ایہام گوئی کا دور
ایہام کا مطلب
ایہام عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کے لغوی معنی "و ہم یا وہم میں ڈالنا ہیں۔ شاعری کی اصطلاح میں "علم عروض کی وہ صنعت جس میں شاعر ، شعر میں ایسالفظ لاۓ ، جس کے دو معنی ہوں "صنعت ایہام" کہلاتی ہے۔ چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے قاری یا سامع ، وہم میں پڑ جاتا ہے کہ وہ شعر کا مفہوم کیا سمجھے۔ اس لیے اس صنعت کا نام ایہام رکھا گیا۔
صنعت ایہام کے استعمال کی خوبی یہ ہے کہ جس ذومعنی لفظ پر شعر کی بنیاد رکھی جاتی ہے ، اس کا ایک معنی مفہوم کے قریب تر اور دوسرا بعید ہوتا ہے لیکن شعر میں، شاعر کی مراد معنی بعید سے ہوتی ہے ، قریب سے نہیں۔ واضح ہو کہ ایہام میں شعر کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ امیر خسرو، اردو میں صنعت ایہام استعمال کرنے والے اولین شاعر ہیں۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہلیوں میں اس کا استعمال کثرت سے نظر آتا ہے۔ایہام کی کی صنعت ، اس زمانے میں دوز بانوں میں مستعمل تھی ، ایک ہندی اور دوسری فارسی۔
محمد حسین آزاد اور مولوی عبدالحق کے خیال میں اردوایہام پر زیادہ تر ہندی شاعری کا اثر ہے اور ہندی میں یہ صنعت، سنسکرت سے پہنچی۔ سنسکرت میں اس صنعت کو "سلمیش" کہا جاتا ہے لیکن ایہام اور سلمیش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سلیش میں ایک شعر کے کئی معنی ہو سکتے ہیں لیکن ایہام میں شعر کا مطلب صرف ایک ہوتا ہے۔
شمالی ہند میں ولی کی آمد نے ریختہ گویوں کو ایک نیا حوصلہ بخشا۔ دیوان ولی کی تلقید میں جب اردوادب کا نیا دور شروع ہوا تو فارسی داں طبقے نے اس کے خلاف اہانت آمیز رویہ اختیار کیا۔ اس منفی رویے کے خلاف پہلا رد عمل خان آرزو کے ہاں پیدا ہوا اور انہوں نے فارسی کو ترک کر کے ، ریختہ کے مشاعرے کرانا شروع کر دیئے۔ فارسی کا مقابلہ کرنے کے لیے اردو شعراء نے لفظ کو نئے نئے انداز میں استعمال کر نے کی کوشش کی ۔
اس طرح اردو میں ایہام گوئی کا رجحان پیدا ہوا، جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی پہلی باقاعدہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس وقت محمد شاور نگیلا، مسند اقتدار پر براجمان تھا۔ مغلیہ سلطنت ، کمال اوج دیکھنے کے بعد آماد و زوال تھی۔ محمد شاہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔
گو کہ اس نے اپنی کوششوں اور دیگر امراء کی مدد سے " سادات بارہ ’’ کازور توڑا لیکن اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ مرہٹوں ، جانوں یا روہیلوں کی بڑھتی ہوئی طاقتوں کا استیصال کر سکتا۔ یہی وہ دور ہے ، جب سیاسی بد نظمی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ، نادر شاہ، بلاۓ ناگہانی کی طرح ونی میں نازل ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
نادر شاہ کے حملے نے اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیا۔ فرد ، اجتماعی خوف سے دوچار ہوا، چناں چہ اس نے اپنے اظہار خیال کے لیے ذو معنی الفاظ کا سہارا لیا، جو صنعت ایہام کے فروغ کا باعث بنا۔ 1734ء میں جب نواب خان دوراں میر بخشی مرہٹوں سے شکست کھا کر واپس آۓ تو نواب عبد الملک امیر خان نے برجستہ یہ جملہ کہا۔ نواب آۓ ، ہمارے بھاگ آئے۔ اس جملے میں بھاگ کا لفظ فرار اور قسمت دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔
یہ دو دور تھا جب معاشرتی اقدار ٹوٹ رہی تھیں۔ فرد، قول و فعل کے تضاد کا شکار تھا، رشتے کمزور پڑ رہے تھے ، ذاتی مفاد اجتماعی مفاد پر غالب آچکا تھا، لوگ ظاہری نمود و نمائش کا شکار تھے،امراء نے اقتدار کی ہوس میں سلطنت کو سازشوں اور خانہ جنگیوں کی آماج گاہ بنادیا تھا۔ اس تبد سہی ، معاشرتی اور سیاسی ماحول میں ، فارسی شعرائے متاثرین کی طرح، اردو شعرا، بھی ایہام گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔
فارسی، مغلیہ سلطنت کی سرکاری زبان تھی ، اس لیے در بار شاہی تک رسائی کے لیے فارسی کا علم ضروری تھا۔ گو کہ عوام الناس کی زبان فارسی نہ تھی لیکن اس زبان کے ساتھ لوگوں کا معاش وابستہ تھا۔ جب تک مغلیہ سلطنت کا سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہا۔ فارسی زبان کا گلستان بھی مہکتا رہا۔
جب انٹھار ہوئیں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا تو فارسی کا اثر بھی کم ہونے لگا اور اردو، جو عوام کی مشترکہ زبان تھی اس کی جگہ لینے لگی۔ رفتہ رفتہ اس کا اثر اتنا بڑھا کہ جہاں دار شاہ کے عہد میں اردو سرکار کی غیر سرکاری زبان بن کر قلعہ معلی میں رائج ہو گئی۔ گو کہ خواص اور اہل ادب کی زبان فارسی ہی تھی اور وہ اسی زبان میں داد سخن دیتے رہے ۔
دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ ایرانی علما وفضلا کی بڑی تعداد مغلوں کے زمانے میں ہندوستان میں وارد ہوئی ، ہمیشہ اہل ہند کی فارسی پر اعتراض کرتے رہتے تھے۔ یہ تنازع اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیا، جب شیخ محمد علی جز میں 1744 میں دہلی تشریف لائے۔ حزیں ، تنگ مزاج اور متکبر انسان تھے۔
جب انہوں نے ہندوستان کی فارسی پر اعتراض کیا تو لوگوں نے سند میں سراج الدین علی خان آرزو کو پیش کیا۔ جز میں نے آرزو کی فارسی پر بھی اعتراضات اٹھاۓ اور بند اور اہل ہند کی تو میں لکھیں۔ آر زد، جو اپنے وقت کے مسلم الثبوت استاد تھے ، یہ رویه بر داشت نہ کر سکے اور خم ٹھونک کر میدان اتر آۓ۔ آرزو کا رد عمل ، اردو شاعری کی صورت میں سامنے آیا۔
انہوں نے مقامی شعرا کو فارسی کے بجائے اردو میں شاعری کی ترغیب دی اور ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو اپنے گھر پر مشاعرہ منعقد کرنے لگے ۔ ان کی کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل، اردو کی جانب متوجہ ہوئی۔
اردو کو فارسی کے مقابل لانے کے لیے شعرا نے الفاظ کو نت نئے پیرائے میں باندھنا شروع کیا تا کہ اردو کو ایک متمول ز بان ثابت کیا جاسکے۔ اس شعوری کوشش نے اردو میں صنعت ایہام کو فروغ دیا۔
ایہام گو شعرا میں خان آرزو اور ان کے شاگردوں میں حاتم، مضمون، آبرو اور یک رنگ وغیرہ نے اتنی فراوانی سے استعمال کیا کہ یہ رجحان بڑھ کر با قاعد و تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔
اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک ، انظام فارسی کا رد عمل نظر آتی ہے ، لیکن حقیقت میں یہ تحریک، ہندوستان کے ارضی اور ایران کے ساوی عناصر کے تصادم کا نتیجہ تھی۔ اردو کی جڑ میں زمین کے ساتھ پوستہ تھیں ، لیکن اسے وہ ساز گار فضا میسر نہ آئی ، جو اسے ادبی سطح پر بار آور کرتی۔
جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو دکن کے اس بیج نے شمالی ہندوستان میں اردو شاعری کی دو فصل تیار کی ، جس سے گلشن اردو ہمیشہ فیض یاب ہوتا رہے گا۔ دلی کی دیہی آمد بری بر وقت تھی۔ اس وقت کی عیش پرست سوسائٹی نے اس شاعری کو اپنے رنگین مزاج سے ہم آہنگ پایا۔
یہی وجہ تھی کہ دلی کے دیوان میں سب سے زیادہ جس چیز نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ایہام گوئی تھی۔ اس طرح دکنی کے اثرات بھی شمالی ہند میں ایہام گوئی کا محرک ثابت ہوۓ۔ اس تحریک کی وجہ سے لفظ تازہ کی تلاش شروع ہوئی ، جس سے و تراکیب کی تعداد بڑھی اور اردو شاعری کا ایک مخصوص انداز ترتیب پا گیا۔