اداس نسلیں
اردو ادب کا بہترین ناول"اداس نسلیں"
ناول اداس نسلیں اردو زبان اور اردو ادب کے لیے تاریخی ناول ہے۔ جس سے عبداللہ حسین کی پیدائش 14 اگست،1931ء اور وفات 4جولائی 2015ء نے 1963ء میں تحریر کیا ہے۔یہ ناول اردو ادب کے اور مصنف عبدللہ حسین کے لیے بہترین پہچان بنا ہے۔ اس ناول کے پچاس سے زائد ایڈیشن منظر عام پر آئے ہیں۔اور یہ ناول اپنی کارکردگی کی وجہ سے خوب صورت پلاٹ اور کرداروں کی وجہ سے 1963ء میں آدم جی انعام سے نوازا گیا ہے۔
Navil.
Urdu adab
معلومات مصنف۔
مصنف کانام۔عبداللہ حسین۔
ناول اداس نسلیں۔
ملک پاکستان۔
زبان اردو۔
موضوع برطانوی ہندوستان۔
ناشر،سنگ میل پبلی کیشنر۔
تاریخ اشاعت۔
اول،1963ء تا دوم، 2015ء ہے
طرز طباعت۔
مطبوعہ مجلد۔
ناول اداس نسلیں فنی اعتبار سے۔
یہ ایک بہترین ناول ہے اس میں عبداللہ حسین نے جس موضوع سے کام لیا ہے وہ موضوع برطانوی ہندوستان ہے۔ اس ناول میں اس دور کے سیاسی حالات اور سیاسی کشیدگی اور سیاسی کشمش واضح الفاظ میں بیان کیا ہوا ہے۔یہ مثالی اور کرداری ناول بن کر اردو ادب پر چھایا ہے اور بڑی شہرت سے اپنی کارکردگی میں نمایاں ہے۔اس ناول میں بہت سے کردار ہے جو اپنی آب وتاب سے بیان اور بڑے فن کاری سے نمایاں ہے۔ناول اداس نسلیں بہت بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے اپنی تاریخی اعتبار سے یہ ناول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ناول اپنے اندر ایک زمانہ رکھتا ہے ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے۔
ابتدائی بحث۔
یہ ایک واقعاتی اور تاریخی ناول ہے اس کا آغاز سن 1857ء کی جنگ آزادی اور اس دور کی کشمکش اور کشیدہ حالات سے شروعات ہوتی ہے۔ اور پوری آب وتاب سے راہِ منزل ہوجاتا ہے۔ جس میں طرح طرح کے نئے اور سیاسی کشمش کشیدگی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اس ناول کا آغاز برطانوی ہندوستان سرکار،اور اختیام قیام پاکستان پر ہوتا ہے۔ اس ناول اداس نسلیں میں 1857ء کی جنگ آزادی اس دور کی جاگیر درانہ ذہنیت کا ہونا اور اس دور میں کانگریس کی سیاسی ماحولیاتی ذہن، آل انڈیا مسلم لیگ کی کوشش،جلیانوالہ باغ اور اس میں قتل عام کی تصویری خاکہ،مسلم پہچان کا احساس، دوسری جنگ عظیم، خراب کن حالات اور پورے ہندوستان پر ان کے اثرات،ہندوستانی آزادی کی کوشش،قیام پاکستان کے واقعات اور ہندوستان کی آزادی پر مرتب شدہ واقعات اور ان کے جاگیر دارانہ صورت کا جائزہ اس ناول میں لیا گیا ہے۔
وجہ تخلیق۔
مصنف عبداللہ حسین
اس کاایک خاص وجہ تخلیق ہے جو یہ ناول لکھا گیا ہے اور ایک بہترین ناول ثابت ہوکر اردو ادب میں شہرت بنا ہے۔اس کی وجہ سن1965ء ہی ہے اس سال میں اس کے والد محترم عبداللہ حسین کا انتقال ہوا تھا اس پر والد کے انتقال سے جو اثرات مرتب ہوئے اور ذہنی جھٹکا شدید ملا اور نروس بریک ڈاؤن میں مبتلا یعنی شکار ہوئے۔ اس لیے عبداللہ حسین نے خود لکھا ہے کہ سن1965ء میں میرے والد محترم فوت ہوئے اس کی وجہ زندگی دربدر اور صحت کافی بگڑی اور کچھ دنوں تک میں اسپتال میں رہا اس وقت کے ذہن نے کچھ نئے خیالات کو جنم دیا اور میں مئی میں یہ ناول اداس نسلیں لکھنا شروع کیا۔
تخلیقی مواد۔
