اقبال کا فلسفۂ خودی[pdf]
اردو ادب میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ ایک مایہ ناز کردار کے ساتھ ساتھ شہرہ آفاق شخصیت بھی ہے۔ دنیا کے عظیم شعرا ء کی طر ح ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی کلام بھی دل کے تاروں کو چھوکر ہمیں مسحور کن جذبات سے ہم کنار کر دیتاہے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو ہم شاعر سے زیادہ مفکر جانتے ہیں ، اس کے علاوہ دانشور، عظیم فلسفی اور حکیم الامت کے روپ میں سدا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ آپ کی شخصیت میں بنیادی طور پر شاعر ہونے کے باوجود ،جذبات سے بھری شاعری سے زیادہ ، شیوہ ٔ پیغمبری یعنی رہنمائی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ترجیحات میں سدا شامل ہے ۔ اس کا اعتراف ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے کچھ اشعار میں موجود ہے : مثلا علامہ فرماتے ہیں کہ
میری نوائے پریشان! کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں, محرمِ رازِ درونِ مے خانہ
نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن، بہانہ ایست
سوئے قطار، می کنم ناقۂ بے زمام را
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ہاں سازِ سخن ایک جذبات سے بھری بہانا ہے یعنی اس اونٹنی کو راہِ راست پر لانے کا جو کردار ہے اعلیٰ ہے یہ کردار اور یہ فکر یعنی اونٹنی اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے قوم کے لیے اونٹنی کا استعارہ بھی کیا خوب دیا ہے ۔ اقبال کی شاعری ،ایک آفاقی پیغام ہے اس کی ترسیل کے نیک مطلب سے وجود میں آ ئی تھی اسی مناسبت سے عشق کے اس درد مندانہ کردار کا پیام اور طرزِ کلام اوروں سے سرے سے مختلف تھا ۔
شاعری میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے سماجی اورمذہبی سروکار اور فن کارانہ کردار کے سبب انھیں فلسفی شاعر کہا جاتا ہے حالاں کہ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں اور کئی باتوں سےکے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔فلسفی شاعر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکرکائنات اور اس کے مظاہر کے متعلق اساسی مسائل کا منطقی تفکر اور تنقیدی کردار اور ادراک کرتا رہتا ہے ۔مثلا انسانی زندگی ، موت ، عالمِ فطرت ،کائنات کی تخلیق ،اور معاشرت کے بنیادی اقدار اس کے مطالعے کا ہمیشہ موضوع رہا ہیں ۔ اس کے بر عکس شاعر ی کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور شاعری میں جذبات و احساسات کا فنکارانہ اظہار ملتا ہے ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے متعلق ادیب آلِ احمد سرور لکھتے ہیں : کہ
’’یہ کہنا بجا ہے کہ اقبال بڑا فلسفی شاعر ہے تو یہ بات ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی بہت بڑی توہین ہے ۔ اصل میں فلسفی حقیقت کی خشک اور بے جان تفسیر، تشریح کرتا ہے ۔اقبال کائنات کا ادراک صرف اپنے ذہن سے کرنا چاہتا ہے وہ مادّہ اور روح کی بحث میں سدا الجھا رہتا ہے ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو ہم ان معنوں میں فلسفی شاعر نہیں کہہ سکتے ان کا فلسفہ وہ ہے جو خونِ جگر سے لکھا جائے ۔وہ مستیِ احوال یا مستیِ گفتار پر سدا جان دیتے ہیں ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا اپنا فلسفہ حیات ہے ۔‘‘۱ ؎
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فلسفیانہ افکار اور تفکر میں شاعری خودی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اقبال کے انسانِ کامل کا نظریہ اس کا متمعِ نظر ہے ۔عرفان ِ ذات کے مراحل اور اس کی عظمت و اہمیت اور وقار اس میں نمایاں کردار ہے ۔شاعری خودی کے اس نظریہ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روحانیت کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں ۔ فلسفہ ٔ خودی کا نکتہ عروج ہے اور اس میں دراصل انسانِ کامل ہے ۔شاعری خودی کی تعلیم اور خودی کو بلند کر نے کی ترغیب بھی انسان کے مادی وجود میں ہے اور حیوانی سطح سے بلند ہوکر اپنی تکمیل کی راہ پر گامزن ہونا ضروری ہے ۔ انسان کایہ بلند مقام وہ ہے جسے مسجودِ ملائک یعنی فرشتہ ،خلیفۃ الارض اور احسن ِ تقویم سے تعبیر کیا گیا کیا جاتا ہے : مثلا علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ
عروجِ آ دمِ خاکی، سے انجم سہمے، جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل، نہ بن جائے
شاعری خودی کی بلندی، کا یہ و ہ مقام ہے جہاں بندہ اپنے خالق کی مر ضیات کے مطابق ہوتا ہے اور اپنے آپ کو سدا ڈھال لیتا ہے اور وہ اس انعام سے سرفراز ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مرضی کے مطابق حالات کو اس کے لئے ساز گار بنا دے۔
مثلا علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ
خودی کو کر بلند اتنا، کہ ہر تقدیرسے پہلے
خدا بندے، سے خود پوچھے بتا تیری رضا، کیا ہے
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اگرچہ انسانِ کامل کے ساتھ شاعری خودی کا تصور مغربی فلسفیوں اور مفکرین کے ہاں مختلف صورتوں میں موجود پایا گیا ہے ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ان کے افکار سے بے حد متاثر ہے،اور ممکن ہے کہ بعض معاملات میں علامہ محمد اقبال نے ان سے کافی استفادہ بھی کیا ہومگرحقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ آپ کی شاعری فلسفۂ خودی قرآن حکیم ، حیاتِ نبوی ؑ اور سیرتِ صحابہؓ سے ،ماخوذ ہیں۔ ادیب سیدنظیر نیازی کے بیان کے مطابق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ان کے استفسار پر اس کا منبع قرآن کی یہ آ یت بتائی تھی۔
ولا تکونواکالّذین نسو االلّٰہ فاَنسٰھم اَنفسَھم۔اولٰئِک ھم الفاسقون۔لا یستوی اصحٰب النارِ و اصحٰبُ الجنّہ ۔اصحٰب الجنّہ ھم الفائزون ۔
ترجمہ : اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جو اللہ کو بھول گئے ہیں تو اللہ نے ان کو خود ان کی جانوں سے غافل کر دیا ہے۔اور یہی لوگ نافرمان ہیں۔ دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں ہو سکتے ۔جنت والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔(سورہ حشر ۔آیت نمبر ۱۹ )
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے شاعری فلسفۂ خودی کی تشریح کے سلسلے میں ادیب پروفیسر ظہیر علی لکھتے ہیں: کہ
’’اقبال کے فلسفہ ٔ خودی کا مربوط اور جامع،مکمل اظہار ا ن کی انگریزی تصنیف سے ہوتا ہے، Reconstruction of Religious Thoughts in Islam ۔اس کا اردو ترجمہ’ اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل ِ جدید ‘ کیا جاتا ہے ۔ یہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے سات خطبات کا بہترین مجموعہ ہے ۔اسی طرح ان کی دوسری تصنیف ہے جو شہرہ آفاق رہا ہے، Development of Metaphysics in Persia ہے ۔ ان دونوں تصانیف میں انھوں نے ایک جامع اور مکمل تصور ِ حیات پیش کیا ہے جسے عرف ِ عام میں فلسفۂ خودی کہا جاتاہے ۔‘
اردو شاعری اور فارسی شاعری کی کئی نظموں میں ان کے فلسفے کے متعلق ایسے نکات کا اظہار ہواہے جو ان کی نثری تصانیف میں زیرِ بحث نہیں آ ئے ہیں ۔‘‘ ۲؎
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مشرق و مغرب کے فلسفے کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور مغربی مطالعہ سے بہت کچھ سیکھا تھا۔اقبال مغربی مفکرین میں وہ روسو ،ہیگل ،نطشے اور برگساں سے زیادہ متاثر تھے۔اقبال نے ان کے بعض خیالات سے انحراف بھی کیا تھا۔ اس زمانے میں مغرب میں سائنسی ایجادات اور ان کے نظریات کی تبدیلی نے زندگی کے متعلق تصورات کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔مغرب ان ایجادات ،انکشافات سے اور مادی ترقی پر بہت نازاں تھا ،قیام ِ یورپ کے زمانے میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو مشرقی افکار اور روحانی قدروں کی عروج اور عظمت کا احساس ہوا ۔