جمیل الدین عالی
اپنے دوہوں کے لیے مشہور اور معروف شاعر” جمیل الدین عالیؔ کے بارے تفصیلی معلومات ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا جمیل الدین* احمد نام اور *عالیؔ* تخلص ہے۔ یکم؍جنوری۱۹۲۶ء* کو *دہلی* میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن *لوہارو* ہے۔تقسیم ہند کے بعد آپ کراچی چلے آئے اور پاکستان گورنمنٹ کے ایک مرکزی دفتر میں ملازم ہوگئے۔۱۹۵۱ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد انکم ٹیکس آفیسر مقرر ہوئے۔۱۹۷۶ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ قائم کرنے میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے۔ان کا پہلا تخلص مائل تھا۔ غزل کے علاوہ انھوں نے دوہے اور گیت بھی لکھے ہیں۔ معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو پاکستان ہیں۔ عالی صاحب کئی ایوارڈ سے نوازے گئے۔ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی(شعبہ ادب) ۱۹۸۹ء اور اکادمی ادبیات پاکستان کا ’’کمال فن ایوارڈ‘‘ ۲۰۰۶ء میں ملا۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
*’غزلیں ، دوہے،گیت‘، ’لاحاصل‘، ’جیوے جیوے پاکستان‘* (قومی نغمے)، *’دنیا میرے آگے‘، ’تماشا مرے آگے‘* ،(سفرنامے)، *’نقار خانے میں‘* (کالموں کا مجموعہ)، *’اے مرے دشت سخن‘، ’اک گوشۂ بساط‘* (شعری مجموعے)، *’حرفے چند‘* (کتابوں پر دیپاچے، تین جلدیں)، *’انسان ‘* (طویل نظم)۔
*جمیل الدین عالیؔ ، 23؍نومبر 2015ء* کو انتقال کر گئے ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:179 سے لیا گیا ہے۔
معروف شاعر جمیل الدین عالیؔ کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت.
تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں
ہم اپنے گھر میں بھی تیرا ہی گھر بناتے ہیں
اجنبیوں سے دھوکے کھانا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے
اس کے لیے کیا کہتے ہو وہ شخص تو دیکھا بھالا تھا
بکھیرتے رہو صحرا میں بیج الفت کے
کہ بیج ہی تو ابھر کر شجر بناتے ہیں
کیا کیا روگ لگے ہیں دل کو کیا کیا ان کے بھید
ہم سب کو سمجھانے والے کون ہمیں سمجھائے
ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو
کچھ چھوٹے چھوٹے دکھ اپنے کچھ دکھ اپنے عزیزوں کے
ان سے ہی جیون بنتا ہے سو جیون بن جائے گا
نہ ترے سوا کوئی لکھ سکے نہ مرے سوا کوئی پڑھ سکے
یہ حروف بے ورق و سبق ہمیں کیا زبان سکھا گئے
جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو
برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا
کوئی وعدہ وہ کر جو پورا ہو
کوئی سکہ وہ دے کہ جاری ہو