اقبال اور عشق رسول PDF
وہ عشق ومستی جس کو اقبال نے انسان کے ارتقاء کے لئے لازمی گردانا ہے ۔ صرف عشق و رسول ﷺ کے توسل اور اس کے صدقے میں فرماتے ہیں کہ یہ سرشاری دسرمستی آفتاب مصطفوی ص کے انوار و تجلیات کی ایک کرن ہے۔ یہ نصیب میں آگئی تو سب کچھل گیا۔ جب تک اس کا سوز انسان میں ہے اس وقت تک اسے حقیقی زندگی میسر ہے۔ یہی قوت ہے جس سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے اور ان کا تحفظ ہوتا ہے اس لئے نصیحت فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی پہلی ایک بحر ذخار کے مانند ہیں جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں تم بھی اس سمندر سے سیرابی حاصل کرو تا کہ تمہیں حیات نو نصیب ہو اور تمہاری وہ بھولی بسری کیفیات جنہیں مادی دنیا نے تم سے چھین لیا ہے ازسرنوتم کومیسر آ جائیں۔
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
چشم افلاک یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شان رفعنا لک ذکرک دیکھے
اسرار خودی‘‘ میں اس مضمون کو اور زیادہ شرح و بسط سے بیان کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ ہماری آبرو آپ ﷺہم ہی کے نام نامی کی بدولت ہے مسلمان کے دل میں حضور ﷺ کی محبت جاگز میں ہوتی ہے ۔ وہ ذات گرامی جس نے خود بوریے پر لیٹ کر زندگی گزاری ۔مگر اپنی امت کو وہ فروغ بخشا کہ تاج کسری ان کے قدموں تلے روندا گیا۔ انہوں نے غار حرا میں تنہائی میں راتیں بسر کیں اور اس طرح ایک قوم ایک آئین ایک حکومت عالم کے سامنے پیش کی ۔ آپ ﷺ کی راتیں شب بیداری میں گزریں تا کہ آپﷺ کی امت تخت خسروی پر متمکن ہو۔ میدان جنگ ہو تو آپ ﷺ کی تلوار لو ہے کے ٹکڑے کر دے مگر خودنماز میں کھڑے ہو کر اپنے معبود کے سامنے اشک ریز رہے۔ آپ ﷺ کی تلوار فتح و نصرت جلو میں لئے رہتی تھی اور ملوکیت کے تم کی بیخ کنی کرتی تھی۔ آپﷺ نے دنیا میں ایک نئے آئین اور نئے نظام کو رواج دیا اور تمام پرانی قوموں کی بساط الٹادی۔ آپﷺ نے بتایا کہ دین کی بجی سے دنیا کا دروازہ کھولو تو راہ راست پاؤ گے۔ چ یہ ہے کہ آپﷺ کی ذات گرامی جبیسا دوسرا کوئی فرزند مادر گیتی کے پیٹ سے پیدانہیں ہوا۔ آپﷺم کی نظر میں پست و بلند سب برابر تھے ۔ آپﷺ اپنے غلام کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر ماحضر تناول فرماتے تھے۔
در دل مسلم مقام مصطفی است
ابروۓ مازنام مصطفی است
طور موجے از غبار خانه اش
کعبہ راہت الحرم کاشانه اش
چنانچہ علامہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی مثال گل صد برگ کی سی ہے کہ ہیں تو اس میں سو چھڑیاں مگر سب ایک اصل سے وابستہ ہیں ۔ اس طرح ہمارے نظام حیات کی روح رسول اکرم لم کی ذات گرامی ہے اور ظاہر ہے کہ آپ ایک واحد ذات ہیں ۔ لہذا اس نظام کے تمام افراد بھی فرد واحد کی طرح میں آپﷺ کی محبت کا بحر ذ خار میرے اندر موجیں مار رہا ہے اور سینکڑوں نغمے میرے آغوش سے ابلے پڑے ہیں۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کہ آ پانی کی محبت کیا چیز ہے؟ ی محبت تو وہ ہے جو بے جان چیزوں کو بھی آپﷺ کے لئے ہے قرار رھتی تھی۔ چنانچہ منبر کی خشک لکڑی آپ کی جدائی میں ایسے زار و قطار اور بلند آواز سے روٹی تھی کہ سننے والے سششدر رہ گئے۔
خیمہ افلاک استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
وہ دانائے سبل ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٓہٓ
تھے ۔ مسلمانوں کا وجود آپ پیوایم ہی کے جلوؤں سے روشن ہے آپﷺ کے قدموں کی خاک ایسی مقدس اور بلند رتبہ ہے کہ اس سے طور جنم لیتے ہیں ۔ میرا جسمانی وجود آ پیم کے پرتوں سے ظہور میں آیا۔ آپ ہم کے نورانی اور مقدس سینے سے میری جسیں روشن و درخشاں رہتی ہیں ۔ ہرلحہ آپﷺ کے فراق میں تڑپنا میرے لئے باعث راحت ہے میری شام فراق صبح محشر سے زیادہ گرم ہے وہ بہار کا بادل ہیں تو میں اس بادل سے شاداب کیا ہوا باغ ہوں میں کہ میرا وجود انگور کی بیل کے مانند ہے۔ ان ہی کے پاران کرم سے سیراب ہوں۔ میں نے ان کی محبت کی کھیتی بوئی اور اپنی آنکھوں کو ان نظاروں سے فیض یاب کیا جو بیان میں نہیں آ سکتے ۔ سبحان اللہ ! خاک یثرب! یہاں کی خاک دونوں عالم سے بہتر اور بڑھ کر ہے ۔ کیا پیارا اور مبارک ہنر ہے وہ شہر جہاں ہمارا محبوب آسودہ خواب ہے۔
چون گل صد برگ مارا بو یکی ست
اوست جان این نظام و اد کی ست
عشق اس وقت تک بے معنی ہے جب تک محبوب کا اتباع نہ کیا جاۓ محبوب کے عادات و شائل افعال و اقوال رفتار و گفتار عادات و الموار اخلاق و خصائل پسند و ناپسند کو اپنے لئے نمونہ بنانا اور تقلید و اتباع کا اہتمام کر نا از بس لازم ہے ۔ محبوب کی ہر ادا ہر انداز ہرشید ہ ہر بات ہر حرکت ہر کام ) اقدام کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کر خودکو اسی طرز پر ڈھالنا مشق صادق کا تقاضا ہے اس لئے عاشق پر ۷۷ ) لازم ہے کہ ہر امر میں محبوب کے نقش قدم پر چلے اتباع کامل کے بغیر عشق کا ہر دعوی بے معنی ہے ۔تو اگر تم عشق کے دعوے دار ہو تو پار کی تقلید میں پختہ ہو جاؤ پھر تمہاری کمنہ میں وہ گرفت آ جائیں گی که وه یز داب شکار بن جائیں گی۔ ذرا تم اپنے دل کے غار حرا میں خلوت شینی اختیار کرو۔ اپنی ہواۓ نفسانی کو ترک کرو اور حق کی جانب ہجرت کرو ۔ پھر تم کوحق کی طرف سے مضبوطی اور استحکام حاصل ہو گا کہ تم معرفت نفس کے مدارج لے کر سکو۔ اس طرح تم ہو اور ہوں کے لات وعزی ۷۸ ) (بت) توڑ ڈالؤ بارگاہ عشق سے دالشکر تم کو حاصل ہو گا کہ تم عشق کے فاران کی چوٹی پر جا بیٹھے ہو کام ) ایسا کرو گے تو اب کعبہ کی نوازشیں تم پر نازل ہوں گی ۔ اور وہ تمہیں انمی باطل فی الارض خلیفتہ ( میں دنیا میں اپنا نائب مقر ر کر نے والا ہوں کے منصب پر فائز فرماۓ گا۔
اقبال اتباع رسول پنی میں اس قدر سرگرم تھے اور تقلید نبوی ﷺ پر ایسے کار بند کہ آپ نے ساری عمر خر بوزہ اس لئے نہیں کھایا کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ نبی کریم ہیر نے یہ پھل کس طرح کھایا ای کامل تقلید کا نام عشق اقبال کے نزدیک میشق وستی جوشق مصطفی کے واسطہ سے نصیب ہوتی ہے ۔ وہ ایک ایسا عظیم اور بے کنارہ بحر ہے جس کی موجوں سے زمین و آسمان کی ساری کائنات معمور ہے۔
بقول ڈاکٹر علامہ طاہر القادری۔ کہ
علامہ اقبال اور عشق رسول ﷺ
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے
صوفیاء کرام کی تعلیم اور سیرت اور ان کا تخیل عشق رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کس قدر جذبہ لبریز ہے کسی بھی اہل علم پر پوشیدہ نہیں ہے۔اقبال کا دل عشقِ مصطفےٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لبریز اسی فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے مزید علامہ اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست
بحر و بردر گوشہ دامانِ اوست
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ ایک اور جگہ پر بارگاہ رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں اور علامہ محمد اقبال نے مذید واضح کرکے پورے ایک تخیل میں کہتے ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم یعنی سمندر ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
