امجد اسلام امجد،شاعر،ڈراما نگار،شاعری
اردو شاعر، ڈراما نویس،ڈراما نگار امجد اسلام امجد چار اگست سن1944ء کو سیالکوٹ میں ولادت ہوئی جب کہ ابتدائی تعلیمی سفر لاہور سے کیا۔ امجد اسلام امجد صاحب نے جب ایک انٹرویو دیا تو اس میں اپنے بچپن کے واقعات کو یاد کرتے ہوۓ بتایا تھا کہ میرا خاندان دست کاردوں کا ایک خاندان تھا، جس میں ادب پڑھنا تو دور کی بات ہے، آغاز سے پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا:’’سوائے اس کے کہ یہ جسے آپ پڑھنے کی عادت کہتے ہیں، مجھے تعلیم اپنے والد صاحب سے ملی، جو ابنِ صفی کے کتاب جاسوسی ناول پڑا اور پھر مصنف تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے پڑے تھے اور شفیق الرحمان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے تو یہ کتابیں مَیں نے بچپن ہی سے بڑے شوق و ذوق سے پڑھ لی تھیں، جس سے پڑھنے کا شوق تو مجھے ہو گیا تھا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے گھر سے کوئی مزید مدد نہ مل پائی۔‘‘
ادبی شوق و ذوق کو نکھارنے میں بنیادی کردار اُن کے اساتذہ نے انجام دیا:’’شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی ایسی اضافی چیز ہے، جو مجھے باقی طالب علموں سے شاید ممتاز کرتی ہے، چناں چہ مجھے نویں جماعت میں سکول کے رسالے کا ایڈیٹر بنا دیا گیا تھا اور بہت اس میں مقبول رہا۔
جناب امجد اسلام امجد نے گریجوایشن گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کی تھی اور امجد اسلام امجد مذید بتاتے ہیں کہ ’جب میں کالج کے ابتدائی زمانے میں آیا تو اُس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ مَیں بہتر سے بہتر لکھ سکتا ہوں، چاہے شاعری یو یا نثر کی زبان میں ہو۔
جناب امجد اسلام امجد صاحب وہ بنیادی طور پر کرکٹر بننا چاہتے تھے:’’مَیں اچھی کرکٹ کھیلتا تھا اور مَیں نے یونی ورسٹی کی سطح تک کرکٹ کھیلی ہے، لیکن بعد میں ادب کا رجحان ایک ذیلی رَو تھی اور کرکٹ کے بعد یہ میری دوسری چوائس اور چاہت بن گئی تھی۔‘‘جو میں نے پورا کرکے دکھایا ہے۔
امجد اسلام امجد کے مطابق جب کرکٹ کے کھیل میں اُنھیں یکے بعد دیگرے کچھ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تعلیمی سفر طرف کالج میں گریجوایشن میں اردو میں زیادہ نمبر حاصل کر لیے تو سرکار کی طرف سے اسکالر شپ مل گئی تو کرکٹ کی بجائے اُن کی مکمل توجہ شوق و ذوق شعر و ادب کی طرف ہوگئی اور امجد اسلام امجد مذید لکھتے ہیں کہ’’ہمارے ایک محلّے دار تھے، آقا بیدار بخت، جو بچپن سے میری بہت حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے جو میرا انتہائی قریب دوستوں میں سے بھی تھے وہ کہا کرتے تھے کہ امجد تم لکھا کرو، پڑھا کرو، جب میں کوئی شعر غزل لکھا کرتا تھا تو پہلے اس دوست کو دکھاتا تھا۔ پھر چلتے چلتے جب مَیں یونی ورسٹی میں آیا تو مَیں نے سنجیدگی سے شعر و ادب پر توجہ دینا شروع کر دی اور پرانے زمانے کے کلاسیکی شاعروں کو خاص توجہ دی اور خاص کر رومانی شعراء کو پڑھا، جن پر بعد میں مَیں نے ’نئے پرانے‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔‘‘ جو اس زمانے میں بہت مقبول رہی۔
امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ کلاسیکی شعراء کو پڑھنے کے بعد ہی آپ موجودہ دور کی شاعری کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اُنھوں نے اردو ادب کا بہترین شاعر خدائے سخن میر تقی میر کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو چیز بعد ازاں کارل مارکس نے طویل مفید تحقیق کی گئی اور اس کے بعد پیش کی، وہ اُن کی پیدائش سے بھی پہلے میر اپنے اس شعر میں بیان کر گئے تھے کہ،
امیر زادوں سے دلّی کے مَت مِلا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں، اُنہی کی دولت سے
پنجاب یونی ورسٹی سے اردو میں امتیازی نمبروں سے ماسٹرز کرنے کے بعد انگوں نے ایک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کی شروعات کی اور لاہور ہی کے ایم اے او کالج سے کیا۔ 1975ء سے لے کر 1979ء تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ وہ ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت زیادہ سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔
ریڈیو پاکستان سے مزید منسلک رہا اور اس کے بعد بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی (پاکستان ٹیلی وژن) کے لیے کئی سیریز لکھیں، جن میں ’وارث‘ کے ساتھ ساتھ ’دہلیز‘، ’سمندر‘، ’رات‘، ’وقت‘ اور ’اپنے لوگ‘ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں صحیح معنوں میں شہرت 1979ء میں دکھائی جانے والی اور اس کے علاوہ پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراما جو بہت مقبول رہی ہے وہ ہے، سیریل’وارث‘ سے ملی کیوں کہ ’جہاں شاعری کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ہوا کرتی ہے، وہاں اُس زمانے میں بھی، جب ملک میں پی ٹی وی کی صورت میں محض ایک چینل ہوا کرتا تھا، بہت سے ناظرین نے پسند کی اور تقریباً اس کی تعداد سات آٹھ کروڑ ہوا کرتی تھی، اُنھوں نے شعر و ادب کی بہت سے جہات میں کام کیا ہے اور کئی تراجم کیے اور مذید امجد اسلام امجد صاحب نے بہت سے مفید کتابیں کو ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ وہ ’چشمِ تماشا‘ کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ ایک کالم بھی لکھتے رہے ہیں اور نظم و نثر لکھی ہے اور اس میں اُن کی چالیس سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جب کہ امجد اسلام امجد صاحب نے اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں پاکستان میں’صدارتی تمغہء حاصل کیا اور حسن کارکردگی‘میں بہترین مثال رہا ہے اور اس کے علاوہ’ستارہء امتیاز‘ سمیت متعدد اعزازات بھی حاصل کر چکے ہیں۔
کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا۔
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا