اردو زبان کا تاریخی پس منظر[PDF]
اردو زبان کا ابتداء
اردو زبان کا ابتداء،زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداء کی بنیاد بر صغیر پاک وہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے ۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردوزبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتداء کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کو شش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداء کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردوزبان کے محققین اگر چہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداء مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جا تا ہے ۔ اس اند از سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جاۓ تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں.
مذید ادبی دور دیکھیں۔
اردو ناول کا ارتقاء
اداس نسلیں فکری نقطہ نظر
ایہام گوئی کا دور آغاز
عادل شاہی دور میں دکنی ادب
قطب شاہی دور کے چند شعراء
دکن میں اردو
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے ۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روز مرد کی گفتگو در لین دین کے معاملات میں یقینا انہیں زبان کا مسئلہ در پیش آتاہو گا۔ اسی میل میلاپ اور امتلاط وارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظر یہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک وسیله اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظر یہ قابل قبول نہیں ۔ ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوۓ
عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کاسوال خارج از بحث ہو جا تا ہے ۔ دکن میں اردو شمالی ہند " سے خلبی اور تغلق عسا کر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سر پرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاء سے ہے ۔
اسی طرح دیکھا جاۓ تو جنوبی ہند (دکن ) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے ۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے ، یہاں سے پکچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے ۔ طلوع اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے ۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پید اہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پانی کے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر پکانکت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدانہ ہو سکا جہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دو سرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات اسانی سخا پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ فلری سی پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔ سندھ میں اردو:۔ یہ نظر یہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی با قاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوز بان وجو و پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں: "مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا نیولی اس وادی سندھ میں تیار ہوا ہو گا۔ " اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے ۔ مقامی لوگوں کی زبان ، لباس اور رہن سہن میں دیر پا اور واضح تغیرات سامنے آۓ ہیں بلکہ عربی زبان و تہذ یب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ آج سند ھی زبان میں عربی کے الفا کی تعد او پاکستان وہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاواسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اند از واس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزد یک دوسری زبانوں میں جہاں دی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سند ھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طور پر سندھی میں پہاڑ کو کوئی مشترک زبان پید انہ ہو سکی۔ یہی وجہ " جہل“ اور پیاز کو ” بصل “ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ اس لیے ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوے کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے ۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین اس کے بارے میں قطعیت سے پچھ نہیں کہا جا سکتا ابتد ائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتر ار ہواتو" ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوۓ۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذ اب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہو گا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداء کا قیاس شاید اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی ، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذ کر ضر ور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سندھی اور ملتانی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہو گئی۔ اس آمیزش کا زیولی قیاس کر تا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجود گی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
پنجاب میں اردو۔
حافظ محمود شیرانی، نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتد او انجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتد او اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہند وستان پر بار بار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقر یا دو سو سال تک یہ فانھیں یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرسے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیر انی صاحب نے اس ملاقے کے بہت سے شعراء کا کلام پیش کیا ہے ۔ جس میں پنجابی ، فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں۔
سلطان محمود غزنوی، کی فتوحات کے ساتھ ساتھ بر صغیر کی تاری کا ایک نیادور شروع ہوا۔ فتوعات کا یہ سلسلہ 1000 سے 1026 ک جاری رہا اور پنجاب وسند ھ کے " علاوہ قنوج گجرات( سومنات ) متھر اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا الہتہ 1025 ء میں لاہور میں اپنانائب مقرر کر کے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نے فا تھین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوۓ ، علماء اور صوفیانے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گر و و در گر وہ اسلام قبول کرنے لگے اس ساجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا۔ کیونکہ فاتھین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاں کی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح فرزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان عربی ، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایاں ہوۓ۔
مسلمان تقریبا پونے دو سو سال تک پنجاب جس میں موجو دو سر حدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے ۔ 1193 ء میں قطب الدین ایکس کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہند وستان پر مسلمان قابض ہو گئے ۔ اب لاہور کی بجائے دہلی کو داراخلاقہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازما مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طرف سفر کر گئی ۔ تاریخی اور سیاسی واقعات دشواہد کے علاوہ پر فیسر محمود خان شیرانی ، اردو اور پنجابی کی اسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کر کے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز انباب میں ہوا۔ فرماتے ہیں۔
ار دواپنی صرف و نحو میں پنجابی د ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اساءو افعال کے خاتے ہیں الف آتا ہے اور دونوں میں جن کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ " دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے تو ابعات وماوقات پر بھی ایک با قاعد ہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذ کیر و تانیث کے قواعد ، افعال مرکبہ و توابع میں متحد ہیں وانجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفالا مشترک ہیں۔
مختصر پر وفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے اسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و محوی خصوصیات کی بنا پر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے ۔ پر وفیسر سینٹی کمار پیٹری نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کیا ہے ۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتد اختیار کی ووہی ہو گی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو ، پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں پاتھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ نو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہو گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مطربی یوپی میں اس وقت قریب ملتی جلتی بوی راج ہو۔ مزید براں پر وفیسر موصوف ما فظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیئے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا ہی باری رہا۔ حافظ محمود شیرانی کی تالیف " پنجاب میں اردو" کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانامحمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتدا کے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں ۔ پنجاب میں اردو کا نظر یہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف "کیلیے " کے منظر عام پر آنے سے یہ نظر یہ ذرا ملوک ساہو گیا۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداء کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظر یہ نہ دے سکے ۔ یوں پروفیسر اختر شیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔
دہلی میں اردو۔
اس نظریے کے حامل محقین اگر چہ اسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کر کے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں ۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشو و نما اور ارتقاء میں تو مانی جا سکتی ہے ابتداء اور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے از تقاو میں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ وہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبز واری نمایاں ہیں۔ وہ
اس بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مجھ میں نہیں آتا کہ اردو کی ابتداء کا مسلمانوں سے یا سر ز مین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میر ٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس " کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں انھی طرح معلوم ہے کہ اردواپنے ہار سنگھار کے ساتھ وہلی اور یو پی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کا آغاز انہی اضلاع میں ہو ایا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یو پی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔
ان نظریات کے علاو میر امن ، سر سید اور محمد حسین آزاد نے بھی کہ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے
پیش کنند گان فقد ان تحقیق کا شکار ہیں۔
مجموعی جائزہ:۔
اردو کی ابتداء کے بارے پر وفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑاوزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک ماوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چو نکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پانی کے مائل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہر حال قطب الدین ایک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہند و اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراہ کے بعد یہ امر واش ہو جا تا ہے کہ قدیم ارو کا آغاز ہد ید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ ۰۰۰۱ کے لگ بھگ اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے پھیلنے لگے۔
اردو ادب کا دکنی دور
محمد قلی قطب شاه
یوں تو مسلمانوں نے دکن پر کئی حملے کیے لیکن علائو الدین علمی کے حملے نے یہاں کی زبان اور تہذیب و تمدن اور کلچر کو کافی حد تک متاثر کیا۔ مر کز سے دور ہونے کی وجہ سے علائو الدین غلامی نے یہاں ترک سر داروں کو حکمران بنادیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجاۓ دیو گری کو دارالسلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کو وہاں جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھر انے و ہاں آباد ہوئے۔ محمد تعلق کی سلادت کمزور ہوئی تو دکن میں آزاد ہنی سلات قائم ہوئی اور دکن، شالی ہند وستان سے کٹ کر رو گیا۔ بعد میں جب بہمنی سلطنت کمزور ہوئی تو کئی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں یا پور کی عادل شاہی حکومت اور گو کند و کی قطب شاہی حکومت شامل تھی۔ ان خود مختار ریاستوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے علم و فضل اور شعراء و اد باد کن پہنے ۔ آیئے اب جاپور کی عادل شاہی سلطات کے تحت اردو کے ارتقاء کا جائز دولیں۔
کانپور کی عادل شاہی حکومت۔
عادل شاہی حکومت کی بنیاد 895 ہجری میں پڑی۔ یہاں کا پہلا حکمران یوسف عادل شاہ تھا۔ ہنی ریاست کے زوال کے بعد یوسف شاہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی ۔ یہ حکومت دو سو سال تک قائم رہی اور تو باد شاہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے ۔ ابتدائی صدی میں و گنی زبان کی ترقی کے لیے پڑھ خاص کام نہیں ہو اور ایرانی اثرات ، شیعہ مذ ہب اور فارسی زبان دکنی زبان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ لیکن اس کے بر تلکس دور عادل شاہی کی شاہی سر پرستی دوسری صدی میں اردو ادب کی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی اور ان کے جانشین مد عادل شاہ نے اس سلسلے میں دکنی زبان کی جانب خصوصی توجہ دی۔ محمد عادل شاہ کے جانشین علی عادل شاہ ثانی نے و کنی کو اپنی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس صدی میں شاہی سر پرستی کی وجہ سے ادب میں در باری رنگ پید اہوں اصناف سخن کی باقاعد ہ تقسیم ہوئی۔ قصیدے اور غزلیں کہی گئیں اور شاعری کا ایک اعلی معیار قائم ہوا۔ اس کے علاو و صوفیا نے بھی یہاں کی زبان پر گہرے اثرات چھوڑے۔ عادل شاہی دور میں اردو کے فروغ و تر و تج کے مختصر جائزے کے بعد آیے اب اس دور کے شاعروں کا مختصر تذکرہ کر یں تا کہ زبان و ادب کے ارتقاء کا اندازہ ہو سکے ۔
اشرف بیابانی۔
شاہ اشرف کے آبا و اجداد کا تعلق سندھ سے تھا۔ آپ جنگلوں، بیابانوں میں رہنے کی وجہ سے بیا بانی مشہور ہوئے۔ ان کی تصانیف میں مثنوی "نواسر بار " نمایان حیثیت کی حامل ہے ۔ جس میں واقعات کربلا کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی امام حسین کی شہادت کے واقعات کو بڑے موثر اور درناک انداز میں بیان کیا ہے ۔۔ اس مثنوی کے علاوہ "لازم المبتدی واحد باری“ دو منظوم فقہی مسائل کے رسالے ہیں۔ ایک اور تصنف قصہ آخر الزمان کاذکر بھی آتاہے۔
شاہ میراں جی شمش العشاق۔
شاہ میر اس بی بڑے عالم فاضل آدمی تھے ۔ بقول ڈاکٹر نذیر ام انہوں نے بیجاپور میں ایسے خاند ان کی بنیاد ڈالی جس میں ان کے جانشین کے بعد دیگرے کئی پشت تک صاحب علم اور صاحب ذوق ہوتے رہے ان کے دو فرزندوں کے نام ملتے ہیں ایک برہان الدین جانم اور دوسرے خواجہ عطاللہ ۔ شاومیراں بی کو جو تصانیف ہم تک پی ہیں ان میں "خوش نامہ " "خوش اور " " شبادت العتیقت " اور "مخزمر غوب" اظلم میں ہیں اور ”مر غوب القلوب“ میر میں ۔ ان کا موضوع تصوف ہے ۔ یہ تصانیف مریدوں اور عام طالبوں کے لیے بطور بد ایت لکھی گئی ہیں۔
شاہ برہان الدین جانم۔
بربان الدین جانم شاہ میراں بی مس العشاق کے بیے اور خلیفہ تھے۔ انہوں نے نثر اور نظم دونوں میں عارفہ خیالات اور تصوف کے مسائل پیش کیے ہیں۔ چنانچہ یہ رسالے ادبی نقطہ نظر سے زیادہ لسانی اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے ار دو زبان کے ار نقاء کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ارشاد نامہ" ان کی خاصی طویل نظم ہے جس میں تصوف کے اہم مسائل طالب اور مر شد کے مابین سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے علاو" حجتہ البقائی“ " وصیت الہادی" "سک سہیلا“ اور کئی دو ہے اور محیال بھی ان سے منسوب ہیں۔
ابراہیم عادل شاہ۔
ابراہیم عادل شاہ اس دور کا پنا حکمران تھا اسے فنون لطیفہ سے بڑی و پی تھی چنانچہ اس کے عہد میں بجا پور علم و ادب کا مرکز بن گیا۔ بادشاہ کو شعر و سخن سے گہر انگا کو تھا وہ خود بھی شعر موزوں کہا کرتا تھا۔ تاریخ سے بھی وچپی تھی اور خوش نوای میں بھی طاق تھے ۔ ابراہیم کو موسیقی سے گہرا شغف تھاجس کا واضح ثبوت اس کی کتاب "لورک ہے۔ جس میں ابراہیم نے مختلف راگ راگنیوں کے تحت اپنے نظم کیے ہوئے گیت پیش کیے ہیں۔
عبدل۔
عبدل ابراہیم عادل شاہ کے دور کا مشہور شاعر تھا۔ ان کے حالات زندگی نہیں ملتے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا نام عبد القاور یاعبد المغنی تھا۔ عبدل کی صرف ایک مثنوی ” ابراہیم نامہ “ ملتی ہے۔ ” ابر اٹیم نامہ“ کے سات سو سے زیادہ شعر ہیں۔ اس مثنوی میں عادل شاہ کی زند گی کے حالات قلم بند ہیں۔ اگر چہ یہ ابراہیم عادل شاہ کی مکمل سوانح عمری نہیں مگر اس میں اس کی زندگی کے اہم واقعات آگئے ہیں۔ عبدل کی اس مثنوی میں اس عہد کی جیتی جاگتی تصویر میں ملتی ہیں۔ اس مثنوی کے ذریعے اس دور کے رسم و رواج ، آداب دربار و محفل عمارات و زیورات، سیر و شکار وغیرہ موضوعات پر قابل قدر معلومات پیش کی گئی ہیں۔