عبد اللہ حسین ناول نے اداس نسلیں کے لیے مواد کی فراہمی کا کام جون 1956ء میں شروع کر دیا تھا۔ اس ناول پر عبد اللہ حسین نے پانچ سال تک مسلسل سخت محنت کی اور یہ ناول اداس نسلیں سن1961ء پایہ تکمیل تک پہنچا اور اس کی اشاعت 1963ء میں عمل آئی۔ اگر مطالعہ کیا جائے تو ناول اداس نسلیں میں تین نسلوں کے کوائف بیان کیے گئے ہیں۔اس ناول کے بارے میں اور اس کے پلاٹ کے بارے میں کافی حد تک مصنفین نے تبصرے دیے ہیں۔عبداللہ حسین نے خود اس ناول کے بارے میں لکھا ہے کہ، اس ناول کا پلاٹ ہے،جو مرکزی پلاٹ ہے،یہ پلاٹ شروع سے آخر تک ایک بار ذہن میں آیا تھا۔اور جب لکھنا شروع کیا اس وقت یہ میرے لیے اتنی ضروری نہ تھی، لیکن پھر میں نے باقاعدہ اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ اس سے میرے ذہن میں کافی سوالات اٹھے کہ لوگوں سے ملنا ہے، اور اس پر ابتدائی کام میں کئی باب لکھنے کے بعد کی بات ہے،اور اس کے بارے میں مذید یہ کہ پہلی جنگ عظیم جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں سے لکھنے کے بعد کی بات ہے۔اس ناول کے لیے میں نے باقاعدہ تاریخ مطالعہ کیا وہاں سے بہت معلومات ملی اور اس ناول کے لیے کافی حد تک آسانی پیدا ہو گئی۔اور اپنے عہد کی تاریخ،اس لیے مذید کوشش جاری رکھی اس ناول کے لیے جنگ عظیم کا تاریخی معلومات مناسب سمجھا اور اس کے لیے دور دور کے گاؤں میں جاکر وہاں پرانے سے ملاقات کی وہاں سے اپنے پرانے دوستو سے کافی معلومات فراہم ہوئی۔
یہ ناول ہر حوالے سے بہترین ناول اور قابل دید ہے۔اس ناول کو لکھنے کی دل چسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس ناول میں عبداللہ حسین نے خقیقت نگاری اور خقیقت واقعات سے بے حد کام لیا ہے اور اس ناول تاریخی معلومات اکھٹے کرکے قاری کے سامنے رکھی ہے۔اس ناول کے کردار اور پلاٹ بہت مضبوط ہے۔ اس ناول کی بہتری اور تکنیکی سوچ پر نگاہ رکھی جائے تو عبداللہ حسین کے فن قلم سے وہ فن ٹپکتا ہے جو اردو ادب کے لیے آب حیات بن کر سمندر بن جاتا ہے۔عبداللہ حسین کے فن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبداللہ حسین ناول کو لکھنے میں دل چسپی بڑھانے کے لیے صوبیدار خداد خان سے ملنے آیا اور صوبیدار خداد خان پہلی جنگ عظیم میں وکٹوریہ کراس ملا تھا ان سے ملنے آتا ہے اور ان تاریخی معلومات فراہم کررہا ہے اور ناول اداس نسلیں کو مضبوط کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔عبداللہ حسین صوبیدار خداد خان سے ملنے کے لیے سفر شروع کرتا ہے اور پندرہ میل پیدل جاکر ان سے ملاقات کرتا ہے اور ذخیرہ معلومات اکٹھا کرتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ عبداللہ حسین صاحب چاہتا تھا کہ ناول اداس نسلیں میں خقیقت سے بھری واقعات شامل ہوں تاکہ قاری کی توجہ اور شوق بڑھانے کے لیے مضبوط ٹھہرے۔اور عبداللہ مذید معلومات کو اکھٹا کرنے میں بے چین تھے۔اور عبداللہ حسین صاحب کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اس ناول میں وہ تاریخ قاری کو ملیں جس کے لیے ان کا مانگ ہے طلب ہے۔اور قاری کی دل چسپی بڑھانے کے بہتر سے بہترین معلومات سے مزین ہوں۔اس ناول کے عبداللہ حسین صاحب نے بہت سے کتابوں سے مدد لیا ہوا ہے اور بے شمار کتابیں پڑھیں۔اس کے بارے میں عبداللہ حسین صاحب نے خود لکھا ہے کہ یہ ناول بہت کم شعوری طور پر تاریخی ناول نہیں لکھا اور نہ ہی یہ تاریخی ناول ہے۔عبداللہ حسین اپنے ناول میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ ناول صرف اور صرف ایک محبت کی کہانی سمجھ کر لکھا گیا تھا اور آخر وقت تک ان کے ذہن میں یہی تصور تھا۔ اور اس محبت بھری کہانی وہ ناول بن گیا کہ جس سے اردو ادب کو تاریخی حوالے ایک تاریخ کا خزانہ مل گیا۔
انگریزی ترجمہ۔
ناول اداس نسلیں کو یونیسکو نے انگریزی ترجمے کے لیے منتخب کیا۔عبداللہ حسین نے برطانیہ میں دوران قیام انگریزی ترجمہ the weary generation کے نام سے کیا تھا۔ اس اشاعت سے انگریزی حلقوں میں بھی اس ناول کو بہت پذیرائی نصیب ہوئی۔اور اس ناول کو ہندوستان نے ہارپر کولنز اور پاکستان نے سنگ میل پبلی کیشنز نے چھاپا۔ یہ ناول اداس نسلیں، بلاشبہ عالمی ادب کے معیار پر پورا اترتا ہے اور ایک بہترین ناول تسلیم کیا گیا اور بہترین ناولوں میں شمار ہونے لگا۔