دکن میں اردو کی ابتدا اور اس کا ارتقاء
دکن میں اردو کا نظریہ
دکن میں اردو کی ابتدا اور اس کا ارتقاء، یہ بات اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ اردو زبان دہلی اور اطراف دہلی میں پیدا ہوئی لیکن اسی فارسی زبان نے اپنے ارتقائی منازل شالی ہند کے ساتھ ساتھ دکن میں بھی طے کیے۔ اسی طرح یہ بھی مسلم ہے کہ ادبی زبان کے طور پر اس کی شناخت دین میں ہوئی ۔ شروع شروع میں اس زبان کو اد في مورخوں نے بھی بندی بھی ہندوستانی اور بھی ہوگئی کہہ کر پکارا ہے بقول پروفیسر مسعود حسین خاں :اس زبان کا کئی نام بہت زیادہ قد کم نہیں ، ان کے خیال میں عبد منی کے کئی معنی نے بھی اپنی زبان کو دینی جام سے نہیں پکارا ہے بلکہ یہ کوئی نام قطب شاہی دور اور عادل شاہی دور اقتدار میں اس کے ریاستوں کے قیام کے بعد پڑا ہے۔ ویسے تو ارووشالی ہند میں تقریبا ایک سو سال تک فروغ پانے کے بعد ون کا رخ کرتی ہے۔ دکن میں اردو کامل خل دکن پر مسلمانوں کے حملوں سے شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے وبی کے سلطان با والدین بھی کی اور میں جنوبی ہند پہنچیں اور ولی کی مرکزی سلطنت کا علاقہ دکن میں دور تک پھیل گیا، یہ 13 ویں صدی تھی۔ مسلمان فوتی مال ،اہل حرفہ صوفی أقرا ء اور شمالی ہند کے لوگ اپنے ساتھ وہ ٹی بیلی زبان بھی لے گئے جو ابھی اچھی طرح نہیں بن پائی ھی بقول پروفیسر احتشام حسین تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں انہوں نے ای زبان سے کام چلایا، یہاں تک کہ وہ ترقی کر کے ادب کی زبان بن گئی۔ دوسرا اہم واقعہ جس نے جنوبی ہند میں اردو کے پھیلنے میں مددکی و 145 ویں صدی میں پیش آیا جب محمد بن تخلت نے 1827 ، میلو نوکری کو دولت آباد بنا کر اپنا دارالسلطنت بنایا اور ریلی کی تمام رنا یا دکن کے لیے کوچ کر گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دکن میں اس زبان کو وہ مقبولیت ملی جس کا تصور تھوڑا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ سب سے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس زبان نے جہاں جنم لیا وہاں اس کا قابل اعتناء ادب نھاجب کہ 14 ویں صدی ختم ہوتے ہوتے دکن میں اردو زبان رائج ہو چکی تھی۔
اردو کے حوالے سے دکن میں ابتدائی جو بھی رسالے ملتے ہیں ، اس پر تصوف کا ہی غلبہ ہے اور یہ صوفیانہ ادب بہمنی سلطنت کے خاتھے تک پھیلا ہوا ہے چ منی سلطنت 15 ویں صدی کے ختم ہونے سے پہلے ہی پانچ حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جن میں خلی ادب کی نظر سے بجا پور اور گول کنڈہ کو بہت اہمیت حاصل ہے جس سے آج بھی اردو کا دامن عمراں بار ہے۔
سب سے پہلا نام جس سے کوئی اردو ادب کی ابتدا کی جاسکتی ہے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا ہے جو بہت بڑے عالم تھے ، فارسی اور عربی میں ان کی کئی کتا میں مشہور ہیں وہ مریدوں اور عام لوگوں کے لیے اپنے خیالات اردو جی میں ظاہر کرتے تھے ۔ معراج العشتمین ان کی تصنیف شدہ ہیں لیکن کارنامه او تا و 7 الوجود ان کی تعینات ہیں۔ تقریبا آٹھہ کا ہمیں ان سے موسوم کی جاتی ہیں ۔ ان کے بعد ان کے پوتے عبد الله بینی ایک مشہور صوفی گزرے ہیں جنہوں نے مشہور کتاب "نشا و اعشق‘‘ کا ترجمہ اردو میں کیا ۔ اسی زمانے میں حقانی نے ایک مثنوی کدم راؤ پدم را ، تھی ۔ اس طرح اردو ادب کی ابتدا تو ہوئی مگر اس کی حقیقی اور واقعی تر تی بیجا پور اور گول کنڈہ کی ترقی کے ساتھ ہوئی فردین نظامی کے علا و 15 ویں صدی میں سب سے پہلا نام شاہ میراں کا ماتا ہے جو اپنے تصوف اور قابلیت کی بنیاد پر مس العشاق کہے جاتے ہیں ۔ ان کی تصنیفات میں عبادة اتیقت "خوش آخره ،" خوش نام "اور" شرح مرنب القلوب مشہور و اہم ہیں ۔ میر ان ہی کے صاحبزادے برہان الدین جام بھی بہت بڑے نمونی گزرتے ہیں ۔ انہوں نے بھی منی کتابیں ہیں ان میں انسیت الہادی " ارشادنامه قابل استناد ہیں ۔ انہوں نے نثر میں كما انت انت ، تصنین کی جو موضوع کے اعتبار سے معراج العاشقین‘‘ کے مشابہ ہے۔
