عادل شاہی دور میں دکنی ادب[pdf]
پارٹ ون۔
بہمنی عہد حکومت میں بیجا پور کا صوبے دار یوسف عادل شاہ بہمنی سلطنت کے انتشار کے بعد خود مختار ہو گیا۔ یہا پور میں ترکی کے خاندان عثمانیہ کے حاکم سلطان مراد ووم کے چشم و چراغ یوسف عادل شاہ (1490-1510) نے عادل شاہی حکومت( 1490 1686) قائم کر لی ۔
سترہویں صدی میں بیجاپور میں ایک طاقت ور اور مضبوط حکومت قائم ہو گئی جس نے دہلی کی مغل حکومت کے استبداد کے خلاف بھر پور مزاحمت کی۔ بیجا پور کی حکومت نے دکن ، گول کنڈہ احمد نگر اور بیدار کی اسلامی حکومتوں کے تعاون کی تجویز احمد نگر کے حاکم نظام شاہ نے پیش کی اس متحد ہو فوج نے احمد نگر کے حاکم نظام شاہ کی کمان میں پیش قدمی کرتے ہوۓ مالی کوٹہ کی جنگ میں پندرہویں صدی کی طاقت ور ترین دہے گھر کی ہند و حکومت کے سر براہ نوے سالہ راجہ رامارا یا کو چھبیس جنوری سال 1565ء کو دریاۓ کرشنا کے کنارے شکست دی۔
شمالی ہند میں جلال الدین اکبر کے بعد جنوبی ہند میں راجہ راما را یا سب سے طاقت ور حاکم تھا۔ اس مطلق العنان راجہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس خطے کے حالات بدل گئے ۔ پجاپور کے بادشاہوں نے ادب اور فنون لطیفہ کی ترقی کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام د میں وہ تاریخ ادب میں مذکور ہیں
اس عہد میں تھیں کے قریب شعرا نے اپنے کلام سے دکنی زبان کی علمی ثروت میں اضافہ گیا۔ اسی طرح نثر میں بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے سال 1686ء میں عادل شاہی حکومت کا جاہ و خلال تاریخ کے طوماروں میں دفن کر دیا۔ عادل شاہی دور میں آٹھ بادشاہوں نے حکومت کی :
یوسف عادل شاه : 1490-1510
اسماعیل عادل شاه : 1510-1534
ابراہیم عادل شاه 1534-1558 علی عادل شاه 1558-1579
ابراہیم عادل شاہ ثانی : 1580-1627
محمد عادل شاه : 1627-1657
علی عادل شاہ ثانی : 1657-1672
سکندر عادل شاہ: 1672-1686
مناجات کی
تا کہ کرم تیج پر ہوۓ بہر حسین و حسن
شاہی عاشق اتا بول مناجات کج
تاکہ کرم تج پہ ہوے بہر حسین و حسن
ابراہیم عادل شاہ ثانی ابراہیم
اپنے بزرگوں کی طرح ابراہیم عادل شاہ ثانی ابراہیم بھی علم و ادب کا قدر دان تھا۔ اور دکنی شاعری کو بہت پسند کرتا تھا اور خود بھی شعر کہتا تھا۔ اس نے مثنوی ، قصید واور غزل میں طبع آزمائی کی ۔ اس کی تصنیف " نورس" اس کی تخلیقی فعالیت کی آئینہ دار ہے ۔ کتاب " نورس"
میں شامل گیت بہت پسند کیے گئے
نورس سور جگ جگ اتری سرد گئی
پوست سر ستی ماتا ابراہیم پر ساد بھٹی دونی ابراہیم جب سندری دیکھا یو لچھن ہے کہاں
جات چاند سلطان نانولی ملکے جہاں
شاہ میراں بی شمس العشاق
پندرہویں صدی عیسوی میں اس عہد کے ہندی زبان کے ممتاز صوفی شاعر شاہ میراں بی شمس العشاق (1407-1498) کی مذہبی ۔ علمی وادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سال 1450 میں بر صغیر پہنچنے والے اس شاعر کی تخلیقات عشق ، مذہب ، تصوف اور زندگی کے تمام نشیب و فراز پر محیط اس تخلیق کار کی شاعری ادبی اعتبار سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجا گر کرتی ہیں
شاہ میراں ہی ٹس العشاق نے شہادۃ الحقیقت ،خوش نفز ، خوش نامہ اور تصوف سے وابستہ اہم موضوعات پر نشر کی کتاب شرح مرغوب القلوب لکھ کر ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ شاہ میراں جی شمس العشاق نے دکنی زبان کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔ شاہ میراں جی شمس العشاق کا نمونہ کلام درج ذیل ہے:
