مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا خلاصہ
بہمنی دور کی تصنیف "کدم راؤ پدم راؤ یہ مثنوی فخرالدین نظامی کی ہے جودکنی زبان میں 4000 lines پر لکھی گئ ہے اردوئے قدیم کی پہلی در یافت شد و تصنیف ہے۔ مثنوی کے روپ میں دکنی زبان کا یہ پہلا شاہکار ہے جسے فخر دین نظامی بیدری نے تصنیف کیا ہے، می شنوی احمد یارولی بن کے دو بیتکومت میں کی گئی ۔ اس مثنوی کا بنیادی اسلوب سنسکرت اور پراکرت ہے چوں کہ مقامی سنسکرت کے اسالیب سے بہت مانوس تھے چنانچہ اس کی مثالیں دیکھئے۔
کون پرس جونا گرے پاؤ تھیں
کون رکھ جونا ڈلے باؤ تھیں
روئی گھانس تھی آگ جانپی جائے جے جائے
تب اوگھڑ کیا کچھ سکے چھپائے
بہمنی دور کے شاعر فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راوپدم راو‘‘ اردو کی پہلی مثنوی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق نظامی نے یہ مثنوی بہمنی خاندان کے مشہور فرمان روا احمد شاہ ولی بہمنی کے عہد حکومت ۸۲۵ھ ؍ ۱۴۲۱ء تا ۸۳۹ھ؍ ۱۴۳۵ء میں لکھی۔، مثنوی نگاری میں فن اور اس مثنوی کا شعری اسلوب ادق تو ضرور ہے مگر اس میں آمنگ کی روانی بھی موجود ہے، و استادشاع ہے اورتر کیبوں گی ساخت ے آیک ایا شعر ن نانے می تدرت جسے اس کے معبد کے ان سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ کدم راؤ پدم راؤ کی زبان بہت مشکل اور عسر الفہیم ہے ان پر سنسکرت، پراکرت اور علاقائی زبانوں کے الفاظ کا گہرا اثر ہے، زبان و بیان اور اسانی خصوصیات کے اعتبار سے یہ بوٹی گہرائی سے مالی اور قریب ہے ،اس میں دواسلوب جاتے ہیں، می شنوی ساڑھے پانچ سو سال سے زیادہ پرانی تصنیف ہے اور اردو ادب کی اولین روایت کی نمائندہ ہے ، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہکدم راؤ پدم ران کے بیان میں یا پھیلاؤ کا احساس نہیں ہوتا بلکہ بات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا انداز ملا ہے۔
کدم راؤ پدم راؤ سے متعلق جمیل جالبی کہتے ہیں کہ بارہ ہزار الفاظ اس مثنوی میں استعمال ہوئے ہیں اور میشتوی ہندو مذہب کے عوامی روایات سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن وہ ان روایات سے بھی بال نہیں رہے۔کدم راؤ اور پدم راؤ کے بارے میں ڈاکٹر جمیل کہتے ہیں کہ۔
عربی اور فارسی روایات کو جس آزادی کے ساتھ مثنوی اشعار بہترین ہے سارے مثںوی کے وہ انہیں کا حصہ ہے۔ اس مثنوی میں 1865 اشعار ہیں، اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی شنوی قدیم ہے اور قدامت کی وجہ سے تھوڑی مشکل ہے مگر اختصار کی وجہ سے آج بھی مقبول خاص و عام ہے۔