PDFاردو ناول نگاری کا ارتقاء
Urdu adab Navil Negari
اردو ادب urdu adab ہر دور میں نشیب و فراز سے گذرتا رہا ہے۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور دیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں نے اپنی ان تھک کاوشوں سے اردو ادب کو مختلف سے آراستہ کیا۔اردو ادب میں ناول کی صنف بھی ان ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے نکلا ہے۔مختلف ناقدین نے ناول کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے۔
رابن سن کر و سو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنو نے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے ل لحاظ کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ Qaseeda goقصیدہ گو کو حقیقت نگار ہو گا ہونا چاہئے۔ دوسرا یہ کہ اس سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گا تو جھوٹا ہو گا۔ اور اپنی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا۔ وہ کہتا ہے کہ
’’قصہ بنا کر پیش کرنا بہت ہی بڑا جرم ہے۔ یہ اس طرح کی دروغ پر مبنی ہے۔ جو دل میں ایک بہت بڑا سوراخ کر دیتی ہے جس کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
فیلڈنگ جو انگریزی ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں اس فن کی تعریف میں یوں رقم طراز ہیں۔ ”ناول نثر میں ایک طربیہ کہانی ہے۔‘‘
یعنی اس کے نزدیک المیہ کہانی بول کے موضوع سے باہر ہے وہ اس طرح رچرڈسن کے اس نقط نظر کو رد کرتا ہے کہ کہانی کی غرض نیکی اور اخلاق کا سدھارنا ہے۔ فیلڈنگ اسے بنسنے اور ہنسانے کا ذریعہ سمجھتا ہے اس لیے وہ اس میں طربیہ کی شرط لگا دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف بھی نا مکمل ہے۔ اس کا ایک ہم عصر سمولٹ اس نئے فن کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے زندگی کے کر دار مختلف جماعتوں کے ساته رکه کر مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں۔
یہ تعریف بھی نا کافی ہے اس لیے کہ اس میں سارا زور پلاٹ پر ہے یہ کر دار کو واضح کرنے کے لیے پلاٹ نہیں بناتے ہیں بلکہ پلاٹ کو واضح کر نے کے لیے کر دار۔
چنانچہ انگلستان کی ایک ادیبہ کلارا ایوز اس فن کی یوں تعریف کرتی ہیں۔ ’’ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرے کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں وہ لکھا جائے۔‘‘
پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چار شرطیں لازم کر دیں۔قصہ ہو ، نثر میں ہو، زندگی کی تصویر ہو اور اس میں رابط و یک رنگی ہو۔ یعنی یہ قصہ صرف نثر میں لکھا نہ گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہو اور کسی خاص مقصد یا نقط نظر کو بھی پیش کرتا ہو۔
در اصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی زندگی کی گوناگوں جزئیات کو کبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا لیکن ان تمام شکلوں میں جو چیزیں مشترک تھیں وہ قصہ، پلاٹ کر دار، مکالمہ، مناظر فطرت، زمان و مکاں نظریۂ حیات اور اسلوب بیان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
