[Pdf]ادب اور سماج
تحریر:۔سید شمس الرحمٰن بنوری
میتھیو آرنلڈ، ادب کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں.
"ادب تنقید حیات ہے"۔تنقید ایک ادبی اصطلاح ہے، جس کا مطلب کسی چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا جائزہ پیش کرنا ہوتا ہے۔مثبت پہلوؤں کی حوصلہ افزائی کرنا، اور منفی پہلوؤں پر چوٹ کرنا، تنقید کا اولین اور بنیادی مقصد ہوتا ہے۔اس تجزیاتی عمل سے تطہیر اور تعمیر پیدا ہو جاتی ہے۔تو گویا، تنقید ایک مثبت اور صحت مند اصلاحی عمل کا نام ہے۔
۔میتھیو آرنلڈ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ادب کو اور زندگی اور حوالے سے،اور زندگی کو تنقید کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی۔انہوں نے ادب کو تنقید حیات بنا کر ادب اور زندگی کا رشتہ عملاً استوار کیا۔
ادب، زندگی کو سمجھنے کا نام ہے۔انسانی سماج اور زندگی، ادب کا بنیادی موضوع ہے۔ادب، سماج کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔اس میں سماج اور زندگی کی روح گردش کرتا ہے۔سماج کا ہر موضوع اور رنگ ادب پیش کرتا ہے۔کوئی بھی پہلو اس سے اوجھل نہیں ہے۔ہر زاویے سے بحث کرتا ہے۔
ادب کا زندگی اور سماج کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے۔دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نثر ہو یا نظم، شعر ہو کہ جملہ، اس کا تعلق زندگی اور سماج کے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔فرانسیسی دانشور گوئٹے کے بقول ادب کا اصل سر چشمہ "حیات" ہے۔وہ اس تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے بڑی خوبصورت مثال سمجھاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ
ادب پھول ہے،تو زندگی اس کی مہکار
ادب جسم ہے،تو زندگی اس کی روح
ادب دل ہے،تو زندگی اس کی دھڑکن
جس دن یہ دھڑکن بند ہو جائے گی، تو آپ تصور کیجئے کہ ادب کی موت واقع ہوگئی۔
اس مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں کس حد تک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم اور ضروری ہیں۔ایک، دوسرے کے بغیر نامکمل اور ادھورا ہے۔ادب کی بقا کے لیے زندگی اور سماج کا وجود لازمی ہے۔اس کی بنیاد میں حیات شامل ہے۔
سماج کے مختلف مضامین ادب کا موضوع ہوتا ہے۔معاشرے کے گونا گوں مسائل، اقدار، کردار، رویے،جذبات، احساسات ، خیالات اور افکار ادب زیر بحث لاتا ہے۔اس کا تجزیہ کرتا ہے۔اس پر تنقید کرتا ہے۔اس کی تطہیر کرتا ہےاور اس کو تہذیب کا جامہ پہنا دیتا ہے۔
اپنے گردوپیش کو زیر بحث لانا، اور اس کی حقیقی تصویر پیش کرنا ادب کا مقصود ہوتا ہے۔سماج کی حقیقی تصویر اور عکاسی ادب ہی میں کوئی دیکھ سکتا ہے۔ہمارے جذبات، احساسات اور خیالات کا ترجمان، ادب ہوتا ہے۔معاشرے کے مختلف رنگ اور پہلوؤں کا احاطہ ادب ہی کرتا ہے۔انسانی رویوں اور کرداروں کے بارے میں جاننا ہو، تہذیب و تمدن، تاریخ، رسم و رواج، روایات، اور ثقافتی اور معاشرتی اقدار کے بارے میں جاننا ہو، تو اور کچھ نہیں، بس ادب ہی پڑھا جائے۔
ادب، ایک طرف ہمارے تفریحی، نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کی تسکین کرتا ہے، حظ اور لطف فراہم کرتا ہے، تو دوسری طرف قاری کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ معاشرے کی سطح کیا ہے، سماج کس ڈگر اور مقام پر کھڑا ہے، اس کی سمت کیا ہے، ہمارا تہذیبی اور معاشرتی لیول کیا ہے۔ادب ان ساری چیزوں کا پتہ دیتا ہے۔
ادب, سماج کا ہمدرد، حامی اور مصلح ہوتا ہے۔سماج کی طاقتور اور مؤثر آواز ہوتا ہے۔سیاست اور معیشت ہمارے سماج کے دو بڑے اہم پہلو ہیں۔ان شعبوں کے جو بھی منفی اثرات، ظلم وستم، قتل و غارت،ناانصافی، عدم مساوات، حق تلفی، خلاف ورزیوں، غربت، جہالت، بیماری اور بے روزگاری وغیرہ کی صورت میں قوم اور سماج پر پڑتے ہیں،ادب کراہنے لگتا ہے، اس کا احساس زخمی ہو جاتا ہے ہے،اور اس کی روح تڑپ اٹھتی ہے۔نتیجتا ان ناہمواریوں کے خلاف ردعمل اور مزاحمت پیش کرتا ہے، اور سماج کا مقدمہ لڑتا ہے۔
