میرتقی میر کی شاعری اور انسان
Mirtaqi Mir's poetry and man,
خدائے سخن، اور غم کا شاعر میر تقی میر کی شاعری کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے عہد کو سمجھا جاۓ جس میں سلطنت مغلیہ کے زوال کی تقریبا یا پوری تاریخ سمٹی ہوئی نظر آتی ہے۔
سن1707 ء میں اورنگزیب کی وفات کے بعد بہادر شاہ اول جو بھائیوں کوقتل کرکے بادشاہ بنا تھا۔ 1712 ء میں اس کی وفات کے بعد افراتفری ، خانہ جنگی اور بددیانتی کے بعد جہاں دارا کی تخت نشینی ،اس کی عیاشیوں کے سبب نااہلوں کا عروج ،ایک سال بعد فرخ سیر کے ہاتھوں اس قتل پر فرخ سیر کی بادشاہت کا زمانہ چور بازاری اور ناکام سازشوں کیلئے مشہور ہے۔ 1719 میں اندھا کرکے اس کا قتل کیا جاتا محمد شاہ کا سلادت میں آنا اس کی رنگ رلیوں کی داستانیں ایسے واقعات ہیں جن کے تاج آخر کار بادشاہ نادر شاہ کے عملے کی شکل میں نمودار ہوئے۔ نادر شاہ کے حملے سے پیدا ہونے والی انسانی زندگی اور بے حرمتی کی داستان تاریخ کا وہ بھیا تک باپ ہے جس کے آئینے میں انسان کا چہرہ درندوں کے مشابہ نظر آنے لگتا ہے۔ سڑکوں پر لاشوں کے انبار بے چراغ گھر ویران سڑکیں اور ایڑی بستیاں انسان کی خود فرضی جریں و ہوں اور نفرت کی و جسم تصاویے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور یہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ کہ نادر شاہ کے عملے کے وقت خدائے سخن میر تقی میر کی عمر 17 ہیں تھی ۔ ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور منہ بولے بھابھی دارفانی سے کوچ کر گئے تھے اور زندگی کے لق ودق سحر میں میر تقی میرتن تنہا کھڑ ے زندگی کے اس بھیا تک کھیل کود کر رہے تھے ۔ 1748 ء میں گھ شاہ کے مرنے کے بعد احمد شاہ کی تخت نشینی .. صدر چنگ اور نواب بہادر کی بابھی جنگ اور دشمنی کے اثرات مرتانوں ، جاٹوں اور روہیلوں کی سرکشی عمادالملک کا فتنہ وفساد جس کے سب زندگی ایک خوفناک ڈرامہ بن پکی تھی ۔ امرا اور روسار کا باہمی اختلاف جس نے مغلیہ سلت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ شیزادوں شنراویوں کی تذلیل ،لوٹ مار کے علاوہ احمد شاہ ابدالی کے نو حملے جن کے سبب درندگی کا کوئی کھیل ایسانہیں بچا تھاجو ن کھیلا گیا ہو۔
تاریخ کے ان واقعات کی طرف بہکے اشارے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان خار کی حالات اور ماحول کو پیش کیا جائے جس نے میر تقی میر کے قلب ونظر میں دکو بھیلےاور برداشت کا ایک ایسا سلسلہ دراز کیا جوان کی شاعری میں ہے اور بے کنار شق کو جنم دینے کا باعث بنا۔ مشق کا یہ تصور جو میر کی شاعری کا وصف خاص ہے انسانی زندگی کے ان خفیہ گوشوں کو تکلف کرنے کی قدرت رکھتا ہے جس کا تجز ہے سائنس کی کرشماتی فتوحات کے بعد جو آج تک ممکن نہیں ہوسکا۔ ولی دکنی کے پڑنے اور بار بارا پڑنے کے بعد انسانی زندگی پر کیا گزری میر اس کے بھی تماشائی نہ تھے علیم کی اس بھٹی میں کچھل کر ان کے دل میں دو گداز پیدا ہوا ہو عشق کی اصل معنویت کے جید کھول سکتا ہے ۔ اس معنویت کی وضاحت آسان نہیں لیکن گوشوں کو مکشف کرنے کی قدرت رکھتا ہے جس کا تجربہ سائنس کی کرشانی فقومات کے باوجود آج تک مکن نہیں ہو گا۔ ولی کے بڑ نے اور بار یارا یڑ نے کے بعد انسانی زندگی پر کیا گذری میر اس کے محض تماشائی نہ تھے بلایٹم کی اس بھٹی میں پچھل کران کے دل میں و گداز پیدا ہوا ہوشق کی اصل معنویت کے بھید کھول سکتا ہے۔ اس معنویت کی وضاحت آسان نہیں۔ لیکن غالب کے اس شعر سے شاید معنویت کا کوئی رنگ کوئی آہنگ ادراک تک رسائی حاصل کر سکے۔
دام پر مون میں ہے حلقہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پر گہر ہونے تک قطرے کا گو ہر ہونا شاید موی زندگی میں شہرت عام بقائے دوام کی منزلوں کا پو دیتا ہو لیکن داخلی زندگی میں نظرے کا گہر ہوتا۔ ذات کی نفی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پر نہ دیکھا کچھ بجز اک شعلہ پر پیچ و تاب
شمع تک ہم نے بھی دیکھا تھا کہ پروا نہ گیا
یا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجاتا
کی منزل اور اس کی آشنائی کا دورنگ ہے جہاں تک رسائی میر کے علاوشاید ہی کہیں اورمل سکے۔ اٹھارویں صدی اور اس عہد کی انسانی زندگی کاعکس سودا، مصحفی،شاہ ظہور الدین حاتم، راسخ عظیم آبادی کے اشعار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک پوری تہذیب کی موت کے وقت انسانی زندگی پر کیا گزرتی ہے وہ کون سے حالات ہیں جو کی ہے انسان کو روح کی گہرائیوں تک بھی کر سکتے ہیں اس عہد کے بیشتر شھراء کے یہاں وہ تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں لیکن خون جگر کا لفلوں میں ڈھلنا کیا ہوتا ہے اس کا احساس میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہی ممکن ہوا۔ ان کی شاعری میں دھ کی معنویت کے ساتھ ساتھ منہ بوں کی تپش بھی پڑھنے والوں کے دلوں تک رسائی حاصل کرتی ہے اس کی وجہ میر تقی میر کی فطری حساسیت ، ان کے حالات زندگی بچپن میں ہی دکھوں کا سامنا اور زندگی کی سحراصلت اصلیت سے آ گاہی ہے۔ میر کی شاعری میں سچائی کا حسن اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کے دکھوں اور مسائل نے ان کی شخصی زندگی میں منفی رویوں کو جنم دینے کی بجائے انسان سے محبت کے اس اجتماعی رویے کو جنم دیا جسے شاعری یا ادب کی اساس قرار دیا جاسکتا ہے اور جس اساس سے موجودہ عہد کے بیشتر سوکال پڑھے لکھے افراد ہی نہیں بلکہ لعض ادیب اور شعراءتک بے خبر سے لگتے ہیں ۔
میر کی شاعری ان کے عہد کے انتشار، زبوں حالی ، اجتماعی انحطاط اور سیاسی زوال کے باوجود انسان کے انفرادی اینار اور کی میتوں کے اس اظہار کی کہانی ہے جوانفرادی رویے میں بھی فار ہی حقائق اور اجتماعی حقیقت کو افکس کرنے پر قادر ہے جومو جود وعید کی ترقی اور حیرت انگیز ایجادات اور تہذہ ہپ کے اواں کے باوجوداب قر یا نا پید ہوتی جارہی ہے میر کے کلام میں غم روزگا راورٹم جاناں کے اظہار میں سیکڑوں دلوں کے غم محرومیاں اور تشنہ ہذہ یوں کی دھڑکنیں مجسم میں ان کی شاعری میں مرتے ہوئے اس عہد کی سکیاں سنائی اتی ہیں جو اس تہذ یب کا نوحہ بن چکا ہے۔
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
میر تقی میر کو شہر دلی سے جومحبت تھی اس کے آئینے میں دلی کے اجڑنے لینے اور ویران ہونے کے دکھ نے ان کی شاعری کو اس عہد کی ایک ایسی تاریخی دستاویز بنادیا ہے جس میں زندگی سمٹ کر اپنے تمام دکھوں اور جذبوں کے ساتھ رواں دواں نظر آتی ہے تاریخ اور ادب کی ہم آہنگی سے جنم لیتی ہے بمثال کسی ادیب اور شاعر کے یہاں اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ پوری صداقتوں کے ساتھ اپنے عہد کے دکھ میں شریک نہ ہو۔ یا اپنے آ گاہی نہ رکھتا ہو۔
میر کے یہاں غم کا جو تصور ہے وہ عمریاں پر محیط ایک تہذیب کے اجڑنے کا ایسا المیہ گیت ہے جس میں جذبات کی صداقت ،ان کی سرستی اور غم سمٹ کر ایک پکی آواز میں ملا ہے۔ دلی کی آہ، ویرانی اور تکلیف او حالات کے باوجود میر تقی میر نے اس کو چھوڑنے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب نہیں ولی چوڑ نا پڑی اول تاریخی حوالوں سے دلی کا اجڑنا لکھنوی کی آبادی کا سبب آنا تھا۔ ایک طرف دلی کی سلگتی شامیں اور انسانی زندگی کے آ نسو تھے دوسری طرف لکھنؤ کی عیش وطرب میں ڈوبی شاعری. ایک طرف دلی سے لی ہوئی دردانگیز صدائیں اور دوسری طرف عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے لمحوں میں اور بادشاہ آصف الدولہ کے بلانے پر میر تقی میر لکھنؤ آگئے تھے لیکن زندگی سے بے خبری کے ساز سے ابھرتے نغموں لے انہیں خوش نہیں رہنے دیا۔ عیش وعشرت سے جنم لینے والا سوقیاندرنگ انش مذاق اور شاعری میں لفظی صنعت گری کا کھیل جس کو معنویت اور جذ بوں پر سبقت حاصل تھی میر کے مزاج کا حصہ ہیں ان کا انھوں نے بڑے دکھ سے اس کا اظہار کیا ہے۔
دلی اجڑنے کے بعد لکھنوی کی رنگ مستیاں، زندگی کو ایک نئی ڈگر، نیارنگ اور نیا ساز دینے کے مترادف تھیں جس میں غموں سے نڈھال اور مفلسی کے مارے ہوئے شعرا کا ڈوب جانا شاید غیر فطری بھی نہ ہوتا لیکن میرتقی میر کے ثبات عشق ، تبید دب عکس اور یقین کامل میں کہیں کوئی اخرش پیدانہیں ہوئی۔ ان کی شاعری میں محبت کی وہی مٹھاس اور نشہ میں ولی دی لے زمدور ہی جو انفرادی ودول یاں سے بلند ہو ے بغیر پید انہیں ہوسکتی۔
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پر میں شور ہے پر نوحہ گری کا
میرتقی میر کی شاعری میں واردات عشق اور آبلہ پا کے سے تجربات ہیں جنھوں نے ذاتی خواہشوں کے اسیر مصنوعی عشق اور اس سے جنم لینے والے مصنوی نم سے ان کی شاعری کومحفوظ رکھا ہے۔ پی مشقیہ واردات نے قلب ونظر کو جس بے قراری سے آشنا کیا اس کے ساتھ چلتے چلتے یہ جانتا کہ معبر وسکون منزل تک رسائی کتی کٹھن ہے اس کا انداز و شعرا نہیں کر سکتے جو انداۓ عشق میں ہی طلب ورسد کے گوشوارے بنالیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کے بیشتر شعراء کے یہاں عشق کی بجاۓ عشق بازی کارتیک جھلے اتا ہے جس کے سبب شاعری میں پائی کا وسن نا پید ہوتا جار ہا ہے جو عہد قدیم کے شعراء متوسطین اور موجودہ دور میں فیس تک پہنچا تھا۔