صنعی بیجاپوری
صنعت کا نام محمد ابراہیم تھا۔ صنعتی کی دو مثنویاں ملتی ہیں۔ ”قصہ تمیم انصاری ‘‘ اور مثنوی "گلدستہ“ ۔ ” قصہ تمیم انصاری “ ایک صاحب حضرت تمیم انصاری سے متعلق ہے ے اطلسمات میں پھنس گئے اور کئی سال تک میں ہیلتے رہے۔ اولي نقطۂ نظر سے صنعت کی مثنویوں میں سادگی اور شانتگی کے ساتھ ساتھ دوسری خوبیاں ہی ہیں۔ مثنوی "گلدستہ “ عشقیہ داستان ہے ۔
ملک خوشنود۔
ملک خوشنود کو لکنڈہ کی قطب شاہی سلطات کا غلام تھا جب سلطان کی پھو پھی خد یجہ سلطان کی شادی محمد عادل شاہ سے ہوئی تو ملک خوشنود بھی خدیجہ سلطان کے سامان کی حفاظت کے لیے روانہ کیا گیا۔ راستے میں اس نے اس مد گی سے کام کیا کہ خدیجہ سلطان نے اسے ایک اعلی عہد ے پر مامور کیا۔ ملک خوشنود نے متعد د غزلیں اور قصید ے تے ہیں۔ اور امیر خسرو کی فارسی مثنویوں کا اردو ترجمہ بھی کیا جن میں "یوسف زلیخا"، "بازار حسن اور "بشت بہشت "شال تہا۔
کمال خان رستمی۔
رستمی قادر الکلام شاعر تھے ۔ اس نے غزالوں اور قصیدوں کے علاوہ ایک عظیم مثنوی " خاور نامہ" بھی تکھی۔ رستمی نے یہ مثنوی شد یچه سلطان شہر بانو یعنی ملکہ عادل شاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔ یہ مثنوی اصل میں حسام کی فارسی مثنوی خاور نامہ کا ترجمہ ہے ۔ اس مثنوی میں ایک فرضی داستان نظم کی گئی ہے جس کے ہیر و حضرت علی ہیں جو کئی ملکوں کے بادشاہوں سے جنگ کرتے اور جنوں پریوں سے مقابلہ کرتے ہیں ان کا مقصد تبلیغ اسلام ہے ۔ یہ مثنوی کئی اعتبار سے اہم ہے مثلا یہ اردو کی پہلی صحیم رزمیہ مثنوی ہے۔ خیم ہو نے کے باوجو د اس میں تسلسل نہیں ٹوتے پا تا۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر عادل شاہی عہد کی تہذیب و معاشرت کے مرقعے پیش کیے ہیں۔ اسلوب بیان بھی سادہ اور سلیس ہے۔ یہ مثنوی چوہیں ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ جسے رستمی نے ڈھائی سال کی قلیل مدت میں مکمل کیا ہے۔ ۔
حسن شوقی۔
شیخ حسن نام اور شوقی تخلص تھا۔ ان کے حالات زندگی کے متعلق ہم لا علم ہیں۔ شوقی کی دو مثنویاں ملتی ہیں۔ "فتح نامہ نظام شاہ "اور "میز بانی نامہ "۔ " فتح نامہ نظام شاہ“ میں جنگ تلی کو نہ کا حال بیان کیا ہے۔ جس میں قطب شاہی، عادل شاہی اور نظام شاہی حکومتوں نے مل کر بجا گمر کے راجہ سے مقابلہ کیا اور اس کا خاتمہ کر کے علاقہ آپس میں تقسیم کر لیا۔ مثنوی میں اس دور کے تمدن ہند وکوں مسلمانوں کے آپس میں تعلقات سبھی چیز میں واضح ہو جاتی ہیں۔ دوسری مثنوی "میز بانی نامہ میں شوقی نے سلطان کی شہر گشت اور وزیر اعظم مصطفے خان کی بیٹی کی شادی اور اس کی مہان نوازی کا کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ شوقی غزل گو بھی تھے۔
علی عادل شاہ ثانی شاہی
محمد عادل شاہ کے بیٹے تھے۔ ان کی پرورش خدیجہ سلطان شہر بانو کی گرانی میں ہوئی جو خود علم و ادب کی پرستار اور شعراء کی قد روان تھی ۔ ملک خوشنود اور رستمی کی صحبت نے بچپن میں ہی اس کے ذوق سخن کو نکھارا۔ باپ کے انتقال پر 1067 ھ میں تخت نشین ہوا۔ شاہی نے تقریبا تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ اردو کے علاوہ ہندی فارسی میں شعر کہتا تھا۔ کلیات شاہی میں قصیدے ، مثنویاں ، غزلیں ، مخمس، مثمن ،رباعیات اور گیت دوہے موجود ہیں۔ شاہی کی غزلوں کا اظہار و اسلوب لب و لجے میں ندرت اور بانکپن پایا جاتا ہے۔ اس نے تشبیہوں کو مقامی رنگ یا اور ہندوستانی روایات اور ہند و دیومالا کو بڑی چابک دستی سے غزل میں کھپایا ہے۔ اس سے اسکے گہرے مشاہدے وسیع مطالعے اور شاعرانہ بار یک مینی اور بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہو تا ہے ۔
ملک الشعراء نصرتی
محمد نصرت نام اور نصرتی تخلص کرتے تھے۔ نصرتی نے بیجا پور کے تین بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ علی عادل شاہ کے زمانے میں وہ شہید ہوئے ۔ اب تک ان کی چار کتب کا پت یعنی گشن عشق" اسکندری“ اور کلیات نصرتی گلشن عشق ایک عشقیہ مثنوی ہے جس میں کنور منوہر اور مد ماتی کا قصہ نظم کیا گیا ہے۔ " علی نامہ “ علی عادل شاہ کی سوانح عمری ہے جس میں نصرتی کے قصائد بھی شامل ہیں۔ انصرقی کی دونوں مثنویاں اس کے کمال فن اور قدرت کلام کی بہترین شہاد تیں ہیں ۔ نصرتی کی تیسری مثنوی ”سکندر نامہ“ ہے ۔ اس میں سکند ر عادل شاہ کی وفات پر شیواری اور عادل شاہی فوجوں کے در میان لڑائی ہوئی اس کا ذکر ہے ۔ لیکن اس میں " علی نامہ " اور "گلشن عشق " جیازور بیان اور قانتگی نہیں۔ اصرتی صرف مثنوی نگار نہیں تھا بلکہ ایک با کمال غزل گو بھی تھا۔ اگر چہ اس کی غزل بہت کم تعداد میں میسر ہے تاہم اس کی غزل میں بے ساختگی سلاست اور روانی محسوس ہوتی ہے ۔
