اقبال کا تصور بے خودی
اقبال کا تصور خودی، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی شعری تصانیف ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ میں ایک ندام حیات پیش کیا ہے ۔ اگرچہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی فرد کی انفرادی حیثیت کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے تو ان کافلسہ بے خودی فرد کی اجتماعی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے۔ انسان کی زیرگی محصل انفرادی نہیں ہوتی بلکہ ایک معاشرتی حیوان ہونے کی وجہ سے وہ ایک جماعت کا فرد بھی ہوتا ہے اور جماعت سے وابستگی اس کی شخصیت کی تعمیر اور تربیت کے لیے ضروری فرد اور معاشرے کے تعلق کے حوالے سے یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ فرد معاشرے کے لیے ہے یا معاشرہ فرد کے لیے ہے۔ کیا معاشرے کے استحکام کے لیے فرو کو قربانی وی چاہیے یا معاشرے کا یہ فرض ہے کہ وہ افراد کو تحفظ فراہم کرے۔ انسان نے جب سے تد ئی زندگی کا آغاز کیا یہ سوال اس کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ فرد اور معاشرے کے تعلق کے حوالے سے دونظریے ہیں ۔ ایک نظر یہ فرد کے مطلق العنان رہنے پر زور دیتا ہے، جبکہ دوسرا نظر یہ جماعت کو معبود قرار دیتا ہے اور فرد کی الفرادیت اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ افلاطون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حقیقی وجود معاشرے کا ہے فرد کا نہیں۔ اس تصور کے برکس ملوکیت کا یہ تصور ہے کہ رعایا کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ صرف ایک فرد ینی بادشاہ کی حیثیت ہوتی ہے اور باقی لوگ اس کے غلام ہوتے ہیں۔ جرمن فلسفی نطعے نے فرد کو مطلق العنان بنا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ جماعت کی پابند یاں فرد کی شخصیت کے ارتقا میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں ۔ ہیگل نے جماعت اور مملکت کو اہمیت دی اور فرد کی انفرادیت کو ختم کر دیا۔ کارل مارکس نے اشتراکیت کا نظر یہ ہیں کیا جہاں صرف جماعت اہم ہوتی ہے اور فرد کی آزادی کی کوئی اہمیت نہیں ۔ فرد کا وجود صرف معاشرے کے قیام اور بقا کا ذریعہ ہے ورنہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ فرد اور جماعت کے حوالے سے یہ دونوں نظریے افراط و تفریط کا شکار ہیں اور دونوں فرد اور جماعت کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرتے ہیں ۔ اقبال کا تصور بے خودی اس اہم سوال کا جواب ہے کہ فرد معاشرے کے لیے ہے یا معاشرہ فرد کے لیے ہے۔ اقبال کا یہ نظر یہ قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے ۔ اسلام اعتدال اور توازن کا مذہب ہے ۔ اسلام نے انسان کو عزت اور تکریم عطا کی ۔ ہر فرد کی انفرادیت کو تسلیم کیا اور انسانی ذات کی نشو ونما کو زندگی کا مقصد قرار دیا۔ پھر معاشرے پر یہ فرض عاید کیا کہ وہ انسان کو زندگی کی ضروریات بہم پہنچاۓ اور اس کے کردار کی نشونما کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے۔ افراد کا فریضہ یہ قرار دیا کہ وہ معاشرے کو تحفظ فراہم کر میں جو ان کی شخصیت کی تحمیل کا اقبال اسلامی نظام کو تمام بنی نوع انسان کے لیے بہترین نظام خیال کرتے ہیں۔ اسلام فرد کی شخصیت کے کسی پہلو کو جماعت کے مفاد سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی تمام عبادات میں اجتماعیت کا عضر پایا جا تا ہے۔ نماز ، روزہ ، حج، زکوۃ سب میں فرد جماعت سے مسلک ہے۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد اخوت اور مساوات پر ہے، اخوت کی رو سے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور برتری کا معیار تقوی ہے ۔ مثنوی ’’رموز بے خودی‘ میں اقبال نے سب سے پہلے فرداور جماعت کے ربط پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ فرماتے ہیں.
فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است
فرد می گیرد ز ملت احترام
ملت از افراد می یابد نظام
اقبال نے ’’خودی‘‘ اور ’’ بے خودی‘‘ کی اصطلاحات روایتی معنوں میں استعمال نہیں کیں۔ خودی کا لفظ ان کے نزدیک انا، تکبر یا غرور کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس طرح ’’بے خودی‘‘ کا لفظ آپے سے باہر ہونے یا بے ہوش ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اقبال کے خیال میں اس کا مفہوم خودی سے باہر آنالینی اپنی انفرادیت کو اجتماعیت میں بدلنا ہے۔ اقبال کے نزدیک جماعت سے ربط کے بغیر فرد کی کوئی حیثیت نہیں اور جماعت کا یہ ربط فرد کی خودی کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس کی پرورش کرتا ہے۔ اقبال نے اس تعلق کو شاخ اور شجر کی تمثیل سے واضح کیا ہے کہ ہر شاخ کی اپنی ایک مخصوص حثیت ہے لیکن شجر سے منقطع ہو کر شاخ سرسبز نہیں رہ سکتی.
ڈالی گئیں جو فصل خزان میں سجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
شاخ بریدا سے سبق اندوز ہوں کہ تو
نا آشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پوسته رہ شجر سے امید بہار رکھ
اقبال نے قطرے اور سمندر کی تمثیل سے بھی فرد اور جماعت کے تعلق کو ظاہر کیا ہے۔ ان کے نزدیک فرد جو ایک قطرے کی مانند تھا، جب اس کے دل میں وسعت کی خواہش پیدا ہوئی تو وہ جماعت میں شامل ہو کر سمندر بن گیا۔ اس طرح فرد کی خودی فتا نہیں ہوتی بلکہ استحکام حاصل کر لیتی ہے ۔ دہ بلند مقاصد سے آشنا ہو جا تا ہے۔ اس کی خودی پائیدار ہو جاتی ہے ۔ اور اس کی قوتیں منظم ہو جاتی ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں۔
تکمیل ذات سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو جماعت کے ساتھ استوار کرے ورنہ وہ اس درخت کے مثل ہو گا جس کی جڑیں اکھڑ گئی ہوں۔‘‘( ۲ )
افراد کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ افراد جلد جلد مٹنے والے ہوتے ہیں لیکن قومیں قائم رہتی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے ذریعے اپنی زندگی کو دائمی بنالیتی ہیں ۔ اقبال نے اس حقیقت کو ’’رموز بے خودی‘‘ میں تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے کہ جس طرح پھولوں کے مرجھانے کے باوجودفصل بہاراں باقی رہتی ہے ۔ اور اگر کسی کان سے کچھ گو ہر نکل بھی جائیں تو کان باقی رہتی ہے ۔ اس طرح چند افراد کے مٹ جانے سے قوم ختم نہیں ہوتی بلکہ قائم رہتی ہے۔ قوم صرف موجودہ افراد کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ گزرے ہوۓ انسانوں کی تاریخ بھی ہے اور اس میں آنے والی نسلیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔ اس طرح ملت غیرمحدود ہوتی ہے ۔ افراد انفرادی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں لیکن عالمگیر مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان کی جماعت سے وابستگی ضروری ہے۔ انسانی فرائض سرانجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ افراد میں ایثار اور خود فراموشی کا جذ بہ پیدا ہو۔ فرد کی خودی جب تربیت یافتہ اور مستحکم ہو جاتی ہے تو اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچنا چا ہیے ۔ اس کو اقبال بے خودی کہتے ہیں ۔ یہ بے خودی فرد کو خودغرض نہیں بننے دیتی ۔ جب تک فرد تنہا رہتا ہے اس کے سامنے کوئی بڑا نصب العین نہیں ہوتا اس کے دل میں اعلی مقاصد کی تڑپ پیدانہیں ہوسکتی۔ اس طرح قدرت نے اسے جو صلاحیتیں عطا کی ہیں وہ ضائع ہو جائیں گی ۔ جماعت اس کی قوت عمل کو ایک ضابلے میں لاتی ہے اور اس طرح خودی ذاتی اغراض سے نکل کر جماعتی اغراض اپنا لیتی ہے اور ’میں‘ ’’ تو‘‘ میں بدل جاتا ہے ۔ عزیز احمد کا کہنا ہے۔
