اقبال کی شاعری کے ادوار
Allama Muhammad Iqbal
علامہ محمد اقبال اردو ادب میں عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم نثر نگاروں میں سے گزرا ہے۔علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں اور نثر میں جس طرح مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی ہے شاید کسی کے ہاں ایسا تفکر مل جائے۔
اردو ادب میں جو شاعری ہوتی تھی اور اردو شاعری کو جس راہ کی ضرورت تھی وہ راہ وہ ضرورت علامہ محمد اقبال نے پوری کردی۔علامہ محمد اقبال نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی ہے جس سے اردو شاعری، شاعری بن کر چمکی ہے۔
علامہ محمد اقبال زمانہ کے پیغام رسائی اور ایک صحت مند قدرو کی ترجمان ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز یعنی ابتدا ایک روایتی انداز میں کیا ہے۔ پہلے پہل اقبال نے اپنی شاعری کو مضبوط اور بہترین بنانے کی کوشش کی ہے وہ زریعہ داغ دہلوی ہے۔ داغ دہلوی نے اقبال کی شاعری کو چار چاند لگانے کی کوشش کی ہے کیوں کہ اقبال داغ دہلوی کا شاگرد رہا ہے اپنی شاعری کی میدان میں۔ اقبال کی جو شاعری ہے وہ داغ دہلوی کی پیروی ہے وہ شاعری حسن و عشق سے بھری پڑھی شاعری گردانی جاتی ہے کیوں کہ اس میں اقبال نے جس حسن و عشق سے کام لیا ہے وہی پیروی داغ دہلوی ہی کی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں عشق کی گلیوں کی مٹی بھی چھانی پڑی مگر جلد اقبال نے وہ طور وہ اندھا رستہ وہ اندھی گلی وہ درد بھری آہ وہ حسن وعشق کی اندھی گلی،اقبال اس کانٹوں سے بھری راہوں سے موڑنے لگا جس میں اقبال کی سانس گھٹنے لگا جو اقبال کے لیے درست ثابت نہیں ہوا اور ان تاریک گلی راستوں کو خیر آباد کہہ کر روایتی اور رومانی شاعری کو چھوڑ دیا۔ اور اقبال نے وہ شاعری شروع کی جس مسلمانوں کو اور اردو ادب کو ضرورت تھی۔
ذیل میں اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
مکاتیب اقبال،اقبال کی شاعری اسلوب،اقبال کی شاعری،تشریحات اقبال،شاعر مشرق،شاعر اسلام
پہلا دور/زمانہ
پہلا دور 1905 ء سے شروع ہوتا ہے یہ اقبال کی شاعری کی ابتدائی دور مانا جاتا ہے۔
اس ادوار پر تفصیلاً گفتگو۔
اس دور میں اقبال نے جس شاعری سے کام لیا ہوا ہے یعنی جس طرح شاعری کی ہے وہ حسن وجمال اور عشق کی شاعری ملتی ہے۔ اس میں جو پہلا نظم لکھا گیا ہے وہ عشق کے متعلق ہے۔ جس میں عشق کی جادوئی صورت اقبال نے پیش کی ہے۔
اس دور میں لکھا گیا پہلا نظم۔
نظم ہمالہ
نظم ہمالہ اقبال کی پہلی نظم ہے جو اقبال نے اس دور میں لکھا تھا اور یہ نظم اپنی شہرت کی وجہ سے مخزن لاہور کے پہلے شمارے میں "کوہستان ہمالیہ" کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس دور میں اقبال نے اور بہت سے نظمیں اور غزلیں لکھیں ہیں جو اس دور کی فطری، رومانی، خاص کر وطنی دھرتی شمار کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اس دور کی نظمیں اور غزلیں "بانگ درا" میں شامل ہیں۔ اس دور میں اقبال کی شاعری کتاب ہے وہ بانگ درا ہے۔
بانگ درا۔
اس دور میں علامہ محمد اقبال کا جو پہلا شاعری کلام ہے جو پہلا مجموعہ مانا جاتا ہے وہ بانگ درا ہے جس بہترین نظمیں اور غزلیں ہیں۔
اس مجموعہ کلام میں یعنی بانگ ردا میں جس میں بہترین اور اہم نظمیں شامل ہے وہ ہے ابر کوہسار،گل رنگین،صبح،آفتاب،چاند،آرزو،موج،شمع،ماہ نو، چاند،بزم قدرت،انسان،ایک آرزو، دریا،ترانہ،کنارہ،ہندی اور نیا شوالہ اور بھی بہت سے نظمیں ہیں جو بہترین ہے۔ ان نظموں میں انسانی فطرت اور وطنیت پر اقبال پیغام دیتی ہے تاکہ مسلمان ملت اپنی روشن خیالی ارتقائی سفر سے آشنا ہو جائے۔اور اپنی منزل تک خود تلاش شروع کر لیں۔ اقبال کی اس دور کی شاعری ایک ایسی شاعری مانی جاتی ہے جو ایک ایسے مسافر کا سفر ہے جو اپنی منزل اور سمت منزل سے ناواقف بے بے خبر ہے۔ یعنی اس دور کی شاعری اقبال کی ناپختہ ذہن کی علامت قرار دی جاتی ہے۔
دوسرا دور/دوسرا زمانہ
اس ادوار پر تفصیلاً گفتگو۔
علامہ محمد اقبال اردو ادب میں وہ شاعر گزرا ہے کہ آپ کی شاعری کی ہر دور میں وہ فن وہ حسن جمال ملتا ہے جو انسانی کی بنیادی سے منسلک یعنی بنیادی ستون ہے۔
علامہ محمد اقبال کی شاعری کا دوسرا ادوار یورپ سے شروع ہوتا ہے یعنی جب سے اقبال نے یورپ میں قیام کیا ہے وہاں سے اقبال کی شاعری کا دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ دور 1905ء سے لے کر 1908ء تک جاتا ہے۔ اس دور میں علامہ محمد اقبال کا سفر اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو نئی سمت اور کشادگی دینے میں بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ہوا ہے۔اس دور میں اقبال کی شاعری میں خاص قسم کی تبدیلی ملتی ہے یعنی اس دور میں اقبال کی شاعری میں زوایہ نگاہ اور سوچنے میں بہت تبدیلی ظاہر ہونا۔#
اقبال نے یورپ میں جس حالات کو نگاہ میں مخفوط کر لیا تھا ان حالات کو اپنی شاعری کی زینت بنا دی اور یورپ کی خاک کے زرے زرے میں اقبال کو ایک بے چین اور اداسی سے بھرا دھڑکتا ہوا دل نظر آتا ہے اور وہ دل اقبال کے لیے بہت معنی خیز ثابت ہوا یعنی وہ دل اقبال کے لیے حرارت،تڑپ،بے چینی،سرگوشی،اور شدت سے بھرا تھا۔ اور اقبال کو وہ دل بہت دل لگی لگی۔ اس کے علاوہ اقبال نے یورپ کا جو نقشہ پنی شاعری میں اس دور کی کینچھی ہے اس میں اقبال کو اس دور کا ہر چیز محو خواب اور سکون پذیر نظر آیا ہے۔ یہاں اقبال نے سانس کی آواز محسوس نہیں ہوتی بلکہ دل کا دھڑکنا اقبال نے محسوس کیا ہے۔ ان سب حالات سے اقبال متاثر ہوکر وطن پرستی کے محدود دائرے سے باہر نکلے اور دنیاوی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ اس ادوار میں اس زمانہ میں اقبال نے جو نظمیں لکھیں ہیں اس میں "طلبا علی گڑھ کالج کے نام" جو آج کل ہندوستان میں بڑی یونی ورسٹی ہے ،اور اس کے علاوہ عبد القادر کے نام اور'محبت"
اقبال کی تصورات اور خیالات کی عکاسی اور تبدیلی ظاہر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اقبال نے علی گڑھ طلبہ کو عشق و عمل کا پیغام اپنی شاعری میں یوں دیتے ہیں۔ ۔
تیسرا دور/زمانہ
یہ دور یعنی زمانہ علامہ محمد اقبال کی شاعری کا تیسرا دور 1908ء کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کی شاعری اقبال کی بہترین شاعری یعنی عہد زرین کہا جاتا ہے۔ اس دور کی شاعری میں انھوں نے اپنی قوم کی زوال اور تمام خرابیوں کی جڑ ان کی بے عملی اور خقیقت سے بے خبری شامل ہے اس دور کی شاعری ملت سے بے آگاہی ہے۔ یہ دور اقبال کی شاعری قوم کو ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے فلسفہ خودی کو پیش کیا ہے۔ اس دور کی شاعری میں اقبال نے فسلفہ خودی کے ساتھ ایک خاص اور منفرد تصور ،عمل و فکر،جہد وعمل اور مومن کی تفسیر ہے۔
دوستو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے بارے میں مذید معلومات ان شاءاللہ جلد از جلد اس ویب سائٹ میں پوسٹ کر لوں گا۔اگر آپ کو اقبال کے بارے میں مذید معلومات حاصل کرنا ہے تو نیچے پوسٹ پر کلک کیجیے تاکہ آپ کو مذید معلومات حاصل ہو جائیں۔۔شکریہ