سید میراں ہاشمی
ہاشمی کا نام سید میراں تھا۔ وہ علی عادل شاہ ثانی کے عہد کا شاعر تھا۔ ہاتھی مادر زاد اند ھاتھا۔ بادشاہ کے دربار میں اسے خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ ہاشمی نے ایک دیوان اور مثنوی "یوسف زلیخا‘‘ چوڑے۔ اس کے دیوان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہاشمی کو دکن کی عورتوں کی زبان پر عبور حاصل ہے۔ اس کے دیوان میں ریتی کے انداز کی نزلیں بھی موجود ہیں۔ اس سے کچھ لوگ اسے ریتی کام و ہد قرار دیتے ہیں۔
کن آوے تو پر دے سے نکل کر بہار بیٹھوں گی
بہانہ کر کے موتیاں کا پروتی ہار بیٹھوں گی
اگر مجموی طو پر دیکھا جاۓ تو عادل شاہی دور میں نثری تصانیف کے علاوہ شاعری نے بہت ترقی کی۔ اس دور کے شعر او نے ہر صنف سخن مثلا مثنوی، قصیدہ، مرثیہ ، غزل، رباعی ، گیت اور دو ہے سب میں طبع آزمائی کی ۔اس دور میں پہلی بار عشقیہ اور رزمیہ مثنویاں لکھی گئیں۔ مثنوی کے علاوہ قصیدہ نگاری کا آغاز ہو اور غزل کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس دور کی غزل میں عورت کی طرف سے اظہار عشق پر زور ہے ۔ مشق کا تصور بھی جسم کو چونے ،لطف اندوز ہونے اور رنگ رلیاں منانے کی سطح پر ہے ۔ اسی دور میں ریتی کا پہلا دیوان مرتب ہوں۔ غرضیکہ اس دور میں شاعری کی تمام اصناف سخن کو نمائند گی ملی۔ زبان کو بھی ترقی نصیب ہوئی۔ جہاں تک نثری ادب کا تعلق ہے اس کا موضوع زیادہ تر مسائل تصوف تک محدود ہے۔
قطب شاہی دور
قطب شاہی سلطنت کا بانی سلطان قلی شاہ تھا۔ سلطان قلی شاہ بھی عادل شاہی سلطنت کے بانی یوسف خان عادل کی طرح ایران سے جان بچا کر دکن آیا اور اپنی اعلی صلاحیتوں ، قابلیت ، وفاداری اور سخت کوشی کی بنا پر ترقی کی منزلیں طے کیں اور صو بہ تلنگانہ کاصو بہ دار بن گیا۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد اپنی خود مختیاری کا علان کیا اور دکن میں ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو کم مو ای برس تک قائم رای قطب شاہی سلاطین علم و ادب سے خاص اکائور کھتے تھے اور اہل ہنر کی قدردانی کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی سر پر سی میں مختلف علوم وفنون نے ترقی کی۔ قطب شاہی دور کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا تا ہے۔
ا)ابتدائی کو شش جو 1508 ء سے 1580 تک ہوئیں
۴ ) عروج کا زمانہ جو ( 158 سے 1676 تک جاری رہا۔
۳ ) دور انتشار جو 1676 ء سے شروع ہو کر 1687 پر ختم ہوا۔
تیسر اوور چونکہ حکومت کمزور ہونے کی وجہ سے انتشار کا دور ہے اس لیے اس دور میں علم وادب کے حوالے زیادہ قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ آیئے ابتدائی دو ادوار کا جائزہ
پہلا دور
گولکنڈہ کے ابتدائی دور کے چار بادشاہ ، سلطان قلی تبشید قلی، سبحان قلی اور ابراہیم قلی اپنی سلطات کے استحکام میں مصروف رہے اور انتظام کی طرف زیا دوتو جہ کی لیکن یہ بادشاہ بھی صاحب ذوق تھے۔ اس طرح ابراہیم کی کو ششوں سے ہی گوگنڈ میں علمی و ادبی فضا پیدا ہوئی اور عوام اردو زبان میں د چپی لینے لگے۔ اس دور میں فارسی شعراء کو فروغ حاصل ہوا لیکن ابراہیم کے عہد میں اردو شعراء میں ملا خیالی، ملا فیروز اور سید محمود کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
دوسرا دور
قلب شاہی سلطنت کا یہ دور صحیح معنوں میں علم و ادب کی ترقی اور عروج کا دور ہے ۔ کیونکہ ابراہیم قطب شاہ نے جس طرح اہل علم و فضل کی قدر دانی کی تھی اس کی وجہ سے دور دور سے اہل علم و فضل آکر دکن میں جمع ہو چلے تھے۔ ابراہیم قطب شاہ کی وفات پر گو لنڈ کو محمد قلی قطب شاہ جیا حکمران نصیب ہوا۔ محمد قلی قطب شاہ کا دور کئی انتبار سے اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کا دور پر امن دور تھا۔ ایسے پر امن اور خوشحال زمانے میں جب بادشاہ خو د شعر و شاعری کا دلدادہ ہو اور اس کے دربار میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیر اموجو د ہو تو ظاہر ہے کہ دوسرے میدانوں کی طرح علم و ادب کے میدان میں بھی زبر دست ترقی ہوئی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں ہمیں ملا وجہی ، غواصی را در این نشاطی و غیر و جیسے بلند پایہ شاعروں اور اد یوں کے نام نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس دور کے مشہور شعراء اوراد یا کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔
قلی قطب شاہ۔
قلی قطب شاہ کو کنڈ و کے پانچویں فرمارواں تھے ۔ محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے۔ بقول ڈاکٹر محی الدین قادری ، وہ اردوزبان وادب کا محسن اعظم ہے۔ انتظام سلطنت کے بعد اسے اگر کسی چیز سے و پاپی تھی تو اردو سخن ہی تھا۔ اس نے ابتدائی ایام میں اردو کی سر پرستی کی اور اسے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ بنا کر ایک نئی توانائی بخشی۔
قلی قطب شاہ نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن اس کی غزلیں خاص طور سے قابل توجہ ہیں۔ ان غزلوں میں ہندی اثرات ہونے کی وجہ سے اظہار محبت عورت کی طرف سے ہے ۔ اس کی غزل میں سوز و گد از بھی ہے اور جذبات کی بے ساختی بھی ملتی ہے ۔ اس نے غزل کے موضوعات میں اضافہ کیا اور اسے محض غم جاناں تک محدود نہیں رکھا۔
تیری الفت کا میں سر مست ہور متوال ہوں پیارے
نہیں ہو تا بجد اس کے کسی مئے کا اثر مجھ کو
محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں بڑا تنوع اور ر نگار گلی ہے۔ اس نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ اس کے دیوان میں نیچرل شاعری کا بڑ اؤ خیر وموجود ہے۔ اس کے باں ہلال عید، ترکاری ، پچھل، پھول، سالگرو، رسم مبلوه، دیگر روسومات شادی بیاہ ، شب معراج، عید رمضان ، عید الضنی، وغیرہ پر بھی تظہیں ملتی ہیں۔ جو کہ اس وقت کے دکن کی مکمل تصویر کشی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
ملا وجہی
محمد قلی قطب کے ہم عصر شعر اء میں ملاو ہی سب سے بڑا شاعر ہے۔ وہی کا سب سے بڑا کارنامہ اردو پہلی نثری کتاب "سب رس" ہے ۔ جو کہ فتاحی نیشاپوری کی کہانی حسن و دل " کار دوترجمہ ہے۔ "سب رس" کئی حوالوں سے بہت اہم کتاب ہے۔ اس کی عبارت مسمع ومقلی ہے ۔ لیکن اردو انشائیہ نگاری کے ابتدائی خطور ہمیں ملاو جہی کے ہاں ہمیں اس کتاب میں نظر آتے ہیں۔
وجہی نے 1400 ء میں ایک مثنوی " قلب مشتری " کے نام سے لکھی اس میں اس نے بھاگ متی کے ساتھ باد شاہ کے عشق کی داستان بیان کی ہے۔ مگر صاف صاف نام لکھنے کی بجائے بھاگ متی کی جگہ مشتری لکھا اور اسے بنگال کی شہزادی تایا ہے ۔ قطب مشتری و بہی کے شاعرانہ کمال کا اعلی نمونہ ہے اس میں زبان کی بر جستگی اور صفائی کے علاوہ مرقع نگاری کئے عدو نمونے بھی ملتے ہیں ۔ جن سے اس دور کی مجلسی اور تہذیبی زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔
سلطان محمد علی شاہ۔
سلطان محمد " قلی قلب شاہ" کا بھیجا اور داماد تھاجو اس کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ وہ خو د شاعر تھالیکن نفمہ اور عشقیہ شاعری سے پر ہیز کر تا تھا۔ اس نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ اسے علم و فضل اور تاریخ سے گہر انگائو تھا۔ اس کی شاعری پر بھی تصوف ، مذہب اور فلسفہ اثر نمایاں ہے۔ دو ظل اللہ تخلص کر تا تھا۔ مگر اس کا دیوان نایاب ہے۔
ملک الشعراء غواصی
غواصی کو گو لنڈ کا ملک شعراء سمجھا جا تا ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ کے عہد میں و ہی کو غواضی کے شاعرانہ کمال نے حسد میں مبتلار کھا۔ اور اسے در بار سے دور رکھنے کی ہر ممکن کو شش کی ۔ جس کے وجہ سے قلی قطب شاہ کے دربار میں خواضی کو اپنے کمال کی داد نہ مل سکی۔ مگر عبد اللہ قطب شاہ کے تخت نشین ہوتے ہیں خواضی نے اپنی مثنوی" سیف الملوک و بد بیع الجمال “ میں معمولی رو بدل کر کے اسے سلطان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ چنانچہ غواصی کو ملک الشعراء بنادیا گیا۔ غواصی کی دوسری مثنوی " الوطی نامہ “ پہلی مثنوی سے زیادہ منیم اور دلچسپ ہے ۔ یہ دراصل فارسی کے "طوطی نامہ “ کا ترجمہ ہے۔ " طوطی نامہ " کی زبان اس کی پہلی مثنوی سے زیادہ سلیس اور و کش ہے مگر شاعرانہ خصوصیات اور نزاکتیں پہلی مثنوی میں زیادہ ہیں۔ اسکے علاوہ غواصی کی ایک اور مثنوی "مینا ستوئی کچھ عرصہ قبل دریافت ہوئی ہے ۔ مثنوی کے علاوہ اس کے کلام میں غزل ، قصید و اور مرتبہ بھی ملتے ہیں۔
سلطان عبد اللہ قطب شاہ۔