اردو میں ناول کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔یہ صنف ، ادب برائے زند گی کی ترجمانی کرتی ہے۔ ناول نویس اپنی خواہش کے مطابق کوئی نئی دنیا نہیں بنا تا ، وہ ہماری ہی دنیا سے بحث کرتا ہے۔ جس میں دکه ہو سکه ہو ، جنگ بھی ہو، صلح بھی ہو ا ور پیدائش بھی ، زمیندار بھی ہو اور مزدور بھی ، بادشاہ بھی ہو اور غلام بھی۔ ناول نگار صرف تخیل میں پرواز نہیں کرتا ہے۔ اس کے قصے کی بنیاد روز مرہ کی زندگی ہوتی ہے۔ بیسویں صدی میں جو ناول تخلیق ہوئے ان ناولوں کو تخلیق کر نے کے پیچھے ناول نگاروں کا کیا رجحان رہا یا کیا نظریات رہے۔
جدو جہد آزادی کا اردو ناول پہ کیا اثر رہا ، ادب لطیف نے ناول کو کس طرح متاثر کیا ترقی پسند تحریک نے اردو ناول کو کس حد تک متاثر کیا ، حلقہ ارباب ذوق کے تحت لکھے گئے ناول کس قسم کے ہیں ، تقسیم ہند کے المیے نے اردو ناول کو کس حد تک متاثر کیا ، علامت نگاری اور تجریدیت نے اردو ناول کو کس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور جدیدیت و مابعد جدیدیت نے اردو ناول پر کون سے ان مٹ نقوش چھوڑے، ان تمام رجحانات اور نظریات کی روشنی میں ہم اردو کے ناولوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
لیکن ان میں ’’بیسویں صدی کے اردو ناول میں فکری میلانات‘‘ کے عنوان سے ابھی تک کوئی بھی تحقیقی یا تنقیدی کام نہیں ہوا ہے چنانچہ بیسویں صدی کے تہذیبی، سماجی اور تاریخی پس منظر کے تناظر میں ان ناولوں کا جو کہ بیسویں صدی میں لکھے گئے جائزہ لیا جائے گا جو اس پورے عہد کی تجسیم کاری کے عمدہ نمونے ہیں اور یہ کوشش کی جائے گی کہ ان ناولوں کو وجود میں لانے کے پیچھے ناول نگاروں کی فکر کیا رہی اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
قصہ اور کہانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی : جتنی انسان کی تاریخ۔ اپنی موجودہ شکل میں گو کہانی مغرب کی دین ہے مگر واقعہ یہ ہے : کہ قصہ یا حکایت کے روپ میں یہ قدیم شاعری میں بھی موجود تھی اور عوام الناس میں مقبول بھی۔ یہ وہ سچا نیاں ہیں جن کے ماننے یا نہ ماننے سے ان کی اصلیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جس طرح بولنا، سننا سمجھنا محسوس کرنا بشر کی جبلت میں ہے اس طرح کہانی بھی انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ زمانہ قدیم میں جب انسان جنگل اور پہاڑوں کا باسی تھا اس وقت ان کا نہ کوئی کنبہ تھا نہ قبیلہ اور نہ انہیں تہذیب، معاشرے یا سیاست سے کوئی مطلب تھا۔ دن گذرتا گیا عہد بہ عہد حضرت انسان ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔
جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر چند افراد خاندان اور قبیلہ کی شکل میں سماجی طور پر زندگی بسر کر نے لگے۔ اپنی ضروریات کے پیش نظر ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کے درد و غم اور خوشی میں شریک ہونے لگے۔
انسانی زندگی کا معیار اونچا ہونے لگا سماج میں تہذیب و تمدن تعلیم و تر بیت کا بھی فروغ ہوا۔ انہیں دنوں تھکے ماندے یہ انسان اپنے وقت کو آرام و راحت کے ساتھ گذارنے کے لئے موقع بہ موقع ایک ساتھ چند افراد مل بیٹه کر ما فوق الفطری عناصر پر مبنی بات چیت کر تے تھے
جو کہانی کے نام سے جائے جاتے ہیں۔ جو عشقیہ اور تمثیلی رنگ لیے ہوئے مافوق الفطری عناصر پر مبنی ہو تی تھی جس کا مقصد آرام ، چین، سیر و تفریح تها مگر جب زینہ بہ زینہ انسان تہذیب یافتہ اور تعلم یافتہ ہو تا گیا تو اس کے سوچنے سمجھنے اور زندگی گذارنے کا معیار بھی بدلتا گیا ایسی صورت میں مافوق الفطري عناصر سے مبرا خاص تمثیلی پیرائے میں کہانی اور داستانیں لکھیں جس کا مقصد انسانی
زندگی کی اصلاح تھی ان کہانیوں اور داستانوں میں پند و نصیحت کا پر تو نمایاں ہوتا تھا۔ مثلا ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘ اس نوعیت کی چیز ہے۔ یہیں سے انسانی زندگی اور ادب میں رومان خاص طور سے جگہ لے لیتی ہے اور داستانی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
داستان اور کہانی کا انسانی زندگی سے چولی دامن کا رشتہ ہے جہاں انسان کہانی یا داستان لکھتا بھی ہے اور سنا تا بھی ہے۔ کہانی یا داستان انسان کا وہ کار نمایاں ہے جس میں انھوں نے اپنے زندگی کو مثالی بنا کر تہذیب کی چوٹی پر پہنچایا ہے اس وقت کی داستانوں میں تخیلی تصور مافوق الفطری اور رومانی عناصر پائے جاتے ہیں۔ انہیں دنوں انسان چھوٹی چھوٹی کہانی کے بجائے فرصت کے پیش نظر بڑی بڑی داستانیں سننے سنانے اور لکھنے بھی لگے۔
اردو ادب میں با قاعدہ داستانوں کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میں تحسین کی ’’نو طرز مرصع‘‘ سے ہوتا ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں تحسین کی ’’نو طرز مرصع‘‘ باغ و بہار اور انشاء کی ’’رانی کیتکی‘‘ کی داستانوں کو چھوڑ کر میر امن کی باغ و بہار ’’حیدر بخش حیدری ’’آرائش محفل‘‘ طوطا کہانی‘‘ خلیل علی خاں اشک کی ’’داستان امیر حمزہ‘‘
بہار علی حسینی کی ’’نثر بے نظیر ‘‘ مظہر علی ولا اور للو لال کی ’ ’بیتال پچیسی‘‘ کاظم علی جوان اور للو لال کو کی ’’سنگهاسن بتیسی‘‘ جیسی داستانیں فورٹ ولیم کالج کے تحت تصنیف ہوئیں اور اس کے بعد محمد بخش مہجوری کی ’’نورتن‘‘ سرور کی ’’فسانہ عجائب‘‘ نیم چند کھتری کی ’’گل صنوبر الف لیلی‘‘‘’’بوستان خیال‘‘ طلسم ہوش ربا’’سخن دہلوی کی سروش سخن‘‘ شیون کی ’’طلسم حیرت‘‘ اور الف لیلی‘‘ وغیرہ جیسی مختلف چھوٹی بڑی اور درمیانی داستانیں مخطوطہ و مطبوعہ انیسویں صدی کی آخر تک لکھی ہوئی ملتی ہیں۔
جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ اس وقت کی داستانیں منطق اور انسانی زندگی کے فلسفہ سے مبرا ان کی دل لگی اور دلچسپی کے وسائل اور اصلاح کے ذرائع فراہم کرنے پر مشتمل ہوتی تھیں ان داستانوں کی ضخامت کا انحصار داستان گو یوں پر تھا۔ لوگوں کی فرصت کو مد نظر رکھتے ہوئے داستان گو داستان لکھتے تھے۔
