قطب شاہی دور کا ادب
کسی بھی ملک کی تہذ یبی اور ثقافتی ترقی میں اس خطہ کی زبان اور ادب کا اہم رول رہتا ہے ۔ زبان و ادب جس حد تک معیاری ہوں گے ، تہذیب اور ثقافت کے معیارات بھی اسی درجہ بلند ہوں گے۔ یوں تو دکنی زبان کی تشکیل گیار ہو میں صدی ہجری میں ہو چکی تھی۔ لیکن اس نئی زبان نے بہت جلد اپنے اطراف و اکناف کے بہت سارے علاقوں کو مسخر کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ادبی دور میں داخل ہو گئی۔ اس مرحلہ پر یہ زبان صوفی بزرگوں اور مذہبی رہنماؤں کی سر پرستی میں پروان چڑھتی رہی ، جنہوں نے اس کو اپنے اور عوام کے در میان ایک وسیلہ کی زبان بنایا۔
دکنی زبان ، مرہٹی زبان کے بطن سے پیدا ہوئی اور اس کا بیشتر ذخیر والفاظ مرہٹی سے ماخو د ہے ، جب کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں دیگر زبانوں کے الفاظ بھی داخل ہوتے رہے۔ ابتداء ہی سے دکنی زبان کا رسم الخط فارسی رہا ہے۔ جہاں تک اس زبان کی قواعد کا تعلق ہے اس کی بنیاد بھی مر ہٹی زبان کی قواعد کی بنیاد پر قائم ہے ، اگرچہ کہ بعد کے دور میں اس نے فارسی زبان کی قواعد کے اثر کو بھی قبول کر لیا۔
دکنی خالصتاً خطہ دکن کی پیداوار ہے اور یہ علاقہ کو بند ھیا چل کے جنوب سے شروع ہو کر دکن کی پانچ خود مختار ریاستوں کے حدود تک پھیلا ہوا رہا ہے ، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ ان مختلف علاقوں کی مقامی زبانیں مختلف نسانی خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجوداس نئی زبان نے خطہ دکن کے بیشتر حصوں پر اپنا اثر و نفوذ پیدا کر لیا اور وہ نہ صرف ایسے علاقوں میں مقبول ہوئی جہاں آریائی خاندان کی زبانیں رائج تھیں بلکہ جہاں دراوڑی زبانیں بھی اپنے ایک معیار پر تھیں۔ مرہٹی زبان کا تعلق آریائی زبان کے خاندان سے ہے ،
جب کہ کنڑی اور تلگو زبان کا تعلق دراوڑی زبان کے خاندان سے ہے ، چنانچہ دکنی نہ صرف مرہٹواڑہ کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی بلکہ کر ناٹک اور تلنگانہ کے علاقوں میں بھی یکساں طور پر مقبول رہی۔ یہاں اس بات کا اظہار بھی بے محل نہیں ہو گا کہ ان دراوڑی زبانوں سے دکنی زبان وادب میں شائد ہی کوئی ایسا لفظ ہوگا، جو دکنی زبان میں داخل ہو گیا ہو ۔ دکنی زبان کے اس سرسری جائیزے کہ بعد دیکھیں کہ سلاطین قلب شاہیہ کے عہد میں اس زبان کے ادب کو کسی حد تک فروغ حاصل ہوا۔
سلطنت قطب شاہی ۱۵۱۸ء میں قائم ہوئی اور ۱۹۸۷ء میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس سلطنت کا بانی سلطان قلی ، ہمدان کے بادشاہ اویس قلی کا لڑکا تھا۔ اس ترک نثراد شہزادے نے اپنی جان بچا کر ایران سے دکن آیا اور محمود شاہ بہمنی کے جر گہ میں داخل ہو گیا۔ اپنی خداداد صلاحیت اور سخت محنت کی بدولت اس نے جلد اپنا ایک مقام بنالیا اور ۱۴۹۵ء میں تلنگانہ کی صوبہ داری کی خدمت پر مامور ہوا۔
سلطان محمود شاہ بہمنی کی زندگی تک وہ اس کا وفادار رہا اور ۱۵۱۸ء میں اس کی وفات کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور ایک ایسی متحکم حکومت کی بنیاد رکھی جو کم و بیش ایک سو ستر (۱۷۰) سال تک سر زمین دکن پر قائم رہی۔ سلطان قلی نے گولکنڈے کو " محمد نگر" کا نام دیا اور اسے اپنا پایہ تخت
بنایا۔
شاہی سلطنت کے قیام اور استحکام سے بہت پہلے سحت سمیہ میں کیا بات ایک مشتر کہ عوامی زبان کی حیثیت سے بہمنی سلطنت کے مارے علاقے میں اپلی جی میں مشہور کر لی تھیں اور جب کسی کی پانچواں ریاستیں قائم ہو میں تو ان کے حدود میں کسی کی زبان کو نہ صرف عام ہوں ہوال کی زبان کی حیثیت حاصل تھی بلکہ اس کی اولیا روایت کا سلسلہ شروع ہوئے ایک درصہ گزر چکا تھا۔
سلطان قطب شاہ شاہی خاندان کوئی استحکام اور سلامت نہیں تھی کہ کوئی دوسری سلطان اس کا مقابلہ نہ کر سکتی لیکن قلب شادیوں نے علم و ادب اور ت نام خلافت کے جانے کو تو ایسے روشن کیا کہ آج تک تار تین میں اس مسلت کا نام روشن ہے۔
اردو زبان وادب کے شاعری او را پ کے او کار کا۱۲۲ ابراہیم قطب شاہ کے عہد سے شروع ہو تا ہے اور یہ حملہ اس سلطنت کے آخری عمر رسیدہ سلطان کے دور حکومت تک و افتروں عروج پر رہا۔ ان عالمین کے درباروں سے ہمیشہ علم و ادب کی محفلیں کی ہوتی رہی اور دور وار سے ارے ارے علما اور فضا کو گانڈ ے میں جمع ہوتے ہے اور مختلف زبانوں کی ترقی ہوتی رہی ۔
اردو زبان و ادب کے اولین دور کے شعرا میں سر فہرست فیروز محمود اور خیالی ہیں، او سلطان را نام قلب شاہ کے عہد سے تعلق رکھتے تھا۔ سلطان ابراہیم نے سنگو زبان وادب کی بھی سرا بھائی اور اس کے دور کے بہت سارے شعرا نے بادشاہ کی تعریف و توصیف میں گلمیں لکھی ہیں۔ اس کے دربار میں فار کی تو بات سے بہت مار سے تیار اور عالم جمع تھے ۔ باہ کو بھی عالم تھا اور اس کا ایک خاص کتب خانہ بھی تھا۔ جس کو اس نے خدا اور محمل بھی ارے اہتمام سے منع کیا تھا،
لیکن عبداللہ قطب شاہ کے عہد میں اس عمل کو آگ لگ گئی اور سمار الحربا اپ نہ آتی ہو گیا۔ شاہ میں وہ یہ ہے کہ فیروز محمود اور خیالی کے کلام کا یہ حصہ بھارتی پوستر ناتے ہم ہے البتہ ان شعر کا پایہ چ کدام دستیاب ہو جاتا ہے۔ شاعری کے اولین دور کے ان شعرا کے بارے میں بعد کے ادوار کے کئی شعرائے اور احترام اور عقیدت سے ان کا تذکرہ کیا ہے۔