تو قادر کر سب جگ سب کو روزی دیوے
تو سمجھوں کا دانا پینا سب جنگ تج کو سیوے
ایکس مانی مولی دیوے ایکس مانی باج
کیتوں بھنکھ منگواوے کیتوں دیوے راج
کیتوں پاٹ پتمبر د یتا کیتوں سر کی لایا
کیتوں اوپر دھوپ تلاوے کیتوں اوپر چھایا
کیتے گیان بھگت بیراکی کیتے مور کچھ گنوار
ایک جن ایک مانس کی تاک پر س اک نار
شاہ برہان الدین حاتم
شاہ میراں بی شمس العشاق کے ذمین فرزند شاہ بر ہان الدین حاتم ( متوفی 1599) نے تصوف کے موضوع پر نظم اور نثر میں جو سرمایہ پیش کیا اس کے لیے کئی زبان کا انتخاب کیا۔ شاہ برہان الدین جانم کی شعری تصانیف 'سکھ لیلا ، وصیت الہادی اور ارشاد نامہ ہیں ان کی نثری تصنیف کلمۃ الحقائق التصوف کے موضوع پر اہم کتاب ہے جس کے موضوعات کی معراج العاشقین سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔ شاہ برہان الدین حاتم نے شاعری میں ہندی اور ان پر بھی توجہ دی۔ شاہ برہان الدین حاتم کا نمونہ کلام درج ذیل ہے
یہ روپ پر گٹ آپ چھایا کوئی نہ پایا انت
مایا موہ میں سب جنگ باند ھیا کیونکہ سوجھے پنت
بعض آ کہیں اپنی بوجھ
معلوم ہیں اوس کی سو بجھ
امین الدین اعلی
شاہ برہان الدین جانم کے بیٹے اور جانشین امین الدین اعلی ( امین الدین علی ) نے بھی دکنی زبان میں نظم اور نثر کی تخلیقات پیش کیں۔ اکثر محققین کی رائے کے مطابق امین الدین اعلی نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زیادہ بہتر اور موثر انداز میں تصوف کے مسائل پر اظہار خیال کیا۔ ان کے رسائل گفتار شاه این ، نور نامہ ، محبت نامہ گنج مخفی رموز العارفین ، قریہ ، ذکر نامه وجود نامه ، چکی نامه ، از موز السالکین ، گیج خوبی اور نظم وجود یہ کی بہت پزیرائی ہوئی ۔ مونہ کلام درج ذیل ہے
قمرین میں تیرے ساخر ہوے ہموں کوں
مگر اہ کر بھلا دے قوس قزح بہوں کوں
پیچوں بھریاں زلف تج موجوں ڈبے بحرموں
ہر لہو پڑ کرشمہ عشاق کے ریجن کو
اس عہد کے جن تخلیق کاروں نے فروغ ادب میں حصہ لیا ان میں میراں جی خدا نما، شاہ محمد قادری ، سید میراں حسینی ، شاہ معظم اور داول کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ابراہیم عادل شاہ ادب اور فنون لطیفہ میں گہری د چپی لیتا تھا۔ اس نے دکنی زبان میں شاعری کی اور گیتوں اور موسیقی کے موضوع پر کتاب "نورس" لکھی۔ ابراہیم کے بعد محمد عادل شاہ نے عنان اقتدار سنبھالی ۔ محمد عادل شاہ اور اس کی بیگم کو شعر و ادب سے قلبی لگاؤ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں جو شعر اور بار سے وابستہ رہے ان میں رستی ، ملک خوشنود، دولت شاہ، عبدل اور مقیمی شامل ہیں۔
کمال خان رستمی
کمال خان رستمی ایک زود نولیس پہر گواور قادر الکلام شاعر تھا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے محمد عادل شاہ کی بیگم ( خدیجہ سلطان شہر بانو کی فرمائش پر چو ہیں ہزار اشعار پر مشتمل ایک طویل رزمیہ مثنوی" خاور نامہ" محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں سال 1649 مکمل کی۔ مثنوی" خاور نامہ " اگرچہ ایک فارسی نظم کا تر جمہ ہے مگر رستمی نے ترچھے کو اس مہارت سے دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے کہ ترجمے میں بھی تخلیق کی چاشنی پیدا ہو گئی ہے ۔ امیر خسرو کی فارسی تصنیف پر مبنی ملک خوشنود کی مثنوی“ بہشت بہشت اگرچہ مشکل زبان میں لکھی گئی ہے مگر اس کی اسانی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اول جب کیا یہ کتاب ابتدا