صنعتی انقلاب کے بعد بدلتے ہوئے حالات میں ہندوستانی تاریخ نے کروٹ لی انسان نے اپنی زندگی گذارنے کے طریقے بدلے عام لوگوں میں نئی بیداری آئی اور قدیم رسم و رواج سے انحراف کر کے مغربی طرز معاشرت کے مطابق زندگی گذاری جائے لگی۔ نئی ذہنی اور ادبی فضا ء سازگار ہوئی تو جدید تقاضوں نے پرانی روایت کو مسمار کر دیا اور نئی سماجی طاقتیں اور نقطہ نگاہ نمودار ہوئے اور اس کے زیر اثر افسانوی ادب میں صداقت پر مبنی اور اصلاح کی غرض سے ناول لکھے جانے لگے۔
جب ہم اردو ناول کے ارتقائی سفر کا جائزہ اور ابتداء کے متعلق غور کر تے ہیں تو سب سے پہلی نظر نذیر احمد کے ناولوں پر پڑتی ہے۔ ے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں بچوں اور عورتوں کی تعلیم کے ذریعہ مسلم سماج کی اصلاح کی طرف توجہ دلا ئی ہے۔ جنہیں کچه نقادوں نے جدید ناول کے مطالبات کو پورا نہیں کرنے کی وجہ سے ناول کہنے سے گریز کیا ہے۔
مثلا ان نقادوں کا کہنا ہے کہ نذیر احمد کے ناولوں کا پلاٹ موضوع اور اس کے مختلف فنی اجزاء ایسے نہیں ہیں جس میں عام انسانی زندگی کا فلسفہ موجود ہو۔ ان کے ناول محض تبلیغی اور پند و نصائح کا رنگ لئے ہوئے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی لڑکیوں کی اصلاح کے لیے ناول لکھے تھے مگر سچ یہ ہے کہ ان کے ناولوں کے کر دار میں عام انسانی زندگی کی ٹھوس حقیقتیں نمایاں ہیں۔
ان کے ناولوں کے کر دار عام انسانی زندگی سے ملتے جلتے جلتے نظر آتے ہیں اس طرح انھوں نے اپنے ناول نگاری کے ذریعہ نئے اسلوب اسلوب اور فن کی ایک نئی روش قائم کی ہے یہ اور بات ہے کہ مغرب مفہوم کے مطابق ان کے ناول، ناول کے فن پر کھرے نہیں اترتے مگر حقیقت کہ ناول کی داغ بیل انھوں نے ’’مرات العروس‘‘ ’’بنات النعش‘‘ ’’توبۃ النصوح‘‘ ’’ابن الوقت‘‘ ’’فسانہ مبتلا‘‘ وغيره ناول لکه کر ڈالی ہے جو ناول کا خشت اول ہے۔ ہے
نذیر احمد نے سب سے پہلے 1869ء میں اپنا ناول ’’مرات العروس‘‘ لکھا اس کے بعد انہوں نے ناول اور اصلاح معاشرت میں چو لی دامن کا رشتہ قائم کیا۔ اس میں ان کی منطقی فکر اور اصلاحی اور تبلیغی مزاج کو خاصہ دخل ہے۔ دھیرے دھیرے زندگی اور فن کا رشتہ وسیع ہوتا رہا اور اسی درمیان مقصد اور فنی احساس کے ما بین توازن بھی قائم ہو ا جس نے نذیر احمد کے ’’فسانہ مبتلا‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ایسی شکل اختیار کر لی جہاں واعظ اور فنکار یکساں نظر آنے لگے۔
نذیر احمد کے ہم عصر سرشار اردو کے دوسرے ناول نگار ہیں۔ ان کے ناولوں میں اس عہد کے لکھنؤ کے معاشرت کی تصویر کشی کثرت سے ملتی ہے۔جنہوں نے انسانی زندگی کے پھیلاؤ اور ان کی گہرائیوں پر روشنی ڈالی اور اردو ناول کو اس ابتدائی دور میں ایک ایسی روایت سے آشنا کرایا جو فنی لوازمات سے پر ہے۔ انہوں نے لکھنوی معاشرت کو اپنا موضوع بنا کر وہاں کے لوگوں کی اجتماعی زندگی کی اس طرح عکاسی کی کہ سب کو اپنی اصلی شکل نظر آنے لگی۔ سرشار نے پوری طرح لکھنؤ کا مشاہدہ کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول ’’فسانہ آزاد‘‘ میں ایک خاص عہد کا لکھنؤ نمایاں ہے۔
فسانہ آزاد کے ذریعہ موضوع سے پوری واقفیت مشاہدے کی گہرائی زندگی کی وسعت اور گہرائی کا احساس اور ایک مخصوص معاشرے کی تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کا علم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرشار نے داستان کی چھوڑی ہوئی روایت کے راستے پر چل کر ہمیں کئی ایسے کر داروں سے آشنا کرایا ہے جو ایک مخصوص مزاج کے مالک خاص طبعیت کے حامل اور مثالی ہیں۔
