محمد قلی قطب شاہ کی شاعری
محمد قلی قطب شاہ قطب شاہی سلطنت کا پانچواں بادشاہ گزرا ہے۔ ویٹسن کا شاعر جہاں ایک طرف ہے و ہیں وہ ایک پر گواوراردوزبان کا پہلا صاحب دیوان شاعر بھی ہے ۔کلیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وا پی ٹی سحبتوں میں شاعری کی زبان میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کر تا تخاطبیعت کی روانی میں کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی تھی۔محد قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری کو صرف ادب کے مخصوص مونسوعات کے دائرے تک محدودنہیں رکھا بلکہ زندگی کی ہر چھوٹی بیوی اجم، غیر اہم بات کو شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ انہوں نے ہر معنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ محد قلی قطب شاہ کی شعری توانائی میں مقامی جمالیات ہی کی نیر نگیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ مد قلی قطب شاہ کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں کوئی جذ بہ احساس خیال یا تجر بہ روائی نہیں ہے ،اردو میں مد قلی قلب شاہ کے بعد ایسے شعرا کم ملتے ہیں جن کے خیال او فعل میں کوئی فرق نہ ہو،ان کے یہاں شاعری اور زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے م قلی قطب شاہ کا یھی کمال ہے کہ ادب کو یج بو لنے کا سلیقہ اورحوصلہ دیا ہے جس سے قلی قطب شاہ کی شاعری میں رومانیت کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔
یاریوں پر جولمیں لکھی گئی ہیں ان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ہر پیاری کی اپنی کچھ انفرادیت ہے جب کہ قاری عربی اور اردو شاعری کی روایت میں محبوب کی انفرادیت کم ہوگئی ہے اور ہر شاعر کانٹیوب ایک ہیا ہو گیا جومتالی حسن کا کامل نمونہ تھالیکن اس رگی روایت کے بر خلاف مد قلی قطب شاہ کی بھی سانولی ، پیاری گوری وغیرہ کے خد و خال ایک دوسرے سے اتنے الگ ہیں کہ ان نظموں کی مدد سے مصور ، ہر ایک کی تصویر بنا سکتا ہے۔ پروفیسر نہ ور نے ان نظموں کو وہ دائروں میں رکھا ہے ایک دائر ہ ناز کا ہے اور دوسرا دائرہ نیاز کا ہے ۔ محد قلی قطب شاہ کے کلام سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ فارسی شاعری سے پوری طرح واقف تھا،حا ظ شیرازی کا اس کی شاعری پراثر واضح ہے۔ محمدقلی قطب شاہ کے ہاں ہند واور ہندی تصورات از بیش ملتے ہیں ایک طرف قلی قطب شاہ کی شاعری میں جو فن کاری ہے وہ ہر دلعزیز ہے مثلا قلی قطب شاہ کہتے ہیں کہ۔
قلی قطب شاہ کی حالات زندگی
اردو کے پہلے صاحب ِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ جنوبی ہند کے قطب شاہی خاندان کے سب سے ممتاز بادشاہ تھے۔ وہ 14 اپریل 1565ء کو ریاست گولکندہ پیدا ہوئے۔ اور 1580ء میں اپنے والد ابراہیم قلی قطب شاہ کی وفات پر تخت نشین ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر ایک شہر بھاگ نگر آباد کیا مگر کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے حضرت علی ؑ کے نام پر اس شہر کا نام حیدرآباد رکھ دیا۔ محمد قلی قطب شاہ کو فن تعمیرات سے خاص دل چسپی تھی اور انہوں نے حیدرآباد کے شہر میں کئی مشہور عمارتیں تعمیرات کروائیں۔ وہ فارسی ادب دکنی زبان، تلنگی اور اردو زبان میں شاعری کرتے تھے۔ انھیں اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قرار کیا جاتا ہے ان کے دیوان کو ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے اور جانشین سلطان محمد قطب شاہ نے مرتب کیا۔ اس میں پچاس ہزار اشعار ہیں۔ اسے 1941ء ڈاکٹر محی الدین زور نے جدید ترتیب کے ساتھ شائع کیا۔
قلی قطب شاہ ریاست گولکنڈہ کے فرماں روا تھے۔ ان کا دور حکومت تقریباً تیس سال رہا ہندوستان کے مشہور شہر حیدرآباد کی بنیاد قلی قطب شاہ نے ہی رکھی اور چار مینار کی تعمیر کروائی۔ قلی قطب شاہ بڑے ہی علم دوست ، عربی ، فارسی دکنی اور تلیگو کے ماہر ، اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ان کے مجموعہْ کلام میں غزلیات ، رباعیاں، قصیدے اور مختلف قطعات وغیرہ شامل ہیں۔ قلی قطب شاہ کا کلام دکنی اردو ادب کو پیش کرتا ہے انھوں نے اپنی ریاست میں اردو زبان کو عام بول چال کی زبان بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔محمد قلی قطب شاہ کا انتقال 21 جنوری 1611ء کو ہوا۔ ان کی کتب میں "دیوانِ قلی قطب شاہ"، "کلیاتِ قلی قطب شاہ" اور "روپ رس" شامل ہیں۔
قلی قطب شاہ کی غزلیں
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے نا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطبؔ شہ نہ دے مج دوانے کو پند
دوانے کوں کچ پند دیا جائے نا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیا کے نین میں بہت چھند ہے
او وو زلف میں جیو کا آنند ہے
سجن یوں مٹھائی سوں بولے بچن
کہ اس خوش بچن میں لذت قند ہے
موہن کے او دو گال تشبیہ میں
سرج ایک دوجا سو جوں چند ہے
نول مکھ سہے حسن کا پھولبن
نین مرگ ہور زلف اس پھند ہے
او کسوت تھے جیو باس مہکے سدا
تو او باس ناریاں کا دل بند ہے
پیا کوں بلا لیائے ہوں اپ مندر
دوتن من میں اس تھے ہمن دند ہے
نبی صدقے قطباؔ کوں اپ سیج لیائی
تو چوندھر خوشیاں ہور آنند ہے
قلی قطب شاہ تعارف و تنقید
"کلیات محمد قلی قطب شاہ" کس نے اور کب مرتب کی؟
محمد قلی قطب شاہ اردو كے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں۔جنھیں اردو كے "باوا آدم "ولی سے تقریبا سوسال پہلے ملك سخن و دكن پر حكومت كرنے کا شرف حاصل ہے۔ان كا كلام كئی سالوں تک پردہ خفا میں رہا۔جسے پہلی بار بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک تفصیلی مضمون "محمد قلی قطب شاہ کی شاعری " كےذریعے رسالہ اردو میں سن 1922 میں متعارف كروایا تھاجو بعد میں ضائع ہوگیا تھا۔ا س كے بعد ڈاكٹرمحی الدین قادری زور نے سالار جنگ میوزیم كے ایک قدیم نسخہ پر مبنی متن كو مرتب كركے 1940 ء میں شائع كیا۔جس كے بعد اردو ادب كی تاریخ میں محمد قلی كی شاعری میں اولیت حاصل ہوگئی۔اسی سے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر كی حیثیت سے شہرت ملی۔اس كے بعد اسی نسخے كی تدوین ڈاكٹر سیدہ جعفر نے 1985ء میں دوبارہ كی۔
شعر ملاحظہ ہوں
بسنت کھیلیں عشق کا آبیارا
تمہیں . ہے چاند، میں ہوں جوں ستارا
محد قلی قطب شاہ کا سب سے بڑاوصف ، خیالات کی وسعت ہے بقول وہاب اشرفی کہتے ہیں کہ۔
بنت کھیلیں عشق کا آپارا
تمہیں . ہے چاند، میں ہوں جوں ستارا
محمد قلی قطب شاہ کی نظمیں اور غزلیں اپنے مزاج اور اور کے اعتبار سے خالص ہندوستانی ہیں ۔ اسی طرح محمد قلی قطب شاہ وہ پہلا شاعر ہے جس نے سراپا نگاری کے لوازم کوئی معنویت اور حقیقت پسندی عطا کی ہے۔