اس زمانے میں جاری مشرقی مفکرین کے منفی نظریات نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو متنفر،منتشر کیا۔جن کے وجہ سے مشرقی اقوام نے نہ صرف اپنا سیاسی اقتدار،قدر کو اور زیادہ معاشی طاقت کھوئی بلکہ ذہنی طور پر بہت مفلوج ہوکر بے عملی اور پستی کا شکار ہوئیں تھیں ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا فلسفہ ٔ خودی ان ہی منفی افکار ہے اور فلسفے کے خلاف ایک گہرا ردعمل بھی تھا۔ مغرب کے ان نظریات میں انسانی ارتقاء اور عروج کا نظریہ بھی شامل تھا جس نے انسان کو حیوانی اور جاہلیت کی سطح پر لا کھڑا کیا تھا ۔علامہ محمد اقبال کا مرد ِ مومن اور انسان ِ کامل کا تصور روحانی قدروں کا حامل اور الوہی صفات سے متصف اور مزین ہے ۔مغربی مفکرین اس قسم کے مکمل انسان کے تصورات مذہب سے کافی نا آشنا ہیں مگر علامہ اسے ایک خدا پرست شخصیت کے روپ میں گہرے مشاہدے سے دیکھتے ہیں جس کی خودی اپنے رب کے کے سوا کسی کے آ گے سر نگوں ہونے کے لئے کبھی تیار نہیں ہے۔ مثلا علامہ محمد اقبال ایک جگہ کہتے ہیں کہ
خودی، کا سرِ نہاں، لا الہٰ الّا للہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہٰ الّا للہ
فساں لفظ سے مراد وہ تیز پتھر ہے جو ہتھیار کو تیز کر نے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔گویا خدا سے وفاداری مومن کی زیور ہے اور خودی کو اس طرح مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے کہ و ہ کسی اور طاقت کی کبھی غلامی قبول نہیں کرتا مثلا علامہ محمد اقبال کہتےہیں کہ
یہ موجِ خودی، کیا ہے تلوار، ہے
خودی کیا ہے تلوار، کی دھار ہے
مومن کی صفات یہ ہے کہ وہ دنیا کی کسی طاقت کے سامنے جھکنے کو گوارا یعنی پسند نہیں کرتا خواہ وہ سخت سامراجی طاقتیں ہوں ، حکومتِ وقت ہو یا دنیاوی حرص و ہوس ہو،
خودی نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض
اردو زبان اور ادب میں خودی کا لفظ غرور تکبر اور انا کے معنوں میں استعمال ہوا کرتا تھا جو اس کے لفظی معنی ہیں ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی انگریزی کتب یعنی تصانیف میں اس کے لیے Ego کا لفظ استعمال کیاہے ۔ علامہ اقبال کا اردو زبان کو ایک اہم تخفہ یہ ہے کہ اس نے جہاں متعدد نئی شعری تراکیب سے اس کا دامن بھر دیا ہے کئی الفاظ اور تراکیب کو نئی معنویت سے بہترین لفظوں سے آ شنا کیا۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میں علامہ محمد اقبال نے لکھا ہے :
’’یہ لفظ ( خودی) اس نظم میں بہ معنی غرور استعما ل نہیں کیا گیا ۔جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے ۔اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا تعین ِ ذات ہے ۔‘‘
خودی کے بارے میں ادیب ڈاکٹر سید عبداللہ اس فلسفے کی وضاحت کر تے ہوئے کہتے ہیں :کہ
’’ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے ۔خودی عشق کے مترادف ہے ۔اور خودی ذوقِ تسخیر کا نام ہے ۔خودی سے مراد اپنے آپ کو یعنی خود آ گاہی ہے ۔خودی ایمان کے مترادف ہے اور خودی یقین کی گہرائی بھی ہے ۔‘‘ ۳؎
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فلسفۂ خودی کے ذریعے اپنی شاعری کے توسط سے قوم کو خواب غفلت سے نکالنے اور ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ میں عمل کی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے ۔ خودی اقبال کے نزدیک غیرت مندی ہے ،جذبہ خود داری ہے اور اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا دوسرا نام بھی ہے ۔اور اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا نام بھی ہے ۔اور خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ہے : مثلا علامہ محمد اقبال ایک جگہ لکھتے ہیں کہ،
خودی کیا ہے، رازِ درونِ، حیات
خودی کیا ہے، بیداریِ، کائنات
خودی کا نشیمن، تیرے دل میں، ہے
فلک جس طرح آ نکھ، کے تل میں ہے
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اس بات پر بے حد زور دیا ہے کہ انسان کی تمام تر کامیابیوں اور ارتقائی سفر کا دارومدار خودی پر ہے ۔ یہی توحید کی اصل خقیقت اور خوبصورتی ہے اور اسی سے دنیا کی حسن اور طلسم ِ رنگ و بو کو توڑا جا سکتا ہے ۔ اپنی خودی کے حفاظت کر کے ہی انسان عظیم اور قابلِ قدر بنتا ہے ۔ اقبال کے نزدیک انسانیت کا جوہر بھی خودی ہے :
گراں بہا تو حفظِ خودی، سے ہے ورنہ
گہر، میں آ بِ گہر، کے سوا کچھ اور نہیں
خودی کی وجہ فقر میں بھی شہنشاہی ہے اور اس میں اس کی شان پیدا ہوجاتی ہے :
خودی ہو زندہ، تو فقر بھی شہنشاہی
یہیں ہے، سنجر و طغرل، سے کم شکوہِ، فقیر
کسی بھی نظریے اور مشاہدات کی تشکیل میں شعوری اور لا شعوری طور پر کئی عوامل کار فرما ہوا کرتے ہیں ۔شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی نظموں میں فلسفہ خودی کے مختلف پہلو نمایاں خصوصیت کی حامل ہیں ۔اس لیے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال خودی کو کہیں وہ ملتِ اسلامیہ کے پسِ منظر میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں ، اور کہیں مشرق و مغرب کے طرزِ حیات کے پیمانے سے دیکھتے بھی ہیں اور کہیں ملکوں کی آزادی اور قوموں کی غلامی کے نکتہ نظر سے نمایاں گہرے مطالعے اور مشاہدے سے دیکھتے ہیں ۔نظریہ فلسفہ ٔ خودی کے تشکیل کے دور میں ہندوستان میں انگریزوں کی معاشرت پورے ملک کی مختلف قوموں پر اثر انداز ہونے لگی تھی ۔اور وطن کے دانش وروں اور اہلِ بصیرت کے لیے یہ قومی زوال کی نشانی ہے اور ایک تشویش ناک مسئلہ بھی تھا۔مغرب کی اندھی تقلید سے مشرقی قدروں کا زوال بھی ہے اور قومی شناخت کے ختم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اسی لیے اس وجہ سے پیرویِ مغرب کے خلاف سخت احتجاج بھی شروع ہو گیا ۔شاعر اکبرؔ الٰہ آ بادی کی شاعری کا موضوع بھی یہی تھا ۔شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اس فکر کو اپنی شاعری میں اپنے انداز سے برتا ہے کہ وطنی سطح پر اقبال کی خودی جذبۂ حریت سے عبارت اور مزین ہے ۔ اپنی نظم ،’محراب ِ گل افغان کے افکار‘میں جب وہ کہتے ہیں: کہ
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے! فرزندِ کہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی، پہچان او غافل افغان!
تو یہی فکر نمایاں ہے، جو امّت ِ محمدیہ کو سنوارنے، کے لیے ان کے اشعار میں موجزن ہے:
خودی کی پرورش و ترتیب، پہ ہے موقوف
کہ مشت ِخاک میں! پیدا ہو آ تشِ، ہمہ سوز
کلام ِ اقبال، میں خودی فقر و استغنا کا استعارہ استعمال ہوا ہے ۔اس وجہ سے انسان خودی کے شعور کے ساتھ زندگی گزارے تو وہ استعماری طاقتوں کے آگے نہ سرنگوں ہوتا ہے اور نہ دنیاوی حرص و ہوس کا شکار ہوتا ہے :
میرا طریق! امیری نہیں فقیری ہے
خودی، نہ بیچ غریبی! میں نام پیدا کر
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے خودی کو مختلف سطحوں پر نمایاں بے حد کیا ہے ۔اس کا فقدان کسی قوم کے لیے وجہِ انحطاط بھی ہے ۔ اور خودی کی موت کو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مغرب کے لئے بے نوری اور مشرق کے لیے جزام جیسا گہرا مرض قرار دیتے ہیں :
خودی کی موت، سے مغرب کااندروں بے نور
خودی! کی موت سے مشرق ہے مبتلائے، جزام
خودی کی موت، سے ہندی شکستہ بال و پر
قفس ہوا ہے حلال اور آ شیانہ حرام!
خودی کی موت سے پیرِ حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامہ، احرام
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے اردوکلیات میں متعدد مقامات پر اس موضوع پر اشعار موجود ہیں، اور اپنی فارسی کلام میں اسے مزید شر ح و بسط کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔
حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
۱- اقبال اور ان کا فلسفہ خودی ۔ڈاکٹر آل احمد سرور
۲- اقبال کا فلسفۂ خودی ۔ڈاکٹر پروفیسر ظہیر احمد ۔ص:۳۵
۳- ریڈیائی تحریروں میںفکرِ اقبال کی عکاسی۔ ڈاکٹراحمد شکیل احمد ۔ص:۸۱