تاریخ
Formation of the Mughal State,
مغل ریاست کی تشکیل
مغلوں کی تاریخ نہ صرف ہندوستانی مورخوں بلکہ یورپی مورخوں اور محققوں کے لیے بھی ایک اہم موضوع ہے کہ جس کو مختلف نقطہائے نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ تو آبادیاتی دور میں ہندوستان کے قوم پرست مورخوں نے مغل تاریخ کا اس لیے انتقاب گیا کیونکہ اس میں قومی یک جہتی ہم آہنگی اور باہمی تعلق ملتا ہے۔ مسلمان اور ہندو دونوں معاشرے ایک خاندان نظام اور سیاسی اداروں کے تحت باہم مل جل کر رہتے رہے تھے۔ اس وجہ سے ململ دور حکومت ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم عمد رہا ہے کہ جس میں مذہبی بنیادوں پر رعایا میں فرق و دوری ختم ہو گئی تھی۔ ہندوستان کی تاریخ کا یہ قومی نقطہ نظر فرقہ واریت کو روکنے اور نو آبادیات کے خلاف جدوجہد کے لیے انتمائی مئوثر تھا۔
مغل تاریخ نوی میں دو سرا اہم موڑ فرقہ واریت کا ہے۔ اس میں خاص طور سے دو شخصیتیں اہم بن کر ابھریں۔ ایک اکبر کی جو نذای رواداری کا پیرو کار تھا اور دو سری شخصیت اورنگ زیب کی کہ جس کی مذہبی پالیسی نے اتحاد میں دراڑیں ڈالیں۔ لہذا فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے مسلمان انتنا پند اکبر کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ جس نے بر صغیر میں مسلمان برادری کو کمرور گیا اور مغل زوال کا باعث ہوا۔ ہندو انتا پند اورگ زیب اور اس کی مذہبی تنگ نظری کو مغل زوال کا سبب بتاتے ہیں۔ 1947ء کے بعد سے ہندوستان میں تاریخ نویسی میں انقلابی تبدیلیاں آئیں لینی تاریخ کو وسیع تناظر میں دیکھا گیا۔ اس میں مغلوں کے انتظامی امور معاشرے کے مختلف طبقوں کا کردار اور خاص طور سے علاقائی تاریخیں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
اسی دوران یورپ میں مشرق کے بارے میں نئے نئے نظریات پیدا ہوئے۔ ان میں مشرقی مطلق العنانیت کا نظریہ ہوا مقبول ہوا۔ جسے وٹ فوگل کی کتاب (Oriental Despotism) نے بڑی تقویت دی۔ اس میں بادشاہ تعمل القیارات کا مالک ہے اور رعایا اس کی تابع اور وفادار ۔ اس مطلق العنانیت کی وجہ سے عوام کا کردار نہیں ابھرتا اور وہ تاریخ میں خاموش تماشائی رہتے ہیں۔ دو سرا نظریہ یہ تھا کہ مشرق میں پو رو کرسی انتہائی بالتیار رہی ہے۔ اس نے ریاست کے ذرائع پر کنٹرول کر کے لوگوں کو اپنے تسلط میں رکھا ہے۔ تیسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ جس طرح یورپ میں بارود کے آنے اور توپ خانہ کے استعمال کے بعد بادشاہ کی طاقت فیوڈل لارڈز کے مقابلہ میں طاقت ور ہوئی کیونکہ آپ بادشاہ کے پاس توپ خانہ کا موثر ہتھیار تھا کہ جس نے فیوڈل لارڈز کے قلعوں کو مسمار کر کے ان کی طاقت ختم کر دی۔ اسی طرح سے مشرق میں بھی اسے ایک اہم اتھیار کے طور پر استعمال کر کے حکمرانوں نے اپی سلات کو وسعت دی اور چھوٹے حکمران کو لست دے کر انہیں اپنا مطیع بنایا۔ ہندوستان میں مغل ریاست کی تکمل تقلیل اکبر کے عہد میں ہوئی اکبر کی شخصیت اور اس کے ارتقام کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہو تا ہے کہ اکبر نے ابتداء میں سلمات کی تکمیل کا کوئی باقاعدہ منصوبہ تیار نہیں کیا تھا بلکہ جیسے جیسے اسے تجربات ہوتے چلے گئے اس طرح سے ریاست کے اداروں کی بنیاد پڑتی چلی گئی۔ اکبر اور اس کے عمد پر اندوستان اور غیر ملکی مورخوں نے بہت لکھا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک کڑی ڈگلس اسٹریو مینڈ (Douglus E. Streusand) کی کتاب "مل سلحت کی تشکیل ہے" (1999 ) Formation of the Mughal Empire اس میں اس نے مطلق العنانیت پیورو کری اور بارود یا توپ خانہ کی تینوں تھیوریوں کے پس منظر میں اکبر کے عہد اور مفل ریاست کی تقلیل کا مطالعہ کیا ہے۔ گیا مغل بادشاہ مطلق العنان تھا؟ اس سوال کا جواب بادشاہت کے تین ماڈلز میں ملتا۔ہے۔ ایرانی مگولی اور ہندوستانی۔ ایرانی نظریہ بادشاہت کہ جس میں بادشاہ کی ذات میں السی نور داخل ہو کر اسے دوسری مخلوق سے بلند و برتر کر دیتا ہے۔ یہ نظریہ عباسی خلفاء کے عمد میں اسلامی سیاست کا ایک حصہ ہو گیا تھا۔ بعد میں دوسرے مسلمان حکمرانوں نے بھی اس کو انقیار کر کے اپنے القیارات کو وسیع کیا۔ دوسری روایت چنگیز خاں کے عروج اور متکولوں کی فتوحات کے بعد اسلامی ریاست میں آئی۔ اس میں بھی منگول ناں اور مکمراں اپنی الی قوت کی وجہ سے ممتاز اور افضل تھا۔ یہی تصور ما وجہ ہندوستانی نظریہ بادشاہت میں تھا۔ تنیوں نظریوں میں بادشاہ کی ذات اس وجہ سے برتر ہو جاتی تھی کیونکہ اسے المی قوت کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہ سے بغاوت کرنا سب سے ہوا جرم تھا اور بافی بادشاہ کا مجرم ہو تا تھا' ریاست یا حکومت کا نہیں اس وجہ سے یہ حق بادشاہ کو تھا کہ وہ بافی کو کیا مزا دے! ہے۔ اگیر نے جب مغل بادشاہت کے نظریہ کو تفکیل دی تو اس نے اس میں ایرانی مگولی اور ہندوستانی تینوں کو آپس میں ملا دیا لیکن ساتھ ہی میں اس نے ان میں تبدیلیاں بھی کیں۔ مثلا منگولوں اور تیموریوں میں سے روایت تھی کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت اس کے لڑکوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ ہندوستان میں ہمایوں نے بھی اس روایت پر عمل کرتے ہوئے سلات کو بھائیوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس تقسیم کی وجہ سے اقتدار اعلی ایک کے بجائے اجتماعی طور پر خاندان میں رہتا تھا۔ اگیر نے اس روایت کو ختم کر کے اقتدار اعلی کو صرف اپنی ذات سے مسلک کر دیا۔ دوئم اگیر نے علماء کے اقتدار کو ختم کرتے ہوئے خود کو مچھند کا درجہ دے دیا جس کے بعد تمام مذہبی نیصلے کرنے کا القیار بھی اسے مل گیا۔ سوم اس نے خود کو مذہب سے بلند کر کے تمام رعایا کا بادشاہ کہا کہ جس کی نظر میں ہندو و مسلمان دونوں برابر کا مقام رکھتے تھے۔ مغل بادشاہ ان کے لیے باپ کا درجہ رکھتا تھا۔ میکس دیر (M. Weber) اسے پدرانہ نظام بادشاہت کہتا ہے اس نظام میں بادشاہ اپنی رعایا اور سلطنت کو اس طرح سے اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے جیسے کہ باپ خاندان کو۔ (حکومت کے اس تصور کو بعد میں اگریزوں نے "مائی باپ" کا نام دے کر رعایا کو کنٹرول میں رکھا)۔ انظام بادشاہت کا یہ ادارہ اکبر کے دور میں آہستہ آہستہ ارتقاء پذیے ہوا۔ باہر اور اماریوں کے عہد تک بادشاہت کا ادارہ کوئی الی نوعیت کا نہ تھا۔ اس وقت تک اس کی حیثیت ایک سردار اور راہنما کی تھی چنتائی امراء بابر کو یا تو اپنے برابر کا بجھتے تھے یا اپنے سے ذرا پیک وہ اپنی خود مختاری اور آزادی کو بر قرار رکھتے تھے۔ مثلا جب ہماریوں جلا وطن ہوا اور راجستھان سے امر کوٹ کی جانب جا رہا تھا تو اسے ایک گھوڑے کی ضرورت ہوئی جس کے لیے اس نے اپنے امیر تروی بیگ سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنا گھوڑا دے دے۔ مگر اس نے گھو ڑا دینے سے صاف انکار کر دیا۔ تیموری خاندان سے امرام کی وفاداری آہستہ آہست ابھری۔ اس میں اکبر کے دور کی فتوحات دربار کی رسومات بادشاہ کی جانب سے دیئے گئے تھے مراعات ان کے عمدوں اور مراتب کا تحفظ شامل تھا جس کی وجہ سے ان کی وفاداری مضبوط ہوتی چلی