تو نہیں اورسہی اور نہیں اور سہی کے رویے نے حسن وعشق کے نقوش ہی دھند لے کر اور جو انسان کو کندن بنانے پر قادر تھے۔ اور جو ادب اور شاعری کو ایک ایسا آئینہ بنا سکتے تھے جس میں ہر عہد اپنی’پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ نظر آ سکے یہاں آب و تاب کے لفظ سے دھو کہ کھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ آپ وتاب مکش حسن کی جلوہ گری نہیں ہے بلکہ حقیقت پہی وہ آئینہ ہے جو اجتماعی شعور سے تقلیل پاتا ہے میری شاعری اجتماعی شعور کی کہانی ہے۔ وذاتی تجربات کی بھٹی میں پچھل کر خارجی زندگی کا ہرکس اپنے اندر سمو کے ہوۓ نظرآتی ہے ۔ ان کی شاعری میں مشقیہ رو یا یک شخص کی ذاتی زندگی سے متعارف نہیں کراتا بلکہ پورے عبد کا تعارف بن کر سامنے آیا ہے میر کی شاعری میں ہجر یہ لے محض ایک شخص سے دوری کی نو حہ بن کرنہیں اکبری بلکہ اس میں پوری تہذ یب کے منے اور نیٹر نے کا دکھ جسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ہمہ گیر مشتی قوت کارفرماہے جوڈ اتی حدود سے نکل کر اپنے پورے عہد اور پوری انسانیت کا احاطہ کرتی ہے۔
ہر مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے میں ادیب یا شاعر پوری قوم کا ان سمجھا جا تا ہے جس کی آگاہ دور میں ماضی اور حال کے تجربات سے مستقبل کی تصور بھی کرتی ہے جوقوم کی رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے لیکن وہ ادیب اور شاعر جوانسانی زندگی کے ہمہ گیر مسائل اوراپنے عہد کے اجتمای روسیلے سے بے خبر واتی تنہائی یاتی مفادات کے حوالے سے گیت نگتے ہوں وہ کسی بھی قوم کا ا ہن اورول کیسے ہو سکتے ہیں ۔ جب کسی قوم کے وو ادیب اور شاعر جو خوش قسمتی سے اپنی شناخت رکھتے ہیں کسی دور دراز علاقہ میں نئی نسل کی رہنمائی اور تہذی رویوں کی پرورش پر فائیواسٹار ہوٹلز میں قیام ولعام اور بھاری معاوضوں کو ترجیح دینے لگیں تو اس قوم کو غلامی کی زنجیروں سے کوئی جر بھی شاید انہیں کراسکتا غور کیا جائے تو ذمہ داری کے لاتا سے بادشاہوں اوراد یاء و شعراء میں ایک قد مشترک ہے وہ ہے قوم کی رہنمائی کا فریضہ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے 18 ویں صدی میسویں میں مغلیہ سلت کے زوال کے سائے میں پروان چڑھنے والی خورنی ،افراتری ، خانہ جنگی ، بدامی ملاقی سازشیں ہمرہٹوں ، میانوں اور روہیلوں کی لوٹ مار کا ہر انداز کیسویں صدی تک آتے آتے علامتی انداز میں اریاں اور شاعروں کی بستی میں بھی اتر آیا ہے جس نے مغلیہ سلات کی طرح قومی زندگی کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ میر کی شاعری نے ایک ایسے عہد میں جنم لیا تھا جو ایک طرح سے قومی تہذیبی اور تدفین انتشار کا شکار قمار میر کی شاعری اس عہد کی یہ باتی اور معاشرتی زندگی کے پس منظر میں اس انتشارکو بھی پیش کرتی ہے۔میر نے لکھنو کی اس شاعری کی طرف توجہ نہیں کی جو خارجی حسن قافیہ پیمائی اور صنعت گری کے سائے میں پروان چڑھنے کے سب ایک فیشن کا درجہ پا چکی تھی میرتقی میر وتی پسند اور ناپند کے پیالوں کے اسیر بھی نہیں ہے۔ ان کی تخیلی پرواز فطرت کے نہاں راز تک رسائی رکھتی ہے ۔ جس میں والی صداقت نے تاخیر کی قوت پیدا کی جوان کے ہم عصر یابعد کے شعراء میں شاید ہی کسی کے حصے میں آسکی ہو۔ اس حوالے سے میر نے اپنی شاعری کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کے کتنے کئے جمع دیوان کیا