ادب ہر دور کے رجحانات اور رویوں کا مظہر ہوتا ہے۔سماج کا ہر رنگ، ہر پہلو، ہر کردار، ہر سوچ اور نظریہ پیش کرتا ہے۔مختلف سماجی اور معاشرتی کیفیات زیر بحث لاتا ہے۔اور آئینے کی طرح ان چیزوں کو ریفلیکٹ کرتا ہے۔ہر عہد کی تہذیب اور معاشرت اس عہد کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ادب وہ اثرات محفوظ کرتا ہے، اور منعکس کرتا ہے۔
نثر اور نظم ادب ہی ہے۔چاہے نثر ہو یا نظم ہو، اس کا کینوس اور دائرہ سماج اور زندگی سے باہر نہیں ہے۔شاعر اور نثر نگار ہمارے معاشرے کے دو بڑے حساس، باشعور، جاندار اور بہت ہی اہم کردار ہوتے ہیں۔ان کا مشاہدہ گہرا ہوتا ہے، نظر وسیع ہوتی ہے اور حس بہت تیز ہوتا ہے۔ان کے پاس ایک نقطہ نظر اور نظریہ حیات ہوتا ہے۔دونوں کا انداز اور میدان مختلف ہوتا ہے لیکن اپنے اپنے میدان میں اپنا فن اور فکر پہنچا کر رہتے ہیں۔
شاعری کسی زبان کی پہچان ہوتی ہے۔دنیا کے ہر ادب میں سب سے پہلے شاعری وجود میں آئی ہے۔دنیا کی ہر زبان، خواہ کتنی ہی چھوٹی، محدود یا علاقائی سطح کی کیوں نہ ہو، شاعری سے خالی نہیں رہتی۔شاعر، معاشرے کا حصہ اور کردار ہوتا ہے۔وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہ معاشرتی اور سماجی ہوتا ہے۔اس کے پاؤں زمین پر ہوتے ہیں۔ وہ ان محسوس کردہ اور دیکھی ہوئی چیزوں کو شعر کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ان حقائق، ناہمواریوں اور مسائل کو اجا گر کرتے ہیں، جس کا تماشہ کیا ہوتا ہے۔ اور ان پر اپنا جذباتی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔یہ طبقہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے، لٹا رہا ہوں میں
شاعر طبقہ مختلف زاویوں سے ترقی پسند سوچ رکھتا ہے۔کچھ شعراء، ایشوز پر بہت جارحانہ انداز اور سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں،وہ انقلابی سوچ اور ذہن رکھتے ہیں، اس لیے تو سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل پر سخت ردعمل بھی اختیار کرتے ہیں۔کچھ معتدل ہوتے ہیں، توازن اور اعتدال کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔ بحر صورت اس طبقے کے پاس ایک وژن اور نقطہ نظر ہوتا ہے، جسے شعر کی زبان میں عام کرتے ہیں،اور معاشرتی اصلاح، مسائل کے حل اور ارتقائی عمل میں اپنا بھر پور حصہ لیتے ہیں۔
شاعر کے علاوہ، ایک ادیب کے پاس وسیع میدان اور کھلی آزادی ہوتی ہے۔ وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں بہت آزاد ہوتا ہے۔وہ اپنا نظریہ حیات اور وژن بیان کرنے کے لیے مختلف صورتیں اختیار کرتے ہیں۔کبھی وہ کہانی لکھتا ہے، کبھی ڈراما،جس میں کرداروں کے مکالموں کے ذریعے سے قصہ کہانی بیان کی جاتی ہے۔کبھی بہت سی کہانیوں کو جوڑ کر ناول تخلیق کرتے ہیں، تو کبھی وہ طنزیہ اور مزاحیہ تحریریں لکھ کر لطیف پیرائے میں سبق آموز باتیں سمجھاتے ہیں۔
ادیب ہلکے پھلکے لیکن دلچسپ اور مؤثر انداز میں اچھی اقدار کو پروان چڑھاتا ہے۔شعر ہو یا نثر، افسانہ ہو کہ ناول، ڈراما ہو کہ کہانی، ان سب کا مقصد انسانی جذبات کو بیدار کرنا، اور عمل پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔
ادیبوں کے بلند اور اعلیٰ خیالات ہمارے ذہنوں میں وسعت اور کشادگی پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے عادات و اخلاق کو ترقی دیتے ہیں اور اس میں اصلاح کا رنگ پیدا کر دیتے ہیں۔ پیغام، بیداری اور تلقین عمل سے ایک نئی اور ترو تازہ زندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ادب، سماجی اظہار کا نام ہے۔یہ علم زندگی سے عبارت ہے۔ اس کا سماج کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ اور تعلق ہے۔یہ زندگی کا معمار اور رہبر ہے۔دونوں ایک ساتھ محو سفر ہیں۔سماجی تبدیلیاں ادب کا رخ متعین کرتیں ہیں۔اس کا اسلوب اور انداز متاثر کرتیں ہیں، اور اس کا لائحہ عمل طے کرتیں ہیں۔دونوں کا یہ دیر پا تعلق اور سفر ایک ساتھ جاری رہے گا۔