دربار کی رسومات کہ جن میں سجدہ تسلیم کورنش اور قدم بوی وغیرہ شامل تھیں ان کی وجہ سے امراء اور درباریوں میں بادشاہ کی عظمت اور وجربہ بیٹھتا گیا۔ بادشاہت کے اس نظریہ کی ابتداء میں چاہتائی امراء نے مخالفت کی کیونکہ اول تو تیوری خاندان سے ان کے روابا خاندانی تھے۔ دوسرے انہوں نے ہندوستان میں حکومت کے حصول میں اس کی مدد کی تھی تیسرے سے خود مختاری کے قائل تھے۔ اس لیے جب اکبر نے مرکزی طاقت کو مضبوط کرنا شروع کیا اور انتظام کے معاملات میں ان سے باز پرس شروع کی۔ تو انہوں نے اس کے خلاف کئی بغاد تیں کیں۔ لیکن اکبر نے ان بغلاوتوں کو کپل دیا۔ لہذا ان کا اثر کم ہو تا چلا گیا اور ان کے مقابلہ میں ایرانیوں کا اثر و رسوخ
پڑھتا چلا گیا۔ اکبر نے اپنے مخالفوں کے ساتھ ہیشہ اس پالیسی پر عمل کیا کہ جنگ سے زیادہ گفت و شنید کے ذریعہ معاملات کو طے کیا جائے۔ اس لیے پہنتائی امراء جنہوں نے بغاوتیں کیں۔ اس نے کوشش کی کہ انہیں معاف کر دیا جائے اور دوبارہ سے انہیں ملازمت میں واپس لایا جائے۔ راجپوتوں کے سلسلہ میں بھی اس نے اس پالیسی کو القیار کیا کہ اگر انہوں نے مزاحمت کی تو اس صورت میں جنگ اور دشمن کی مکمل تای' لیکن ہتھیار ڈالنے اور صلح کی صورت میں انہیں پوری پوری مراعات دی گئیں۔
اکبر نے منصب داری کا ہو نظام شروع کیا اس کے پس منظر میں بھی اپنے نظریہ بادشاہت اور مرکزی طاقت کو پوری طرح سے بانقیار بنایا تھا۔ اس نظام میں کوشش کی گئی کہ جاگیرداری کو ختم کر دیا جاۓ اور منصب دار کو جاگیر کے بدلے میں نقد مخواہ دی جاۓ۔ تاکہ اس صورت میں ان کا رابطہ بادشاہ سے ہو۔ ۔ لیکن اس میں اسے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی اس کے عہد میں دونوں طرح کے منصب دار رہے جاگیر والے بھی اور تنخواہ پانے والے بھی۔ منصب داروں کو پوری تنخواہ اس وقت ملتی تھی کہ جب دو اپنے ذمہ سواروں کی تعداد کو پیش کرتے تھے۔ اکبر نے منصب داروں یا بیورو کری کو جس انداز میں کنٹرول کرنے کی کوشش کی اس میں بھی اسے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، مثلا گھوڑوں کو داغ دینے کی مخالفت منصب داروں کی جانب سے کی گئی جس کی وجہ سے اس پر پوری طرح سے مل نہیں ہو سکا۔ بلکہ اس کے رد عمل میں بغاوتیں بھی ہوئیں۔ مال غنیمت کو اگبر شاہی خزانہ کا حصہ سمجھتا تھا جب کہ امراء کی کوشش ہوتی تھی کہ اس میں سے زیادہ حصہ خود رکھ لیں۔ لیکن منصب دار کسی طاقتور بیورو کریسی کی شکل میں نہ ابھر سکے اور بادشاہ کی وفاداری ہی میں انہیں ترقی کرنے دولت حاصل کرنے اور ملازمت کا تحفظ نظر آیا۔ اکبر نے اپنے منصب داروں پر اعتماد کیا خصوصیت سے مقامی ہند متانی امراء بہ جن میں راجپوت اہم تھے ان کی وجہ سے اسے وفادار فوبی ملتے رہے۔ صفویوں اور منتیوں کے مقابلہ میں مغل منصب داروں کی اہمیت زیادہ تھی۔ انہیں ملازمت کا تحفظ تھا شبہات یا وفاداری بدلنے کی صورت میں انہیں قتل نہیں کیا گیا۔ انہیں آزادی تھی کہ یہ اپنی شناخت قائم رکھیں جیسے راجپوت یا سادات بار مہ نے اپنی خود مختاری کو برقرار رکھا۔ مغل منصب دار اپی شان و شوکت اور جاہ و سال میں چھوٹے چھونے مکمرانوں سے زیادہ تھے۔ اکبر نے جس انداز میں اپی فوبی طلت و قوت کو بڑھایا وہ بھی اس کی زبردست کامیابی تھی۔ اس نے صفویوں اور عثمانیوں کی طرح غلاموں پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ اس کی فوجی طاقت کسانوں کی بھرتی پر تھی۔ ہندوستان میں مسلح کسان فوجیوں کی کمی نہ تھی گاؤں اور دیہاتور، میں فوجی کھیل بڑے مقبول تھے ۔ چھوٹے چھوٹے زمیندار بھی اپی فوج رکھتے تھے۔ ان کی ہے فوج اکثر ان کی برادری اور ذات کے ہوتے تھے۔ مغل منصب داروں پر لازم تھا کہ وہ اپنے مرتبہ کے مطابق فوجی رکھیں اور بادشاہ کو جب بھی ضرورت ہو اس کی مدد کریں۔۔ اکبر کی فوج کا سب سے اہم حصہ گھڑ سواروں کا تھا۔ اس کی فوری فتوحات کا اہم سبب وہ گھڑ سوار ہی تھے۔ چونکہ ہندوستان میں گھوڑوں کی پرورش نہیں ہو سکتی تھی اس لیے یہ وسط ایشیا عرب اور ایران و افغانستان سے آتے تھے ان راستوں پر مغلوں کا کنٹرول تھا اس لیے جنوب اور بنگال کے مکمرانوں کے پاس گھوڑوں کی تعداد کم ہوتی تھی، اس لیے وہ ان کے بجاۓ ہاتھیوں پر بھروسہ کرتے تھے۔ مغل اپنے گھڑ سواروں، تیر اندازوں اور توپ خانہ کی وجہ سے ان پر آسانی سے قابو پا لیتے تھے۔ اس لیے دیکھا جائے تو مثل سلات نہ تو پوری طرح سے مطلق العنان تھی نہ ہی اس کی بیورو کری طاقت ور تھی اور نہ ہی بارود یا توپ خانہ اس کی فتوحات کا سبب تھے۔ اس کے بر نلس مغل حکومت کے استحکام کا سبب اکبر کی صلح کل کی پالیسی امراء کے ساتھ اس کا مشفقانہ سلوک اور رعایا کے ساتھ پہ رانہ برتاؤ تھا۔ اکبر نے مغل ریاست کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ان کی وجہ سے اورنگ زیپ تک اس کے جانشین آرام سے حکومت کرتے رہے۔ اکبر کی پالیسی کی وجہ سے آج کے دور میں اکبر کو ہندوستان کا قومی بادشاہ تسلیم کیا جا تا ہے اس کے سیکولر طرز حکومت کو آج بھی تعریف کے ساتھ یاد کیا جا تا ہے۔
مغل ریاست اور اس کے مختلف پہلوؤں پر ایک اور اہم کتاب مغل ریاست ہے۔ ( 198 ) 1526-1750 The Mughal State) اس کو مظفر عام اور نجے سرا میم نے مل کر ایڈٹ کیا ہے۔ اس میں مخل ریاست کے بارے میں اہم حقیقی مقالات کو جمع کیا ہے کہ جو مشہور مورخوں سنے والا” فوقا" کھے ۔
مغل بادشاہت کے بارے میں رام پرشاد تری پاٹھی اور ہے۔ ایف۔ رچرڈز (J. F. Richards) کے مقالات ہیں۔ ان میں مغل بادشاہت کی روایات کو بیان کرتے ہوۓ کہا گیا ہے کہ تیوریوں میں سلطات کو تقسیم کرنے کی روایت تھی۔ اس کی وجہ سے سلطنت تو ٹوٹ جاتی تھی مگر اس کا مقصد یہ تھا کہ جانشینوں میں خانہ جنگی کو روکا ہا کے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مسلمان حکمران خاندانوں میں اس قسم کا کوئی قانون نہیں تھا کہ صرف بڑا لڑکا جانشین ہو گا اس وجہ سے ہر بادشاہ کے مرنے کے بعد جانشینی کے مسئلہ پر جھگڑا ہو جا تھا۔ مثانیوں نے اس کا یہ حل نکلا تھا جو امیدوار تخت پر قابض ہو جاتا تھا وہ دو سرے تمام امیدواروں کو قتل کر دیتا تھا بعد میں قتل کے بجاۓ انہیں محلوں میں قید کر دیا جاتا تھا جو " قفس" کہلاتے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغلوں میں بھی جانشینی کے بارے میں ہمیشہ منگڑے رہے، خاص طور سے اورنگ زیب اور اس کے بعد تو ان کا انجام ہمیشہ خوں ریزی پر ہی ہو تا تھا۔
