امام بی بی
علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل،متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ علامہ کے والد شیخ نورمحمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیرعلی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، والدہ علامہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے مجتنب رہتیں کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالباً حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد شیخ صاحب نے ملازمت ترک کر دی۔
گھر میں انھیں’’ بے جی‘‘ کہا جا تا تھا۔ وہ بالکل ان پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حسن سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطور امانت رکھوا جاتیں ۔ برادری کے گھرانوں میں اگر کوئی جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو ”بے جی‘‘ کو سب لوگ منصف ٹھہراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کر دیتیں ۔ بے جی غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتیں ۔ بعض غریب عورتوں کی خفیہ مدد کرتیں ۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہی تھا کہ محلے برادری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس
بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑ کیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہو جاتیں ۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کر کے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کر دیتیں۔
اقبال کو اپنی والدہ سے غیر معمولی انس اور بے حد لگاؤ تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیر نظر نظم "والدہ مرحومہ کی یاد میں" سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیریت واپسی کے لیے دعا گو رہتیں اور انھیں اقبال کے خط کا ہمیشہ انتظار رہتا۔
ان کا انتقال ۷۸ سال کی عمر میں ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ قبر، امام صاحب کے مقبرے کے پاس واقع ہے۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبرالہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا
جس کے چند شعر یہ ہیں:
مادر مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں
چشم تر ہے آنسوؤں سے ، قلب ہے اندوہ گیں
اکبر اس غم میں شریک حضرت اقبال ہے سال
رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے
واقعی مخدومۂ ملت تھیں وہ نیکو صفات
رحلت مخدومہ سے پیدا ہے تاریخ وفات
1333 ہجری
فارسی میں اکبر کا ایک اور قطعہ تاریخ وفات مرحومہ کے لوح مزار پر کندہ ہے۔
والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے ۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء کے خط میں لکھتے ہیں: اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کر دیا ہے ۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے
وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں‘‘۔ (صـحـيـفـه: اقبال نمبراول ،۱۹۷۳ء ص ۱۳۲)
شیخ نور محمد کو بھی اپنی رفیقۂ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقع پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی۔ اقبال نے زیر مطالعہ نظم (والدہ مرحومہ کی یاد میں) کاتب سے
خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