بند یات میں نقش نام خدا
کیاتر جمہ دکھنی اور دل پذیر
بولیا معجزہ ہو کمال خان دبیر
عبدالغنی عبدل
ابراہیم عادل شاہ کے زمانے کا مقبول شاعر تھا۔ پانپور میں اس کی شاعری کی دھوم تھی مگر اس کے حالات زندگی ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے ہیں ۔ اس کا پورا نام عبدالغنی تھا مگر عہدل کی عرفیت سے مشہور ہوا۔اپنی مثنوی" ابراہیم نامہ میں اس نے اپنے مربی ابراہیم عادل شاہ کے حالات زندگی اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں ۔ اس کی نظمیں تحریف نور س محل" ،" نوروز کا جشن، شہر یا پور کی تعریف اور محبوب کی سرا پا نگاری اس کی فنی مہارت کی دلیل ہیں۔
الہی زبان سنج توں کھول بج
امولک بھا کر چکو چہ بول میج
بادشاہ وقت کی مدح میں لکھی گئی عہدت کی مثنوی ابراہیم نامہ " کو بھی دکنی زبان کے ارتقا میں اہم سمجھا جاتا ہے ۔
محمد نصرت نصرتی
علی عادل شاہ کے عہد حکومت میں رزمیہ اور عشقیہ شاعری کے مشہور شاعر نصرتی ( مد نصرت ) کے ہمہ گیر اور منفرد اسلوب کام طرف شہرہ تھا۔ اس نے وا صولت ( عاشق نامراد کی شکایتوں اور عرض غم کی دکانتوں کا بیان) اور شہر آشوب ( معاشرتی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی کا المیہ ) کے بیان میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔ تخلیق فن کے دوران میں وہ بادشاہ شاہی کے قلمی نام سے لکھتا تھا۔ اس کا مجموعہ کلام "کلیات شاہی " کے نام سے شائع ہوا۔ اپنی شاعری میں نصرتی نے بالعموم مثنوی کی ہئیت کو منتخب کیا اور مثنوی ہی اس کی شہرت کا وسیلہ بن گئی۔
مثنوی کے علاوہ نصرتی نے غزلیں ،رباعیات ، نجویات ۔ مخمس اور قصیدے بھی لکھے ۔ اسے دکنی اردو میں قصیدے کا پہلا شاعر سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی مثنوی" گلشن عشق" ( عرصہ تخلیق 1657-1658) منومر اور مد ھو مالتی کی داستان محبت پر ہے ۔ اپنی رزمیہ مثنوی" علی نامہ " ( سال اشاعت 1670) میں نصرتی نے علی عادل شاہ ثانی کی حیات اور مہمات کو موضوع بنایا ہے ۔ اس ملو بل مثنوی کے ہر حصے کا آغاز ایک قصیدے سے ہوتا ہے ۔ اولی اسلوب کے اعتبار سے مثنوی علی نامہ پر شکوه انداز ، شدت جذ بات اور دل کش پیرایۂ اظہار کی بنا پر حسن شوقی کی تخلیق میز بانی نامہ کے مانند بزم کے موضوع پر قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے ۔
اس کی تیسری مثنوی "تاریخ سکندری جو نصر تی کی اچانک وفات کے باعث نا مکمل رہ گئی۔ ملا نصرتی ( محمد نصرت ) بھا پوری (1600-1674) نے معانی اور موضوعات میں پائی جانے والی حد فاصل کی جانب متوجہ کر کے ادبی تھیوری کو نئے آ ہنگ سے متعارف کرانے کی سعی کی ۔ اس کی تصانیف "گلشن عشق" ' علی نامہ اور تاریخ سکندری میں فکر و خیال کی رفعت اور اظہار کی ندرت نے شاعری میں مضمون آفری اور معنی بندی کا ایک جہاں تازہ جلو گر ہے جو قاری کے احساس و ادراک کو مہمیز کر کے اپنے من کی خواصی پر مائل کرتا ہے ۔ نصرتی کے اسلوب کا نمونہ گلشن عشق کے ان اشعار میں دیکھیں۔
اور ھر ساتھ تھی ماں کے مدھو مالتی
اور ھر ماں کے سنگات چمپاوتی
مذید معلومات کے لیے پیج لائک کیجیے ان شاءاللہ جلد از دوسرا پارٹ پوسٹ کیا جائے گا۔