اسی مضمون اور شعر کو اردو میں علامہ محمد اقبال اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال نے امّتِ اور شریعت محمدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ذاتِ محمدی سے والہانہ بے پناہ محبت کا پیغام دیا ہے بلکہ اسی عشقِ رسالت اور برابری سے محمدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ملتِ اسلامیہ کی بقا و دوام کا بھید بھی قرار دیا ہے اور یہی وہ بڑا انقلاب انگیز قوت کی پکار تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں بری طرح خائف تھیں۔
زوالِ اسلام کے اس زمانے میں جب اقبال ملتِ اسلامیہ کے عروقِ مردہ میں عشقِ مصطفےٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میںتھے۔ اہل اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں اسی عشقِ رسالت کی شمع بجھا دینے کا اور نیست ونابود کرنے کا دن رات سوچ رہی تھیں۔ انہیںمعلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل رسالت مآب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور شان واپس دلا سکتی ہے اور نہ ہی اصلاح و تجدید کی ہزاروں تحریکیں انھیں اپنی منزل مراد تک پہنچا قریب کر سکتی ہیں۔ یہ محض اور صاف یا ایک خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت سفر ابد ہے۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیںکبھی
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
ہے مگر اس نقش ميں رنگ ثبات دوام
جس کو کيا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حيات ، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سير ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سيل ہے ، سيل کو ليتاہے تھام
عشق کی تقويم ميں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہيں جن کا نہيں کوئی نام
عشق دم جبرئيل ، عشق دل مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پيکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقيہ حرم ، عشق امير جنود
عشق ہے ابن السبيل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حيات
عشق سے نور حيات ، عشق سے نار حيات
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
چناچہ اس دلی مقصد کے تحت وجہ سے اہل مغرب نے یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر بعض متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا۔ جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے تحقیق کر کے لا تعداد کتب شائع کی ہیں۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے کسی نے سوال کیا کہ
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نہ ہی کسی مدرسے میں پڑھے نہ درس نظامی کی تو آپ کو علامہ کیوں کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ واقعی میں نے کوئی عالم فاضل کا کورس نہیں کیا لیکن بات اصل میں کچھ اور ہے فرمانے لگے کہ دنیا کی مجھے یہ عزت دینا اور میرے کلام میں یہ اثر اور میرے قلب و روح کی یہ تازگی یہ سب رسول اللّهﷺ سے والہانہ عشق و محبت کی بدولت ہے اور یہ سب تب ممکن ہوئی جب میں نے رسول اللّه ﷺ پہ درود پاک پڑھنا شروع کیا فرمایا کہ درود پاک کا یہ ورد بڑھتا گیا اور میں اس تعداد کو محفوظ کرتا گیا لاکھ دو لاکھ اور ایسے ہی جوں جوں آگے بڑھتا گیا اللہ میرے دماغ کو میرے دل کو میری روح کو روشن کرتا رہا۔ اور جب میں نے رسول اللّه ﷺ کی ذات گرامی پہ ایک کروڑ درود پاک مکمل کیا تو اللہ رب العزت نے میرا انگ انگ روشن کر دیا، لوگوں کے دلوں میں میری عزت بیٹھ گئی، میرے کلام میں ایسا اثر ہوا کہ اللہ اللہ جب کلام لکھنے بیٹھتا الفاظ بارش کی طرح اترتے اس کے بعد علامہ صاحب درود پاک تواتر سے پڑھتے بس یہی راز تھا جو علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ہم پہ آشکار کر دیا۔