شاعری ایک ایسا آرٹ ہے جس میں ہڈیوں کی صداقت کے بغیر تا شیر کا حسن اور معنوی جادوگری اپنا کام نہیں دکھائی ۔ میر کے کلام کی تا شیراور سرکاری اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے جس میں مشق کی دادی جان سوز میں اس عہد کے انتشار اضطراب اور بے سمتی کے درمیان حیران و پریشان زندگی ایک آدی کے روپ میں جسم ہے ۔ ان کی شاعری میں دل کی وادی پر خاراوردی کی ورافی تہذ یب در وایت کے قدموں کی چاپ تاریخی عوامل اور گزرتے وقت کے ساتھ ایک عہد کے مٹنے کے نشان بھی ملتے ہیں ۔ میشاعری کی منزل ہے جور یاضتوں کے مرحلہ وار تجریدی سفر کے بغیر مکن نہیں ۔ ان کے والد جو عشق حقیقی کی اس منزل پر فائز تھے جہاں خالق وتلوق کے درمیان حائل تمام پردے بیٹ جاتے ہیں وہ ہمیشہ خالق حقیقی کے سامنے سر کو دور با کرتے ۔ ہوش میں آتے کہا کرتے بناعشق اختیار کر کہ عشق کے بغیر زندگی وبال ہے۔
عشق کی سچائی کے بغیر زندگی کے وبال ہونے کا تصورآج کتنے لوگوں کے پاس ہے عشق کی دو معنویت اوراس کا کات کی تخلیق کا سبب بنی۔ اس تک رسائی کتے او یوں بشعرا اور اہل علم اقرات کے جسے میں آئی اور طواف کی اس قوت کو کس نے سمجھا جس کے نتیجے میں وکشش پید اہوئی جو اس کا نکات کو دائم وقائم رکھے ہوئے ہے یہ دو سوالات ہیں جو میری شاعری کو پڑھ کر ان میں ابھرتے ہیں میر کی شاعری میں وہی نظم وضبط نظر آتا ہے جو کائنات کے ہر سیارے اور ستارے کی گردش میں قائم ہے۔ میر کے عشق میں طواف کی وہی کشش دکھائی دیتی ہے جس نے کائنات کے اتنے بڑے نظام کو قائم رکھا ہوا ہے۔ یہی نظام جب آدی کی اندرونی کائنات میں قائم ہوتا ہے تو بصیرت کے دو در واڑ کے کھلتے کھتے ہیں جن کا تصور عام آدمی نہیں کر سکتا۔ جس کے ذرایہ شق کی بے قراری میں بھی ایک ایسا قرارجنم لیتا ہے جو آ دی کو میصرف منظم رکھتا ہے بلکہ خود دی کے لئے بھی اس کی سلامتی کا ذریعہ بن کر اسے دنیاوی کثافتوں سے محفو ڈ کر لیتا ہے۔ میر نے اسی لئے کہا ہے کہ عشق کی یہ وسیع وعریض معنویت ہمیں اپنے بیشتر کلاسیکی شعراء کے یہاں نظر آتی ہے لیکن میر کے یاں بیتنی سادگی اور تاخیر کی قوت بن کر ابھری اس تک رسائی کسی اور کے حصے میں آئے ذرا مشکل ی بات نظر آتی ہے۔ اگر غور کیا جائے عشق کا اضطراب ہی دوحقیقت ہے جس کے سب ہرڈ رہ کائنات اور کائنات میں موجود تمام سیارے اور ستارے طواف کی جس کیفیت سے گز ر ہے ہیں وہی طواف ان کے نظم وضبط اور بے کا ضامن ہے ۔ انسان کی ذات میں ہی لم وضی وفاداری بشر استواری کے دائی رویوں سے تقلیل پاتا ہے ۔ آن پیندا ای کار کے تحت پیدا ہو نے والاعشق ان بادلوں کی طرح ہوتا ہے تو ہوا کے دوش پر اڑتے تو نظرآتے ہیں لیکن ہر سے نہیں۔