مثلا خوجی کا کر دار یہ کر دار ناول نگاری کے فن کی روایت کا ایک نا قابل فراموش عنصر ہے۔ یہ کر دار مستقبل کے ناول نگاروں کو فن کی روشنی بخشتا ہے۔سرشار نے اپنے ناولوں میں لکھنوی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی مصوری کی ہے اور معاشرے کے مزاج کی عکاسی کر تے ہوئے ایسے کر دار کا تعارف کرایا ہے جو انسانی زندگی کا ترجمان ہے۔ یہ سارے کر دار وضع قطع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مگر سرشار کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہم قامت کر داروں کی یکسانی کے باوجود ان میں ہر جگہ ایک انفرادی رنگ عیاں ہے۔ اس طرح ان کے ناولوں کے کر دار ن یکسانیت رکھتے ہوئے بھی اپنا ایک خاص رنگ رکھتے ہیں۔
سرشار نے ناول نگاری کے فن اور اس کی روایت کو ایسی تقویت بخشی جو آج بھی ہمارے ادب میں نمایاں ہے۔سرشار اپنے ناولوں کے کر داروں اور قاری کے با ہمی رشتے کی نزاکتوں کو پوری طرح محسوس کرتے ہیں جبکہ نذیر احمد اپنے ناولوں میں قاری کی ذہانت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔
بہر حال اس طرح سرشار نے صنف ناول نگاری کو حد درجہ فروغ دیا جس کی داغ بیل نذیر احمد نے ڈالی تھی۔ اس اعتبار سے فسانہ آزاد‘‘ ’’سیر کہسار‘‘ ’’جام سرشار‘‘ وغیرہ شہرت یافتہ ناول تخلیق کر کے انہوں نے اردو ناول نگاری کے فن کو وسعت دی۔
اس کے بعد شرر نے اردو میں تاریخی ناول تخلیق کر کے ایک نئی روش کا آغاز کیا اور اپنے ناولوں میں اسلام کے شاندار ماضی کا کثرت سے ذکر کیا اور اس روش کو انھوں نے اپنا نصب العين سمجها جس طرح نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کی معاشرتی اخلاقی،
معاشی مذہبی اصلاح اور مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کی اس طر ح شرر نے ماضی کی عظمت کو دہرا کر مسلمانوں کو راہ مستقیم پر چلانے کی کوشش کی اور قومی اتحاد بھائی چارگی اور انسان دوستی کا سبق سکھایا تاکہ مسلمانوں کا مستقبل روشن ہو۔ شرر کے دل میں قوم کا درد تھا انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ پورے قوم کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے ناول کو اپنے خیالات اور تصورات یعنی اپنی اصلاحی مقصد کو قوم تک پہونچانے کا ذریعہ بنا یا اور ناول کے فن کو اردو میں بر تنا شروع کیا جس میں شرر کو اولیت حاصل ہے۔ اس کی مثال ان کا ناول فردوس بریں ‘‘ ہے۔ ناول کی وہ خوبیاں جو نذیر احمد اور سرشار کے یہاں نہیں ملتی شرر نے ان کی طرف توجہ دی ہے۔
شرر نے اردو میں ناول نگاری کو ایک مسئلہ فن کی طرح برتا اور اپنے ناولوں میں پر تکلف منظر نگاری کی چاشنی اور چٹخارے اور ایک خاص قسم کی انشا پردازی کو اس طرح جگہ دی کہ یہ بھی فن کے اہم جز ہو گئے۔ انھوں نے مغربی فن کے مبادیات اور مشرقی مزاج کی شوخی و رنگینی کے حسین امتزاج کو فروغ دیا جس کی تقلید ان کے بعد آنے والے ناول نگاروں نے بھی کی۔