عبد اللہ قطب شاہ گولکنڈ کا ساتواں حکمران تھا۔ اس کی عادات و خصائل اپنے نانا قطب شاہ سے بہت ملتی جلتی تھیں۔ چنانچہ اس کے عہد میں وہ تمام رنگ رایاں اور تقاریب مچھر سے بار یہو گئیں جو سلطان محمد کے عہد میں منسوخ تھیں۔ ساطان کو شعر و سخن سے بہت زیادہ لگا کو تھا۔ اس نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہے ۔ اس نے موسیقی کے متعلق بھی ایک کتاب لکھی۔ سلطان نے حافل کی غزلوں کے ترجے بھی کیے ۔ عبد اللہ قطب شاہ جمالیاتی اعتبار سے محمد قلی قطب شاہ کی روایت کے شاعر ہیں۔ اس کے ہاں متعلقات حسن کا ذکر کثرت سے ہے۔ اس کے اشعار میں مغل دور کے جمالیاتی طرز احساس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
ابن نشاطی۔
شعرائے گو کنڈو میں ابن نشاطی ایک عظیم فنکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی زندگی کے حالات معلوم نہیں۔ ” پھول بن “ ان کی لافانی مثنوی ہے۔ جس سے اس کے پارے میں پھر کاہ اشارے ملتے ہیں ۔ نشالی نہ صرف شاعر تھابلکہ انشاء پر داز جی. و در باری شاعر کی جہاۓ ایک عوامی ذکار تھا جو در بار سے زیادہ عوام میں مقبول تھا۔ زبان کی سادگی اور سلاست کے اعتبار سے مثنوی" پھول بن "شاعری کا اچھا نمونہ کہی جاسکتی ہے۔
طبی۔
ڈاکٹر زور کے نزدیک طبعی ، ابن نشاطلی کے بعد حید ر آباد کا سب سے بڑا استاد کفن گزرا ہے۔ این نشامی کی طرح وہ بھی آزاد منش تھا۔ اس نے بھی در بار سے کوئی تعلق نہ ، ۔ رکھا۔ طبعی نے ۷۰۱ اء میں مثنوی " پہر و گل اندام “ لکھی ۔ جود کئی ار دو کے بہترین کار ناموں میں سے ہے ۔ زبان کی سلاست اور مشکلی قابل داد ہے۔ اس کی یہ مثنوی نہ صرف زبان کے اعتارسے بلکہ ادبی اعتبار سے ان کے اعلی نمونوں میں شمار ہوتی ہے۔ طبعی نے شاعرانہ تشبیہات و استعارات میں مقامی اور فارسی دونوں روایتوں کو ملا دیا مجموعی طور سے دیکھا جاۓ تو اس عہد میں اردو زبان و ادب سب کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوں اس کا سبب یہ تھا کہ جہاں قطب شاہی حکمران اہل علم و ہنر کی سر پرستی کرتے تھے وہاں ان میں سے اکثر و بیشتر شعر و شاعری کے رسیا تھے ۔ ان کے دور میں قصید ور مثنوی، غزل کے مید ان میں کافی کام ہوا۔ زبان کی ابتدائی صورت ہو نے کے باوجو د بہترین تخلیقات منظر عام پر آئیں۔
ولی دکنی۔
ولی دکنی کے خاندان ، مقام پید اکش اور تاریخ وفات سبھی کے متعلق وثوق سے باھ نہیں کہا جاسکتا۔ بعض محققین کے خیال میں ائد کر میں پیدا ہوۓ۔ لیکن میر تقی میر کے لکات الشعراء کے حوالے سے جاۓ پیدائش اورنگ آباد اور سنہ ولادت 1668 ء تسلیم کیا جا تا ہے۔ نام بھی نزاگی ہے لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی رولی محمد کو اصل نام تسلیم ولی دکنی کو باشندہ جنوبی ہند ہی نہیں بلکہ اردو کے عظیم شعراء میں شمار کیا جا سکتا ہے بلکہ عابد علی عابد نے او ٹی ایس ایلیٹ کے معیار کے مطابق صرف ولی دکنی کو اردو شاعری میں کلاسیک “ کی مثال تسلیم کیا ہے۔ کئی شعر او نے غزل کے ڈھانچے کو تو اپنا یالیکن اس کے مزاج سے پوری طرح شیر و شکر نہ ہو سکے ۔ چنانچہ ان کی غزل پر ہندی شاعری کے اثرات نمایاں ہیں۔ لیکن ولی نے لسانی اجتہاد سے کام لیتے ہوۓ فارسی شاعری کا بغور مطالعہ کیا۔ غزل کے مزاج کو سمجھا اور فارسی غزل سے استفادہ کرتے ہوۓ اردو غزل کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ ولی نے نہ صرف مضامین کو وسعت دی بلکہ لسانی اعتبار سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ولی کی شاعری میں زندگی سے بھر پور لب ولہجہ ملتا ہے جو ہمیں بزند گی کی زرخیزی کا احساس دلا تا ہے۔ اس کا تصور حسن نشاطیہ لے سے بھر پور ہے ۔ لیکن یہ نشاطیہ اندازکبھی حد سے متجاوز نہیں ہو تا۔ ولی کی شاعری میں فطرت کا تمام حسن سمٹ کر آ گیا ہے۔
نہ جانوں من گلشن میں
خوش آتا نہیں مجھ کو
بغیر از ماورو ہر گز تماشاما بتابی کا
علم مجھ دیدہ و دل میں گزر کر
ہو اہے باغ ہے آپ رواں ہے
ولی دکنی کا تصور عشق پاکیزہ ہے عشق کو وہ بادی ور ہر تصور کرتے ہیں۔ اور محبوب کے حسن و جمال کی تعریف و توصیف کرتے وقت سراپا نگاری میں وٹپی لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صوفیانہ تصورات بھی ان کی شاعری میں ملتے ہیں ۔
حسن تھا عالم تجرید میں سب سوں آزاد
طالب مشق ہو اصورت انسان میں آ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شالی ہند میں اردو شاعری کا با قاعدہ آغاز ولی کے دیوان کی بدولت ہوا۔ ان کا اثر معاصرین اور مقلد ین پر موقوف نہیں بلکہ ان کے اثرات آج تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