دو سری اہم خصوصیت یہ تھی کہ تیوریوں میں نابالغ بھی بادشاہ ہو سکتا تھا۔ تخت و تان کے دعوے کے لیے خاندانی وراثت کا تصور تھا۔ اس لیے باہر کو اس پر حیرانی ہوئی تھی کہ بنگال میں کوئی بھی بادشاہ کو قتل کر کے حکمراں بن سکتا ہے۔ ابتدائی دو بادشاہ باہر اور اماموں کے اپنے امراء کے ساتھ بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ اکبر نے بادشاہت کا نظریہ دے کر اپنے مرتبہ کو اونچا گیا۔ اس نے خود کو سلطنت کی ایک ایسی علامت بنا لیا۔ که اگر بادشاہ پر معیت آۓ تو اس کا مطلب سلطنت کی جای ہے۔ اس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت نہیں بتایا تاکہ وہ ماضی سے تعلق توڑ کر اور سابق حکمرانوں کی روایات اور ماحول سے نکل کر اپنے نظریات و روایات پر سلات کی تقلیل کرے۔ اگر ہ اور فتح پور سیکری اس کے نظریہ بادشاہت کی علامات تھے۔ اس کے علاوہ اس نے اگرہ الا آباد اور لاہور میں قلعے تعمیر کراۓ جو تین طرف سے سلطنت کی حفاظت کرتے تھے۔ جب اس نے فتح پور سیکری کو چھوڑا ہے۔ (وہ مرزا حکیم کی بغاوت ختم کرنے کے لیے لگا تھا) تو اس کے بعد سے اس کا زیادہ وقت کیمپ میں گذرا۔ اب وہی اگر وا لاہور اس کے مراکز نہیں رہے تھے، بلکہ کیپ اس کا مرکز تھا جو کہ ہر وقت متحرک رہتا تھا اور ہر جگہ ماحول میں جاتا رہتا تھا۔ یہ ایک متحرک بادشاہ کی علامت تھا کہ جو ایک جگہ ٹھرا ہوا نہیں بلکہ پوری سلطنت میں گھوم رہا ہے۔
لورمن لی- سیگلر (Normen P. Ziegler) نے مغلوں اور راجپوتوں پر مقال لکھتے ہوئے نشان دہی کی ہے کہ راجیوت اس لیے مغل بادشاہ کے وفادار ہو گئے کیونکہ ان کی متھ میں وہ " راجہ کے بیٹے" تھے۔ مگر راجہ غائب تھا۔ مغل بادشاہ نے اس خلاء کو پورا کر دیا۔ انہوں نے مغلوں کے ساتھ اتحاد کر کے اپنے آپ کو مکمل کیا اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کی۔ ان کی مغلوں سے وفاداری ان کی اپنی روایات پر تھی۔ مغلوں نے اس کے بدلہ میں انہیں مناصب عمدے اور مراعات دیں اور ان کی بنیادی روایات و رسوم و رواج کو چیلنج نہیں کیا۔ جب مغلوں نے ان کی روایات میں دخل دیا تو یہ ان سے علیحدہ ہو گئے۔
مغلوں کے عہد میں زمینداری کے نظام پر نورالحسن کا مقالہ ہے۔ ان کا کہتا ہے کہ زمیندار کی اصطلاح ہندوستان میں مغلوں کے زمانہ میں مشہور ہوئی اس سے پہلے ان مہکے لیے رئیس راجہ اور ٹھاکر کی اصطلاعات تھیں۔ جو ان سے نچلے درجہ پر تھے دو پور عری خوط اور مقدم کہلاتے تھے۔ وہ زمینداروں کو تین درجوں میں تقسیم کرتے موروثی زمیندار 2- اینٹ زمیندار 3. اور پرائمری زمیندار۔ موروثی زمینداروں میں علاقائی محکمران ہوتے تھے۔ اکبر نے ایک طرف تو ان کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنے علاقوں میں حکمران رہنے دیا دو سری طرف انہیں منصب دار بنا کر انہیں اپنے علاقہ سے زیادہ جاگیر دے کر ریاست کا ملازم بنا لیا۔ یہ لوگ مغل منصب دار کی حیثیت سے اپنی فوج میں اپنے علاقہ کے لوگوں کو بھرتی کرتے تھے جو کہ ان کے وفادار ہوتے تھے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ لگا کہ یہ "وطن- زمیندار“ مغلوں کے وفادار ہو گئے۔ اور اپنی فوج کے ساتھ مغل سلیت کی فتوحات میں حصہ لیا۔ مغل بادشاہ جانشینی کے سلسلہ میں اپنی مرضی کے امیدوار کو علاقہ کا حکمران بناتے تھے۔ اس لیے جانشینی میں وراثت کو نہیں بلکہ مغل بادشاہ کی خوشنودی کو دخل ہو تا تھا۔