انہوں نے اپنی عشقیہ شاعری میں بھی انسانی فطرت کو فراموش نہیں کیا ہے اور نظا ہر ہے کہ انسانی فطرت کے کچھ تہذ یہی اور آفاقی پہلو ہوتے ہیں یہیں آ کر قلی قصب شاہ اپنی شاعری کو نری جنسیت کے دھسے سے بچالیتا ہے ساتھ ہی اس بچاؤ کے لیے نہیں کہیں فلسفیانہ اور متصوفانہ اشعار بھی کہ دیتا ہے ،اسے مجاز میں حقیقت ڈھونڈ نے کی فرصت نہیں ملی ہے۔ایک قلی قطب شاہ کہتے ہیں کہ۔
ما وے جو کوئی پاوے عطا
حقیقی پیا کو مجازی ستی
و صرف بشری محبت کر تا ہے۔ فرشتوں کو بھی لذت کہاں میسر ہے؟ چناں چہ قلی قطب شاہ کہتا ہے
محبت کی لذت فرشتاں کوں نہیں ۔
بہت سعی موں ہوں یہ لذت پھیانی
محمد قلی قطب شاہ کے کلام کا ابتدائی حصہ تمد مناجات ات ومنقبت پر مبنی ہے جس سے شاعر کے عقیدے اور اس کے مذہبی وابستگی کا سراغ ملتا ہے ۔’’نوروز‘پرقلی قطب شاہ نے جوقصیدے لکھے ہیں ان میں مذہبی جوش وخروش نے جان ڈال دی ہے و ہیں فنی اعتبار سے قصیدے بکتھا چھے ہوگئے ہیں۔
تہواروں اور موسموں پرقلی قطب شاہ نے خاصی نظمیں لکھی ہیں ، ان کی جزئیات نگاری سے زیادہ منظرکشی کی عمومیت کو دخل ہے لیکن ان حالات میں بھی وہ مذ ہبیت اور عیش کوشی کو شیر وشکر کر کے اپناقیش پسندی کا جواز ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ مثلا قلی قطب شاہ کہتے ہیں کہ۔
پہ یاں حوراں مجالس د یکھنے آیاں ہے چنداں سوں
دلاؤ پاں پٹیاں باندے سواں ہم عید وہم نوروز
یادر ہے کہ کمل ہندستانیت اور ہندمی معاشرت سے محد قلی قطب شاہ کا کلام آراستہ
ہے اس بابت خودم قلی قطب شاہ کا خیال ہے کہ
ہندو ریت کوں دیتے ہیں تم رواجاں
که بت خانہ نمنے ہے تو بھی ہمن سر
جہاں تک قلی قطب شاہ کے تصورفن کی بات ہے تو وہ معنی آفری اور متنوع موضوعات کی بدولت ، اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیتا ہے اور اس کے لیے وہ انچوتی تشبیہوں نادر استعاروں اور صنائع و بدائع کا خوب اور بریل استعمال کرتا ہے
موگرا چپا تا خوشبو اچھے کیس
کے پیچا نہیں پنے ہیں رات
محمد قلی قطب شاہ پر لکھی گئی رومانی داستانی مثنوی''قطب مشتری''ہے ملاحظہ فرمائیں۔
قطب مشتری کی ادبی اہمیت
"قطب مشتری‘‘اردو کی قدیم ترین مثنویوں میں سے ایک ہے اورفنی خو ہیوں سے آراستہ وگن کی پہلی مثنوی ہے۔ پیشنوی شاعری کے معیار پر پوری اترتی ہے ، اس کی سب سے اہم خصوصیت روانی اور ربا ہے جس کا ایک شعر دوسرے میں اس طرح پیوست ہے جیسے ایک زنجیر کی ملتانی کڑیاں ۔ قطب مشتری قطب شاہی عبد کے پانچو میں بادشا و گد قلی قطب شاہ کے عشق کی داستان ہے جو 12 مردنوں میں زیور کتابٹ سے آراستہ کی لٹی جہاں تک ترتیب کی بات ہے تو یہ بھی عام مثنویوں کی طرح ترتیب دی گئی ہے ، اس میں بھی مافوق فطری عناصر کم نہیں میں حقیقی اور داستانی دونوں رنگ اس میں موجود ہے لیکن اس مثنوی کی اصل خوبی اس کا ادبی حسن ہے ۔ ملا وجہی نے اس مثنوی میں انسانی جذبات و احساسات کی تصویریشی میں فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے حوالے سے جمیل جالبی یوں لکھتے ہیں کہ ’قطب مشتری‘‘ میں ایک فیکا را نہ شعور کا بھی احساس ہو تا ہے ۔‘‘ آج ’‘ قطب مشتری‘‘صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہے لیکن یثنوی اس دور میں ایک کارنامہ معلوم ہوتی ہے ۔ قطب مشتری نہ صرف نئی روایت ،مثنوی کی ہیئت قرون وسطی کے داستانوی مزاج ، نئے رنگ تخن اور زبان و بیان کے جد ید اسلوب بلکہ شاعری کے اعتبار سے بھی قابل قد رتصنیف ہے ۔ ملا وی نے اس مثنوی میں شعر کی اصل خوبی کیا ہونی چاہیے، کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے اور وہ شعر کے سلیس ہونے کی بات بھی کر تا ہے ۔ شعر گوئی میں ملا وجہی نے کمیت کی جگہ کیفیت کو افضل قرار دیا ہے ۔ غرض کہ شاعری کے نوالے سے انہوں نے چند بنیادی اصولوں کی پختگی پر خاص توجہ مرکوز کرانے کی ابتدائی کوشش کی ہے۔ مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’سحرالبیان‘اور’’گلزار نسیم‘‘ کو یہاں جو مقبولیت حاصل ہے ٹھیک وہی مقبولیت دکن میں اس مثنوی کو حاصل ہے ۔ میشنوی بھی ملا وجہی کا ادنی کارنامہ ہے اس حوالے سے بھی وجہی کی یادتاز در ہے گی۔
شہزادہ محمد قلی قطب شاہ
قطب مشتری جو رومانیت سے بھر پور داستان اور اس دور میں بہترین مثنویوں میں ایک ہے محمد قلی قطب شاہ قطب کی یہ داستان عشق قطب مشتری اردو زبان کی مشہور مثنوی ہے جو ملا وجہی نے سن1609ء میں تحریر کی۔ مثنوی میں محمد قلی قطب شاہ کی مدح اور اس کے عشق کی داستان بیان کی گئی ہے۔اس مثنوی کی گئی شاعری کے میدان ایک نام ہے اور اس مثنوی نے بہت شہرت پائی۔ اس مثنوی کا شمار اردو کے کلاسیکی ادب میں اوالین مثنویوں میں ہوتا ہے۔ قطب مشتری اس خاتون کا لقب ہے۔ جس سے محمد قلی قطب کو عشق تھا۔ اسی کے نام پر عشقیہ مثنوی کا نام ہے۔
کردار نگاری
سلطان ابراہیم قطب شاہ، بادشاہ
محمد قلی قطب شاہ، شہزادہ
قطب مشتری، خاتون جس سے شہزادے کو عشق ہوا۔
محمد قلی قطب شاہ ترميم
محمد قلی قطب شاہ : (1580ء - 1611ء) سلطنت قطب شاہی کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دارالسلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد اعزازی نام دینے کے لیے اس شہر کو ایرانی شہر متشابہ رکھا گیا۔ جس کا نام اصفہان ہے اس سے متاثر ہوکر بنوایا گیا۔
عشقیہ داستان مثنوی قطب مشتری
اردو ادب کے تاریخ دانوں کی تبصرے میں یہ وہی خوبصورت لڑکی ہے جو بھاگ متی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ رقص و موسیقی میں ملکہ تھی اور بھی کمال رکھتی تھی۔ اس کے نام پر بھاگ نگر شہر بسایا گیا، بعد میں شہر کا نام حیدرآباد میں رہتی تھی اور یہ لڑکی بھاگ متی کی نام سے مشہور ہوئی اور اس کو خطاب حیدرمحل دیا گیا۔
محتصر خلاصہ
شہزادہ محمد قلی قطب شاہ، زمانہ شہزادگی ہی میں قطب مشتری یعنی بھاگ متی پر عاشق ہو گیا اورچوری چپکے کر اس سے ملاقاتیں کیا کرتا تھا۔ بادشاہ (عبد اللہ قطب شاہ) نے پہلے تو اسے باز رکھنے کی کوشش کی مگر ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے سخت طوفانی دریا میں گھوڑا ڈال دیا تو باپ کی محبت بھی جوش میں آئی اس نے دریائے موسیٰ پر پل بنوا دیا، تاکہ شہزادہ بھاگ متی سے ملاقات کر سکے۔ تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ نے بھاگ متی کو حرم میں داخل کر لیا۔ اور قطب مشتری کا خطاب دیا۔ اردو زبان کی مشہور مثنوی ہے جو ملا وجہی نے 1609ء میں تحریر کی۔ مثنوی میں محمد قلی قطب شاہ کی تعریف میں اور اس کے عشق کی داستان مثنوی کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔ شاعری کے میدان میں اس مثنوی نے بہت شہرت پائی۔ اس کا شمار اردو کے کلاسیکی ادب میں ہوتا ہے۔ اس مثنوی میں قطب مشتری ایک خوبصورت لڑکی ہی ہے اس خاتون کا لقب ہے۔ جس سے محمد قلی قطب کو عشق تھا۔ اسی کے نام پر مثنوی کا نام ہے۔