مثنوی سحرالبیان کا خلاصہ
مصنف کا نام میرحسن۔
اسے ہرطرح کائیش حاصل تھا مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا کسی شہر میں کوئی بادشاہ تھا ۔ مایوی اور ناامیدی کی حالت میں اس نے دنیا ترک کرنے کی ٹھانی ۔نجومیوں اور جوتشیوں کو بلا کر مشورہ کیا ،انہوں نے اس کے یہاں اولاد ہونے کی پیشین گوئی کی اور یہ بھی بتلایا کہ بچہ پیدائش کے بارہو میں سال آفات و مشکلات سے دو چار ہو گا ۔ گولڑ کے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں مگر کوئی پری اس پر عاشق ہوگی اور اسے اڑا لے جاۓ گی ۔ نجومیوں کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور بادشاہ کے یہاں ایک خوبصورت بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام بے نظیر رکھا گیا۔ سارے ملک میں خوشیاں منائی گئیں ۔ چوتھے بریس دودھ چھڑا کر ایک نہایت خوش نما باغ میں اس کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا گیا ۔سو قسمت نجومیوں کی کہی ہوئی تاریخ یادنہ رہی ۔ بادشاہ نے اس خیال سے کہ بارہ سال بیت گئے شہرادہ گوگل بلوالیا ادریل کے بالا خانے میں رات گزارنے کا اہتمام کیا۔ حسن اتفاق سے یہ رات بارہو میں برس میں شامل تھی چنانچہ نجومیوں کے کہنے کے مطابق ماہ رخ نامی پری کا ادھر سے گزر ہواشنرادہ کودیکھ کر اس پر عاشق ہوگئی اورا سے اڑا کر پرستان لے گئی محل میں شہزادے کے جانے سے کہرام بیچ گیا۔ ادھر ماه رخ پری نے شہزادے کے آرام و آسائش اور اس کے دل بہلانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن شنرادہ کسی طور اس سے مانوس نہ ہو سکا ۔ آخر کار ماہ رخ پری نے شہزادہ پر ترس کھا کراسے کل کا گھوڑادیا اور سیرو سیاحت کی اجازت دے دی شنرادہ اس کل کے گھوڑے پر سوار ہو کر صبح شام تفریح کے لیے نکل جا یا کرتا۔ ایک دن اتفاق سے شہرادے کا گز رشنرادی بدرمنیر کے محل کے قریب سے ہوا۔ شمارہ اس کے باغ میں اتر پڑ جہاں بدرمنیر بھی موجودتھی ۔ بے نظیر اور بدرمنیر دونوں ایک دوسرے کود کے کر ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے ۔ اور ماہ رخ پری کے غیاب میں آپس میں ملنے جلنے گے ۔ اور جب ماہ رخ کوان ملا قاتوں کی خبر ایک دیو کے ذریعے ہوئی تو وہ بہت برہم ہوئی ۔اس نے مارے غصے کے شہزادہ بے نظیر کو کوہ قاف کے راستے میں پڑنے والے کنواں ( چاہ الم) میں قید کر دیا۔ شہزادے کے حال سے بے خبر بدرمنیر اس کے فراق میں بے چین رہنے گی ،سوتے جاگتے اسے شہزادے کی محبتوں کا خیال رہتا ۔ اس دوران اس نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ شہزادہ ایک کنویں میں قید ہے۔ وہ سخت بے قرار ہوگئی ۔اس نے اپنا خواب اپنی سہیلی دز میرزادی نجم النسا کو سنایا نجم النسا کو بدرمنیر پرتم آیا اور وہ جوگن بن کر بے نظیر کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی ۔ راستے میں جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ سے ملاقات ہوئی ۔ فیروز شاہ نجم النسا کے حسن پر فریفتہ ہو گیا لیکن بھم النسا نے صرف اس شرط کے ساتھ اس سے ملنے کا وعدہ کیا کہ وہ شہرادہ بے نظیر کو ڈھونڈ نکالنے میں اس کی مد دکرے۔ فیروز شاہ نے جنوں کو بلا کر بے نظیر کی کھوج پر معمور کیا۔ اور ایک سکند رنژادیو نے کنوے سے بےنظیرکو نکالا اس طرح فیروز شاہ کی مدد سے ماہ رخ پری کی قید سے بے نظیر آزاد ہو گیا۔ فیروز شاہ اور نجم النسادونوں بے نظیر کو لے کر بدرمنیر کے جیل میں آۓ ۔ بدرمنیرکا باپ مسعود شاہ کو بےنظیر کی شادی کا پیغام دیا۔ بدر منیر اور بے نظیر کی شادی ہوگئی ۔ چوتھی کے دن نجم النسا اور فیروز شاہ کی بھی شادی ہوگئی ۔ شہرادہ بے نظیر بدرمنیرکو لے کراپنے ملک واپس ہوا اور نجم النساء فیروز شاہ کے ہاتھ پرستان چلی گئی۔
کرداروں کی پہچان
مثنوی میں بہت سے کردار ہیں مگر ان میں سے چھ بہت اہم ہیں۔ شہرادہ بے نظیر‘ ملک شاہ کا لڑ کا اور اس قصے کا ہیرو ہے۔
شہرادی بدرمنیر اس قصے کی ہیروئن ہے جوخوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ شعر وادب کا بھی ذوق رکھتی ہے۔
وز یر زادی نجم النسا بدرمنیر کی سیلی ہے جوایک ذہین ہے ۔ نجم النسا کا کر دارتمام کرداروں میں زیادہ فعال ، جاندار اور ماہ رخ پری جوشہزادہ بے نظیر کے عشق میں گرفتار رہتی ہے اور وہی شہرادے کو کنویں میں قید کراتی ہے۔ عورت ہے۔ ہرمشکل میں مذابیر پیش کرتی دل کش ہے۔فروز شاہ : جو جنوں کے بادشاہ کا بیٹا ہے وہ اس وقت نجم النسا پر عاشق ہو جا تا ہے جب وہ جوگنا کے بھیس میں بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ مسعودشاہ بدر منیر کا باپ ہے۔