ان کی نثری تصنیفات بھی ان کی شاعری کی طرح اہمیت رکھتی ہیں ۔ محب نام اور "رموز السالکین ان کی مشہور کتابیں ہیں ۔ امین الدین اعلی کی نثری تصنیفات میں نے منفی اور وجود بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ شاہ محمد قادری سید میران سینی، سید شاہ اشرف بیابانی اورشاه منظم اہمیت کے حامل ہیں۔
1490 ء میں قائم ہونے والی عادل شاہی حکومت میں کئی بادشاہ خود اردو میں لکھتے پڑھتے تھے، ان میں سب سے مشہور ایم ایم عادل شاہ ثانی ہے وہ صرف کوئی زبان اور اس کی شاعری سے محبت نہیں رکھتا تھا بلکہ ہندستان کے فن موسیقی میں بھی کامل تھا۔ اس نے ایک کتاب نوری“ کے نام کی تھی۔ اس کے بعدثم عادل شاہ کے چاروں طرف کئی شعراء مع ر تی ملک وشو دوات شا بال ادرمی یادر کنے سےجاہل میں۔ تھی کی طویل تم "خاور نامہ ہے ، اسی طرح ملک خوشنودا پنی مثنوی ہشت بہشت کے الی مشہور ہے، بدل نے ابراہیم نام تصنیف کی اس کے بعدلی عادل شاہ ثانی آیو بھی شاعر تھی جو شاہی کے نام سے لکھتا تھا جس کا درباری شاعر نصر تی تھا جس کی دو کتاہیں گلشن عشق اور علی نامہ بہت مشہور ہیں ۔ بانی جیا پوری کی مشہور تصنیف "يوسف زلینا‘‘ ہے۔ بیجا پور کی طرح گول کنڈہ میں بھی اردو ادب کی بڑی ترقی ہوئی۔ اس خاندان کے آخری چار بادشاہ اردو کے صرف شاعر ہی نہیں بلکہ شاعروں کے سر پرست بھی تھے۔ گول کنڈم کا پانچواں بادشاہ محمد قلی قطب شاہ اردو ادب کا ایک عظیم شاعر تھا۔محمد قلی قطب شاہ کا بھتیجانی قطب شاہ خود ایک بڑا شاعر کی شاعروں کا سرپرست بھی تھا۔ پرند قطب شاہ کا بیٹا عبدالله قطب شاہ گدی پر بھی وہ بھی شاعر تھا اور اس کا مجموعه کام بھی موجود ہے اس کے دور باری شعراء میں نواسی تھی ، این نشانی بھی بنیادی اور امین خاص ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان کے آخرین بادشاہ ابو حسن قطب شاہ بھی شاعر تھا۔ محمد قلی قطب شاہ کے عہد حکومت میں بھی نہایت معزز شاعر اور نثر نگارگزرا ہے "قطب مشتری"، "سب رس اس کی شاہکار تصانیف ہیں ۔ غواسی کی تصنیفات میں ”سین الملی و بدیع الجمال طولی نام‘‘ کا ذکر آتا ہے ، ابن نشاطی کی چول باناس کے شاعر ہونے کی نماز ہے۔ اس طرح اردو زبان 17 ویں صدی کے آخر میں گجرات مدراس میسور کے کچھ حصوں میں گئی اور وہاں بھی بہت کچھ کیا گیا۔ غرض کہ دکن میں اردو کے ارتقاء کی کڑی ولی وینی اور سراج اورنگ آبادی سے جا کرملتی ہے۔ ولی نے غزل مثنوی قصیده بلکہ ہر ایک قلم فرسائی کی ہے۔ ان کا دیوان متعدد بار شائع ہو چکا ہے ، وہ دین کے سب سے بڑے شاعر تھے انہیں اردو شاعری کا بابا آدم بھی کیا گیا ہے جہاں تک سراج اورنگ آبادی کی بات ہے تو انہوں نے بھی اردو کی آبیاری میں نمایاں حصہ لیا ہے جس پر ان کی کلیات گواہ ہے۔ مختصر طور پر جمع کیے گئے ہیں کہ در گالری سرمایہ اور دعائیت دکن سے شعراء نے مولا کیا وہ آج بھی زندہ وتابندہ ہے، اس طرح اردو کی ابتدا اور ارتقا دکان میں ہوتی ہے۔
دکنی دور کی لسانی خصوصیات
دکنی دور کی لسانی خصوصیات، درج ذیل ہیں۔
اردو کے ارتقاء کے حوالے سے کیس کا اپنا ایک اہم مقام ہے، اس کا ادبی مربایانی وتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس کی سافی اہمیت سے بھی انکارنہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے مرزا خلیل احمد بیگ یوں لکھتے ہیں کہ کی اردو کی لسانی خصویات بھی تو شالی بندی بولیوں کی دین ہیں جن کے خمیر سے میزبان تیار ہوئی ہے اور کچھ مقامی انسانی اثرات کا نتیجہ ہیں ۔ جب میزبان دکن پچھی تو اس پر شمالی ہند با سوسنوات دبلی کی ایک سے زائد بولیوں کے اثرات تھے، دین پہنچ کر بی اثر است کم نہ ہوئے بلکہ اس پر مرہٹی کے اثرات بھی پڑنے شروع ہو گئے اسی طرح کئی اردو زبان و ادب اور اس کے دور میں دوسری خاندان کی دوسری زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