’’بغیر اجتماعی ارتقا کے انفرادی ارتقاممکن نہیں ۔ جب تک وہ جماعت کے اندر اور جماعت کے ساتھ اپنی نمود نہ کرے، فرد کی خودی گمراہ اور پابہ زنجیر رہے گی۔ اجتماعی ارتقا اسے حقیقی آزادی دیتا ہے . جماعت میں فرد کی خودی خودشکنی کر کے جماعت کی خودی بن جاتی ہے۔ یہی رمز بے خودی ہے۔‘‘( ۳ )
اقبال کے خیال میں فرو اور قوم ایک دوسرے کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی افراد کی حالت انھی ہو تو قوم کی حالت بھی انھی ہو گی اور اگر قوم کی حالت انچی ہوتو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ قوم کے افراد کی حالت بھی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ اقبال نے اس طرح ستاروں اور کہکشاں کا ذکر کیا ہے کہ کہکشاں ستاروں ہی کا عظیم الشان جھرمٹ ہے۔ اگر ستارے یکجا نہ ہوتے تو کہکشاں صورت پذ یر نہ ہوسکتی ۔ موتی اور مالا کی تمثیل سے بھی اقبال نے فرد اور جماعت کے تعلق کو واضح کیا ہے کہ قوم موتیوں کی مالا ہے۔ اگر موتی نہ ہوں تو مالا کیسے بن سکتی ہے ۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس قسم کے موتی ہوں گے اسی قسم کی مالا ہو گی ۔ مینہیں ہوسکتا کہ مالا تو قیمتی ہو اور موتی قیمتی نہ ہوں ۔
فرد و قوم آئینه یک دیگر اند
سلک و گوہر ، کہکشاں و اختر اند
اقبال کے تصور خودی اور بے خودی میں بظاہر تضاد نظر آ تا ہے لیکن درحقیقت بے خودی سے خودی کا پہلو تحام ہوتا ہے۔ فرد کی قوتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ فرد کے دل میں آگے بڑھنے اور بلند ہونے کا ذوق بیدار ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر غلام عمر فرقان کا کہنا ہے اقبال کا تصور بے خودی بادی النظر میں خودی پر پابندی ضرور ہے لیکن اس پابندی کی حقیقت سواۓ اس کے کچھ نہیں کہ وہ ایک وسیع اور بے پایاں صحرا میں فکرمحض یا ل ٹمل کے لیے ایک رہ شناس اور راہ مین نظر کی رہنمائی کرتی ہے منزل مقصود کی طرف‘‘ ۔( ۴ ) اقبال نے مصرعے اور لفظ کی تمثیل سے بھی فرد اور جماعت کے تعلق کی وضاحت کی ہے۔ ایک مصرعے میں کئی لفظ ہوتے ہیں لیکن اگر ایک لفظ بھی ادھر ادھر ہو جاۓ تو مصرع مہمل ہو جا تا ہے ۔ حالانکہ انفرادی طور پر ان الفاظ کے معنی اب بھی وہی ہوں گے جو پہلے تھے ۔مثنوی رموز بے خودی میں اقبال کہتے ہیں۔
لفظ چوں از بیت خود بیروں نشست
گوہر مضموں بجیب خود شکست
اقبال کے نزدیک افراد کے باہمی ربط سے ایک ملت وجود میں آتی ہے۔ جس طرح کائنات کا نظام جذب باہمی پر قائم ہے اس طرح ملت بھی جذب باہمی سے قائم رہتی ہے ۔ جس طرح فرد کی خودی کی تعمیر ہوتی ہے اسی طرح ملت کی خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔ افراد کے کردار کو وحدت کا روپ دینے والا مرکز توحید ہے۔ ایک خدا کی اطاعت کرنے والے خود بھی ایک ہو جاتے ہیں ۔عقیدۂ توحید ملت کے لیے ایک غیر محسوس مرکز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تو حید کے عقیدے نے رنگ ونسل کے امتیاز کو منایا اور اسلام کے رشتے سے انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ توحید کا علمبر دار تمام انسانوں کو ایک برادری کے طور پر دیکھتا ہے ۔ رنگ ونسل کی بنا پر دوسرے انسانوں سے نفرت نہیں کرتا۔ قوم اس وقت بنتی ہے جس وقت اس کے افراد کے تصورات ونظریات ایک جیسے ہوں جب ان کے سامنے ایک ہی نصب العین ہو ۔ فکر و نظر کی ہم آہنگی وہ بنیاد ہے جس پر ایک قوم کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب سب کے سامنے خیر و شر کو پر کھنے کا معیار ایک ہو۔ یہ کیفیت صرف توحید سے پیدا ہوسکتی ہے ۔ اقبال کہتے ہیں۔
ملت بیضا تن و جاں لا الہ
ساز ما را پرده گرداں لا الہ
اسپیتے ہیں اور اس مرکز کو نا گز قرار دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اس ے ۵۱ ی وسرت برقرار راق ہے ''( ۵ اقبال مسلمانوں کے لیے ایک ایسا کلام حیات چاہتے تھے جس کی بنیاد قرآن ہور اسلامی اکام میات نے رنگ ونسل کے فرق کو مٹا دیا اور دنیا کے تمام انسانوں کو اخوت کے رشتے میں پرو دیا۔ انسان کو انسان کا احترام کرنا سکھایا۔ اقبال کے نزدیک بہترین تمدن وہ ہے جس میں ایک انسان دوسرے انسان کا اترام کرے۔ آپ کا کہنا ہے
برتر از گردوں مقام آدم است
اصل تبذیب احترام آدم است
ملت افراد سے بنتی ہے اور افراد کی تعلیم و تربیت کا انحصار ماؤں پر ہوتا ہے۔ ملت کی تعمیر میں ماؤں کا بڑا حصہ ہے ۔ اقبال نے قوی زندگی کی تعمیر میں عورت کے مقام اور مرجے کا بار بار ذکر کیا ہے چونکہ عورت نسل انسانی کی بقا کی ضامن ہے اور اس کی تہذیب و ترقی کے فرائض سرانجام دیتی ہے ۔مثنوی ’’رموز بے خودی‘‘ میں آپ نے پورا ایک باب اس حوالے سے لکھا ہے اور حضرت فاطمہ گو مسلمان عورتوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ "رموز بے خودی ‘‘ میں اقبال سورۃ اخلاص کی تفسیر بیان کر کے مسلمانوں کو قوی زندگی لینی بے خودی کے نکات سمجھاتے ہیں ۔ سورۃ اخلاص مسلمانوں کو متحد رہنے، غیروں سے بے نیازی برتنے اور ایک محترم قوم بنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کے فلسفہ خودی اور بے خودی کی عمارت اسلامی تہذیب کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے ۔ ملت فرد کے کاموں کے لیے محتسب ہے۔ اس کے بغیر تنہا فرد اپنے مقاصد سے غافل ہو جا تا ہے ۔ اقبال نے دین اسلام کے نقطہ نگاہ سے فرد و ملت لینی خودی اور بے خودی کا تعلق واضح کیا ہے چونکہ تمام انسانیت کی بھلائی اس میں ہے۔
ایک صالح اور مہذب معاشرے کی اساس توحید اور رسالت کے اصولوں پر ہوتی ہے اور اسلام اس معاشرے کی اکمل صورت ہے جو تمام بنی نوع انسان کو اخوت اور مساوات کی بنا پر تقلیل و توسیع خودی کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔
حوالہ جات۔
خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر ’’ فکر اقبال‘‘،طبع ہفتم ، بزم اقبال لاہور ، ص ۴۲۶ عزیز احمد،’’اقبال نئی تشکیل‘‘، گلوب پبلشرز ، لاہور ، دوسرا ایڈیشن ، ۱۹۶۸ ء، ص ۳۲۱ ۔ غلام عمر خان ، ڈاکٹر ، ’’اقبال کا فلسفہ خودی‘ مرتبہ: خادم علی جاوید، نا شرم احسن لهامی، ۲ ۔ یوسف حسین خان، ڈاکٹر ،’’روح اقبال‘، القمر انٹر پرائز ، لاہور ، جنوری ۱۹۹۲ ء ۱۹۹۷ ء ۵ ۔ محمد عمران ہاشمی ، سہ ماہی ’’الاقربا‘، ضیاء پرنٹرز ، اسلام آباد، اکتو بر دمبر ۲۰۰۴ ء