اقبال نے فکری فن کا استعمال کیا ہے۔