چونکہ یہ وطن زمیندار راجہ اور ریاستوں کے حکمراں اپنا علاقہ اور اس کی آمدنی بھی رکھتے تھے اور مغل جاگیر بھی اس لیے مالی طور پر یہ دو سرے منصب داروں سے انچی حالت میں تھے۔ اس لیے دوسرے منصب دار سے مطالبہ کرتے تھے کہ ان کی مراعات کو کم کیا جائے۔ جب جاگیرداروں کے مطالبہ پر ان کی مراعات واپس لی گئیں تو انہوں نے بغاوتیں شروع کر دیں۔ لہذا اورنگ زیب کے بعد سے مرکز کی کمزوری اور فی کنٹرول کی کمی کے باعث بغاوتیں زیادہ ہو گئیں۔ راجپوتوں کی بغاوتوں کو ایس پی منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
درمیانی اور ایکینٹ زمیندار وہ ہوتے تھے جو کسانوں سے لگان وصول کر کے اپنا حصہ رکھ کر پاتی خزانہ میں جمع کرا دیتے تھے۔ یہ چودھری، دیش کمی' ڈیسائی دیش پانڈے مقدم قانون گو اور اجارہ دار کہلاتے تھے۔ یہ موروثی ہوتے تھے۔ جب بھی مرکز کمزور ہو تا تھا ہر ریاست کو حصہ اوا نہیں کرتے تھے اور بغاوت کر بیٹھتے تھے۔ حکومت کو ان کی بغلوتوں کو کچلنے کے لیے فوتی کارروائیاں کرنی پڑتی تھیں۔ عام طور سے مغل منصب دار ای جا گیر لینا نہیں چاہتے تھے کہ جہاں زمیندار سرکش ہوں یا تو وہ وہاں سے اپنی جاگیر کا تبادلہ کرا لیتے تھے یا نقد تخولہ کا مطالبہ کرتے تھے۔ پرائمری زمیندار“ موروثی ہوتے تھے کاشت پر حق رکھتے تھے۔ انہیں زمین فروخت کرنے کا بھی حق تھا یہ لگان جمع کر کے خزانہ میں داخل کرا دیتے تھے۔ حیش چندر نے بھی جاگیرداری کے بحران کے نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسان آسانی سے لگان دینے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے ہر علاقہ میں فوجدار ہو تا تھا جو نہ صرف امن و امان کو بر قرار رکھتا تھا۔ بلا۔ لگان کی وصولیالی میں بھی مدد دیتا تھا۔ اگر جاگیردار اور اس کے ایجنٹ کسانوں پر سختی کرتے تھے یا معمول سے زیادہ وصول کرتے تھے تو یہ "خاصہ " جاگیر بادشاہ کی ہوتی تھی جس کی آمدنی سے اس کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ "پاۓ باقی" وہ زمین ہوتی تھی کہ جسے ریزرو میں رکھا جاتا تھا اور نے منصب داروں کو اس میں سے جاگیریں دی جاتی تھیں۔ ”زور طلب" وہ زمین ہوتی تھی کہ جہاں سے زمینداروں کی بغاوتوں کی وجہ سے لگان یا ریونیو مشکل سے جمع ہو تا تھا۔ "اوسط " اوسط آمدنی کی زمین۔ "سیر حاصل" زرخیز زمین جہاں پیداوار طوپ ہوتی تھی۔ اورنگ زیب کے آتے آتے میر حاصل زمین پاہنے والے منصب داروں کی تعداد بڑھ گئی تھی جو رشوت اور سفارش کے ذرایہ جاگیریں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چھوٹے منصب داروں کو زور طلب یا نجر اور ویران زمینیں ملتی تھیں۔ اگر کوئی منصب وار اپنے حصہ کے سوار پیش نہیں کرتا تھا تو اس کی زمین پائے باقی میں شامل کر لی جاتی مہ کے سوار پیش تھی۔ جاگیرداری کا بحران اس وقت پڑھا جب اورنگ زیب نے وکن کی فتح کے بعد وہاں کے منصب داروں کو جاگیریں دیں جس کی وجہ سے پاۓ باقی کی زمینیں ختم ہو گئیں۔ اورنگ زیب کے بانشینوں نے امراء کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خاصہ میں سے باگیریں دینا شروع کر دیں جس کی وجہ سے بادشاہ کی آمدان گفتے گفتے ختم ہو گئی یہاں تک کہ بادشاہ بعد میں مرہٹوں اور انگریزوں کا وظیفہ خوار ہو گیا۔ مغل سلات کی کٹوری کے زمانہ میں زمینداروں نے بغاوتیں کر کے حکومت کو ریونیو دینا بند کر دیا۔ اور جو جہاں تھا وہ وہاں قابض ہو گیا۔ اس نے جاگیرداروں کو بھی موروٹی بنا دیا۔ جاگیرداری کے اس بحران نے مغل سلطنت کو مالی و اقتصادی بحران میں مبتلا کردیا۔ میں برابر بغاوتیں بھی ہوتی رہیں۔ بغلوت اس وقت ہوتی تھی که جب معاشرہ میں کوئی فرد یا جماعت موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہو تا تھا یا اس نظام میں اپنے لیے کوئی جگہ نہیں پاتا تھا یا وہ ناانصافی اور استحصال کا شکار ہو تا تھا تو اس صورت میں کہ جب اسے اور کوئی راستہ نہیں پتا تھا تو وہ بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ بغاوت ہیشہ انتما اور آخری مرحلہ کے بعد ہوتی تھی۔ یہ بغاوتیں دو قسم کی ہوتی تھیں حکمرانوں امراء اور شاہی خاندان کے افراد کی اور عوامی سطح کی کہ جس میں عام لوگ شریک ہوتے تھے۔ چونکہ بغاوت بادشاہ اور حکمران خاندان و حکومت کے خلاف ہوتی تھی، اس لیے یہ سخت نجرم کجھے جاتے تھے اور کڑی سے کڑی سزا اذیت و سختی کے بعد موت کی ہوتی تھی۔ اگرچہ مغل بادشاہوں کا رویہ مکمرانوں، شہرادوں اور امراء کی بغاوتوں کی جانب مفاہمانہ ہو تا تھا اگر یہ معافی مانگ لیتے تھے، انہیں سزا نہیں دی جاتی تھی مگر عام لوگوں کی بغاوت کو سختی سے کچل دیا جاتا تھا۔ بلکہ امیر یا شنزادہ کو تو معاف کر دیا جاتا تھا مگر اس کے ساتھیوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان بغاوتوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب بھی بغاوت کا اعلان ہو تا تھا تو فوبی کسان فورا" اس میں شامل ہو جاتے تھے۔ باٹی راہنماؤں کو بھی فوجیوں کی کی محسوس نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ ہندوستان کی اکثر آبادی بیروزگاری اور مالی مشکلات کا شکار رہتی تھی۔ بغاوت میں شریک ہو کر انہیں امید ہوتی تھی کہ وہ لوٹ مار کے ذریعہ دولت حاصل کر لیں گے۔ اس لیے ان کے مقاصد میں دو چیزیں شامل ہوتی تھیں : اگر وہ بافی کی ملازمت کرتے تھے تو دولت ان کا مقصد ہو ۔ ہوتا تھا۔ اگر وہ خود بغاوت کرتے تھے تو اپنے لیے انصاف حاصل کرنے کی خواہش ہوتی تھی۔ ڈبلیو۔ ی۔ اسمته (W. C. Smith) نے مغل دور حکومت میں بغاوتوں کا ذکر کیا ہے مخصوصیت سے وہ بغاوتیں کہ جو نچلے طبقے کے لوگوں نے کیں۔ اس کی دلیل ہے کہ کسانوں کی بغاوت کی اہم وجہ 1/3 ریونیو کی وصولی تھی کہ جو ان سے سختی کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ کسان جب بھی بغاوت کرتے تھے تو اکثر ان کے نرے نذہبی ہوتے تھے۔ کیونکہ ان نعروں کی وجہ سے ان میں مذہبی جوش پیدا ہوتا تھا جو انہیں قربانی کے لیے تیار کرتا تھا۔ مل مورخوں اور جہاں گیر نے توڑک میں ان بغاوتوں کا ذکر بڑی حقارت سے کیا ہے۔ ان بغاوتوں کے نتیجہ میں کسان اوٹ مار کر کے حکومت کی جائداد جا کر اور عمدیداروں کا قتل کر کے اپنے خصہ کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی بغاوتیں اس لیے ناکام ہوتی تھیں کیونلہ حکومت کے مقابلہ میں ان کے پاس ڈرائع میں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا مقصد کوئی خاص نظام قائم کرنا نہیں ہو تا تھا۔ جب انھیں سختی سے کچل دیا۔ جاتا تھا تو پھر ان کے پاس اطاعت و فرماں برداری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہتا تھا۔ اگر طبقہ اعلی کی طرف سے بناوتیں ہوتی تھیں تو مغل حکومت کو حیرانی نہیں ہوتی تھی غریب کسانوں کی بغاوتیں انہیں حیران کرتی تھیں۔ مثلا مستعد خاں ایک مغل مورخ ان بغاوتوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ مفلس و غریب اور حقیر باغیوں کی جماعت کہ جس میں سنار‘ پڑھئی، بھگی، موچی، اور اسی طرح کے دوسرے کم تر لوگ شامل ہیں وہ شیخی خوری اور ہر طرح کے فریب میں آ کر اپنی شان و شوکت کے بے بنیاد خواب دیکھنے لگے اور خود کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرا دیا۔ میوات کے شہریوں کی ایک جماعت جو کہ بریادی کے خواہاں ہو کر اچانک چوٹیوں اور ٹڈی دل کی طرح امنڈ آئے اور بالاخر خود کو تباہ کر دیا گیا اگرچہ کچھ بند میں مذہبی رنگ لے لیتی تھیں، جیسے سنتوں کی بغاوت یا فرقہ روشنیه کی بغاوت مگر ان کے بیس منظر میں ساتی و معاشی مفلوات اور حکومت کی استحصال کرنے والی پالیسی ہوتی تھی۔ مغل حکومت نے بیشہ ان بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا۔ شین داس گپتا نے الھارویں صدی میں ہندوستان کی سیاست اور تجارت کو اپنا موضوع بنا کر ان عوامل کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جن کی وجہ سے ہندوستانی معاشرو متاثر ہوا۔ ان کی دلیل کے مطابق ہندوستان دو حصوں میں بٹا ہوا تھا : ایک سالی اور دو سرا اند رونی۔ ساملی علاقوں والا بندوستان تجارت کا مرکز تھا کہ جس میں اہم بندر گاہیں ابتداء میں سوات، بنگلی اور مسالی پٹم تھیں۔ جب کہ اندرونی ہندوستان ساحلی علاقوں کو تجارتی مال فراہم کرتا تھا۔ سورت کے تاجر اپی غیر کی تجارت کی وجہ سے مشہور تھے۔ 1701 ء میں ان کے بارے میں انگلش کونسل نے لکھا تھا کہ سورت کے تاجروں نے اس قدر تعداد میں تجارتی جہاز تیار کر لیے ہیں کہ اگر یورپی تاجروں نے اس طرف توجہ ہیں دی تو انہیں تجارت میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہندوستان کے تاجروں کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا کہ جب اورنگ زیب کی وفات کے بعد جانشینی کے سلسلہ میں جنگیں شروع ہو گئیں۔ راستے غیر محفوظ ہو گئے اور سیاسی طور پر غیر یقینی کی کیفیت پھیل گئی۔ اس کا اظہار ایک ڈچ تاجر نے اپنے خط میں کیا ہے کہ جو اس نے ڈچ ڈائریکٹرز کو لکھا تھا۔ اس میں وہ لکھتا ہے کہ اورنگ زیب کے مرنے کے بعد آگرہ کے راستے غیر محفوظ ہو گئے ہیں اگر چہ احمد آباد میں حالات پرامن ہیں۔ سیاسی بحران کی وجہ سے گجرات کے ساحلی شہر شمالی ہندوستان کے تجارتی ماں سے محروم ہو گئے، خصوصیت سے کپڑا اور نیل۔ مزید مرہٹوں کے ظہور نے گجرات میں لوٹ مار اور پتی مچائی۔ جب اس بحران کی وجہ سے ۔ ے مغل منصب واروں کی امنی کم ہوئی تو انہوں نے تاجروں پر ٹیکس لگانا شروع کر دیے جس کی وجہ سے تجارت بری طرح سے متاثر ہوئی۔ اس نے مسلمان تاجروں اور خصوصیت سے تجارتی جہازوں کے مالکان کو مالی طور پر تباہ کر دیا۔ سورت، بکلی اور مسالی پالم کی بندرگاہیں آہستہ آہستہ اہمیت کھوتی چلی گئیں اور ان کی جگہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بندرگائیں بسی مدراس اور کلکتہ تاجروں کے لیے محفوظ ہو گئیں جہاں ہندوستانی تاجر اور کمپنی نے مل کر تجارت میں منافع کمایا۔ تجارتی مفادات کی وجہ سے ہندوستانی تاجروں نے کمپنی سے تعاون کیا اور ان کا ساتھ دیا۔ اس وجہ سے کمپنی کو مقامی طور پر مای ملتے گئے اور ان کی مدد سے اس نے تجارت کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر ہندوستان میں اپنے قدم مضبوط کر دیے۔