مومن خان مومن بحثیت شاعر
مؤمن بحیثیت شاعر منجم ،موسیقار اور استاد
برصغیر ہند و پاک میں دلی ( دہلی ) ازمنہ قدیم سے شعر و ادب اور ہنر وفن کا مرکز رہا ہے اور اس مردم خیز خطے نے لاتعدادنوابغ روز گار کو جنم دیا۔ خواجہ میر درد، غالب ،مومن ، جرأت ، شیخ امام بخش ناسخ، ذوق اور داغ دہلوی، معنی آفرینی مشکل پسندی اور معاملات عشق کے بیان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور ان عالی مرتبت شعرا نے دارلخلافہ دہلی میں جو انشاء اور اردو شاعری کے لیے دارالضرب تھا جنم لیا ۔ مذکورہ بالا شعرا نے اردو اور فاری میں شعر و ادب کو اس کی معراج تک پہنچایا۔ ان میں سے بیشتر شعراۓ کرام کا فارسی کلام ان کے اردو کلام پر تریج و امتیاز رکھتا ہے۔ تحکیم مومن خان مومن انہی نادر روز گار شعرا میں سے ہیں جو خیال کی ندرت اور شوخی بیان کے لیے ثانی نہیں رکھتے ۔ حکیم مومن خان مؤمن صف اول کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ نجباۓ کشمیر میں سے تھے ۔ ان کے دادا حکیم مدار خان اور ان کے بھائی سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہ عالم کے عہد میں دہلی آۓ اور شاہی طبیبوں میں شامل ہوۓ ۔ شاہی سرکار سے انہیں موضع بلابہ میں جا گیرملی ۔ جب انگریز سرکار نے جھجھر کی ریاست نواب فیض خال طالب کو عطا کی تو یہ علاقہ بھی اس میں شامل تھا۔ لہذا نواب فیض خاں نے یہ جا گیر ضبط کر کے ہزار روپیہ سالانہ پنشن مقرر کر دی جو ورامتا مومن کے خاندان میں چلتی رہی ۔ ( ۱ ) مومن کا خاندان دیلی میں کو چہ چیلاں میں رہائش پذیر تھا۔ یہیں مومن ۱۲۱۵ ھ بمطابق ۱۸۰۰ ، ۱۸۰۱ ء پیدا ہوۓ ( ۲ ) ۔ آپ کے والد ماجد کا نام حکیم غلام خان تھا۔ زندگی کے ابتدائی سال آپ نے اپنی والدہ کی آغوش پر مہر و محبت میں اور والد کے سایہ شفقت تلے بسر کیے ۔ چیلوں کے کوچے میں جہاں مومن کا خاندان رہائش پذیر تھا ۔ شاہ عبدالعزیز کا مدرسہ وہاں قریب ہی واقع تھا۔ مومن کے والد کو شاہ صاحب سے کمال عقیدت تھی حتی جب مومن پیداہوۓ تو حضرت شاہ عبدالعزیز نے ہی آپ کے کان میں اذان دی اور مومن نام رکھا لیکن بعد میں آپ کے اہل خاندان کو یہ نام پسند نہ آیا او رآپ کا نام حبیب اللہ‘‘ رکھا گیا۔ ( ۳ ) آپ کو مؤمن علی بھی کہتے ہیں لیکن عرف عام میں مومن نام ہی شہرت پا گیا۔ ( ۴ ) آپ نے ابتدائی تعلیم اس زمانے کے رواج کے مطابق حاصل کی ۔ اس دور میں مروجہ زبان فاری تھی ۔ آپ نے عبداللہ خاں علوی سے اس زبان میں کب فیض کیا( ۵ )۔ روایت ہے کہ عربی کی تعلیم آپ نے شاہ عبدالقادر دہلوی سے حاصل کی ۔ ( ۲ ) آپ نے ان دونوں زبانوں میں اس قدر دسترس پیدا کی کہ اپنے دور کے اسا تذہ پر سبقت لے گئے ۔ آپ نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ جو بات شاہ صاحب سے سن لیتے اسے فورا یادکر لیتے ۔ اکثر شاہ عبدالعزیز کا وعظ ایک بار سن کر بعینہ ادا کر دیتے ۔ جب عربی زبان میں کافی استعداد حاصل ہو گئی تو اپنے والد اور پچا غلام حیدر خان اور حکیم غلام حسن خان سے طب کی کتابیں پڑھیں اور انہی کے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے ۔ باوجود اختلاف زبان کے عربی و فاری پر اس قدر قدرت حاصل کی کہ فاری زبان والے نہیں اہل زبان سمجھتے تھے ۔ علوم متداولہ کے علاوہ طب، ریل ، شطرنج ، موسیقی اور ریاضی میں بھی فیل رکھتے تھے۔ تاہم ان علوم میں ان کے کمال کی داستانیں مبالغے سے خالی نہیں( ۷ )۔ ذہانت اور آ زادنشی انہیں کسی ایک فن پر مطمئن نہیں کرتی تھی ۔ آ باء کے علم مینی طبابت پر تھمنے نہ پاۓ اور دل میں طرح طرح کے شوق ملتے رہے ۔ شاعری کے علاوہ نجوم کا خیال آیا ۔ اس علم کو اہل کمال سے نہ صرف حاصل کیا بلکہ اس میں مہارت بہم پہنچائی ۔( ۸ ) طبعا آپ حکمت و طبابت کو دل سے چاہتے اور سراہتے تھے کیوں کہ یہ ان کے امداد کا پیشہ تھا۔ ابتدا میں آپ نے فاری میں شعر کہنا شروع کیالیکن آ پ کا بیشتر کلام اردو میں ہے ۔ آپ نے پہلے شعر کی اصلاح شاہ نصیر خان سے کرائی تھی ۔ اگر چہ طب وشعر میں ماہر و چیرہ دست تھے، لیکن کبھی بھی آپ نے شاعری اور طبابت ( حکمت ) کو وسیلہ معاش نہیں بنایا۔ مین عالم شباب میں جہانگیر آباد ہوان ، بدایوں، رامپوراور سھارنپور کے سفر کیے ۔ رامپور جا گر کہتے ہیں۔
دلی سے رامپور میں لایا جنوں شوق
دبرانه مچودڑ آۓ ہیں دیانہ تر میں ہم
دوسری مرتبہ سہسوان گئے وہاں فرماتے ہیں۔
چھوڑ دلی کو سہسوان آیا
بر زو گردی میں جتا ہوں میں
آپ مدح سرائی اور خوشامد گوئی سے سخت نفرت کرتے تھے ۔اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں آپ نے مدح سرائی سے پر ہیز کیا۔ مدحیہ اشعار میں صرف دو قصیدوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایک قصیدہ آپ نے راجا رنجیت سنگھ سے اظہار تشکر کے طور پر گیا۔ راجہ رنجیت سنگھ اس زمانے میں پیالے کے حکمرن تھے اور دہلی میں رہتے تھے ۔ ان کی سخاوتیں شہر شہر مشہور تھیں ۔ راجہ رنجیت سنگھ نے ایک ہاتھی انہیں تعلقا عطا کیا تھا۔ اس کے شکرانے کے طور پر مدحیہ قصید و کیا جس کا مطلع ہے۔
یہ سب اشعار ان کی کلیات میں موجود ہیں۔
مومن کی تصانیف اور دوسرے ماخذ کی بنا پر آپ کے مختصر حالات زندگی ملاحظہ ہوں: ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی اور نو بت حفظ قرآن تک پہنچی تھی کو چہ عاشقی میں نکل گئے ۔ جس کا ذکر اپنی مثنوی شکایت ستم ( ۱۲۳۱ ھ ) میں خود کرتے ہیں ( ۱۲ )۔ اپنے قاری دیوان میں اپنے عشق کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
باری بر عشق آن صنم جان بر لب آمد رحمتی
کافر مبادا سر کشد، از خاک مومن خان ما
تعلیم مومن کے والد حکیم غلام نبی خان نے آپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔ آ پ کو شاہ عبدالقادر کے پاس بھیجا تا کہ عربی ، فاری ، فقہ منطق و معانی کی تعلیمات سے بہرہ ور ہوسکیں ۔ آپ کا ذہن اس قد ر توانا اور حافظہ اتناقوی تھا کہ شاہ عبدالقادر نے ظاہری مروجہ علوم کے ساتھ ساتھ علوم باطنی اور اس کے اسرار و رموز سے بھی آپ کو آشنا کیا۔ آپ حافظ قرآن بھی تھے ۔ آپ نے شعر و ادب میں اعلی و ارفع مقام حاصل کیا۔ مؤمن، انوری ، خاقانی اور ابوالفرج رونی کے مقابل ابناڈکر یوں کرتے ہیں۔
رتبہ ام گلشنی کجا یابد
که به ریحان رس خس و خاشاک
انوری گر مه است و من خورشید
بوالفرج گر زیر است و من سباک
مومن خان مومن ستاره شناسی ( علم نجوم ) اور علم رمل میں بھی کافی دسترس رکھتے تھے۔ لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، انہوں نے ان علوم سے بھی مالی فائدونہیں اٹھایا۔ مومن کہتے ہیں۔
این میسویان به لب رساندند
بان من و جان آفرینش
افغانستان پر انگریزوں کا تسلط کافی طویل مدت پر حاوی ہے ۔ ۱۲۹۹ ھ ق سنہ ۱۸۸۲ ء میں جب انگریز اس سرزمین میں قابض تھا۔ جلال آباد میں برسر پیکار مجاہدین کی فتوحات پر آپ نے قطعہ تاریخ کہا ہے۔
به ارباب ایمان در آویختند
زبس کافران ہزیمت نصیب
