ساغر صدیقی
محتصر تعارف
شاعر ساغر صدیقی، سن1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ساغر صدیقی کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔خاندانی حوالے سے ساغر صدیقی کے گھر میں بدترین غربت تھی۔ اس وجہ سے اس زمانے میں اور اس غربت میں سکول یا مدرسے کی تعلیم کا کوئی امکان نہ تھا۔ محلے کے ایک بزرگ حبیب حسن کے یہاں ساغر صدیقی آنے جانے لگے۔ انھوں نے ساغر صدیقی کو بہترین تعلیم دی۔ ساغر صدیقی کا دل انبالہ کی عسرت و تنگدستی سے بہت اچاٹ ہو گیا تھا تو اس وجہ سے ساغر صدیقی تیرہ چودہ برس کی عمر میں امرتسر آ گئے۔ یہاں ساغر صدیقی ملازمت اختیار کی وہ ملازمت لکڑی کی کنگھیاں بنائی جاتی تھی وہاں اس ملازمت میں ساغر صدیقی نے کنگھیاں بنانے کا فن بھی سیکھ لیا۔ اس دور میں شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شروع میں ساغر صدیقی قلمی نام ناصر حجازی لکھا کرتا تھا لیکن جلد ہی بدل کر ساغر صدیقی رکھ لیا۔ ساغر صدیقی نے اپنے اشعار کو جگہ جگہ بے تکلف دوستوں کو سنانے لگے۔ 1944ء اس زمانے میں امرتسر میں ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی بلائے گئے تھے۔ ان میں ایک شاعر کو معلوم ہوا کہ ایک "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انھوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر صدیقی کی آواز میں بلا کا سوز درد تھا، اس آواز میں ترنم کی روانی تھی، جس سے ساغر صدیقی نے اس مشاعرے میں سب کا دل جیت لیا۔ اس مشاعرے کی وجہ سے شاعر۔ ساغر صدیقی کو شہرت کی بلندی تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد ساغر صدیقی اپنی کلام کی وجہ سے لاہور و امرتسر کے مشاعروں بڑے اشتیاق بلائے جاتے تھے۔ شاعری ساغر صدیقی کے لیے وجۂ شہرت تو ضرور رہا اس کے ساتھ ساتھ وسیلۂ روزگار بھی بن گئی اور یوں نوجوان شاعر ساغر صدیقی نے کنگھیوں کا کام چھوڑ دیا۔
تقسیمِ ہند کے بعد ساغر صدیقی ضلع امرتسر سے لاہور چلے گئے۔ ساغر صدیقی نے اپنی کلام میں اصلاح کے لیے لطیف انور گورداسپوری کی طرف رجوع کیا اور ان سے بہت فائدہ ملا۔ 1947ء سے لے کر 1952ء کا زمانہ ساغر صدیقی کے لیے سنہرا خوبصورت دور ثابت ہوا۔ اپنی کلام کی وجہ سے کافی عرصے تک کئی روزناموں میں ماہوار ادبی جریدوں میں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر صدیقی کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ فلمی دنیا نے ساغر صدیقی کی مقبولیت دیکھی تو کئی فلم پروڈیوسروں نے ان کی طرف رجوع کی اور ساغر سے گیت لکھنے کی فرمائش کی اور ان گیت سے معقول معاوضہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ 1952ء کے بعد ساغر صدیقی کی زندگی خراب صحبت کی وجہ سے ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔ مثلا ساغر صدیقی بھنگ شراب پینا، افیون اور چرس وغیرہ استعمال کرنے لگے۔ اسی عالم مدہوشی بیتر سے بہترین لکھتے مشقِ سخن جاری رہتا اور ساغر صدیقی کی وجہ شہرت غزل، نظم، قطعہ اور فلمی گیت ہر صنف سخن میں شاہ کار تخلیق کرتے جاتے۔ اس زمانے کے مدہوشی کے ابتداء میں بھی لوگ انھیں مشاعروں میں لے جاتے جہاں ساغر صدیقی کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی۔
ساغر صدیقی کی ایک مایہ ناز غزل ملاحظہ فرمائیں۔
محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
شاعر ساغر صدیقی کی تصانیف:
"زہر آرزو"
"غم بہار"
"شب آگہی"
"تیشۂ دل"
"لوح جنوں"
"سبز گنبد"
"مقتل گل"
’’کلیات ساغر ‘‘ شامل ہیں۔
وفات:
ساغر صدیقی، جنوری 1974ء میں وہ سخت فالج کے دورے میں مبتلا ہو گئے۔ اس کی وجہ سے ان کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہوا پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنا شروع ہوا، جن کی وجہ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گیا۔ ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے اور پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرا اور ان کی وفات 19 جولائی 1974ء کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔ اور تدفین میانی صاحب کے قبرستان میں کیا گیا۔ ہر سال بڑے شوق و ذوق سے ان کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔
اللہ مرحوم کے درجات بلن فرماۓ۔ (آمین)