شادی آپ ایک آزاد منش اور عاشق مزاج شاعر تھے اور جیسا کہ اہل دل خانوادگی زندگی کی طرف سے بے اعتنا ہوا کرتے ہیں ۔ مومن بھی ایک لا پرواہ قسم کے انسان تھے اور ان کی یہی روش از دواجی زندگی میں ناکامی کا سبب بنی اور بہ ظاہر آپ کی شادی جو آپ کے والد کی وفات کے بعد منعقد ہوئی تھی ، کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوگی ۔ آپ نے دوبار شادی کی ۔ پہلی بیوی سے آپ کے کوئی اولا دنہیں ۔ دوسری شریک حیات سے دو بچے ہوۓ ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔ صاحبز ادے کا نام خواجہ احمد نصیر خان اور صاحبزادی ، بن محمدی بیگم صاحبہ یہ دونوں آپ کی شریک حیات ، انجمن النساء بیگم کے بطن سے تھے ۔ مومن اپنے ان دونوں بچوں سے بہت محبت کرتے تھے ۔ان کی تعلیم و تربیت پر آپ نے بہت توجہ کی ۔ مذہب اور مؤمن باوجود اس کے کہ کہتے ہیں اور لکھا گیا ہے کہ مومن ایک رند اور عاشق مزاج شاعر تھے ۔ نظر بازی ، عیاشی وسہل پسندی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھالیکن روحاً اور پالنا مومن ایک مذہب پرست اور دین دار انسان تھے ۔ مدرسہ شاعر عبدالعزیز میں شاہ عبدالقاور کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان جیسے جید عالم دین سے دین کاعلم حاصل کیا جو بہ ذات خود اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ دینی علوم سے بہرہ وافی رکھتے تھے اور پچر سید احمد بریلوی کے مرید تھے اور مولوی اسمعیل صاحب کو اپنا پیر و مرشد سمجھتے تھے ۔ ( ۱۲ ) و و خود کو قریشی کہتے تھے ۔ لیکن بدعت پسند نہیں تھے ۔ کتاب وسنت سے گہرا شغف رکھتے تھے اور ذاتی طور پر اس پر عمل پیرا بھی تھے خود کہتے ہیں۔
گویند برون زکفر و عصیان نشدم
تا تابع یک تن از فقیهان نشدم
مومن نے فارسی اور اردو شاعری میں رباعیات ، قصائد اور قطعات میں حضرت رسول اکرم اور صحابہ کرام اور اہل بیت اطھار رضی اللہ عنھم سے عقیدت کا اظہار کیا ہے ۔ مثلا فرماتے ہیں۔
امروز که خاکی زسری برزده ایم
لرزان لرزان قدم به محشر زده ایم
مؤمن نے تاعمر کسی سے کچھ صلہ نہ چاہا اور نہ ہی اس امید پر کسی کی مدح سرائی کی ۔ اپنے علم وعرفان لینی طلب ، رمل ، نجوم، شاعری ، موسیقی و نفہ سرائی سے بھی مالی منفعت حاصل نہ کی ۔ کیوں کہ ان علوم سے مالی مفاد حاصل کرنا ذاتی طور پر آپ کو پسند نہیں تھا۔ صرف جائیداد کی شکل میں، یا زمین و باغات و زراعت کے محاصل سے اور چو کچھ والد سے میراث میں ملا تھا۔ اس پر گز ر واوقات کی اور اسی پر راضی و شاکر تھے۔
مومن کے شاگرد
حکیم مومن خان مؤمن شعر و ادب اور ہٹر وفن کے اعلی پاۓ کے اسا تذہ میں شمار ہوتے تھے ۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ان میں سے ہر ایک بہ ذات خود ادیب و شاعر و ہنر مند تھا۔ آپ کے مشہور شاگردوں کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں: نواب محمد مصطفی خان متخلص ،شیفہ ( سال پیدائش ۱۳۲۱ ، دہلی ) صاحب تذكرة الشعراء گلشن بے خار ۔ ( ۲۲ ) سرفراز الملک مرتضی خان مظفر جنگ بہادر نواب اکبر خان میرحسین تسکین، جاۓ پیدائش دہلی ، انتہائی ذکی الطبع تھے ۔ حکیم سید منورعلی تخلص آشفتہ ، جاۓ پیدائش دہلی ( ۲۳ ) سید ۔ غلام علی خاں وحشت ( ۷ ) غلام ضامن کرم، انشائ فاری مومن، میں آپ کاذکر ہے ۔آپ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ( ۲۴ ) حکیم خیر الدین یاس ( ۲۵ ) نواب اصغرعلی خان ظریف پہلے اصغرتخلص کرتے تھے ، پھرنیم اور ظریف تخلص کیا۔( ۲۲ ) میرزا خدا بخش قیصر شہزادے ( ۲۷ ) امتہ الفاطمہ صاحب جی ( مؤمن کی محبوب ترین شاگردوں میں سے تھیں اور ان کی معشوقہ بھی تھیں ۔ ( ۲۸ ) ان شاگردوں کے علاوہ مومن خان مومن کی زندگی میں کچھ ہم نشینوں اور دوستوں کو بہت اہمیت حاصل تھی ۔ جو مختلف جہتوں سے آپ کے ہم صحبت رہے ہیں۔ ان سب کے اسمائے گرامی مومن کے قطعہ ہاۓ تاریخ وفات کے ضمن میں آتے ہیں ۔ مثلا تفضل حسین خان ، لالہ جوالہ پرشاد، حامد علی خاں ، حکیم احسن خان اور حکیم سکھ نند وغیرہ۔