ڈراما اندر سبھا
ڈرامہ اندر سبھا کی ادبی حیثیت
تاریخ تخلیق 1852ء ہے۔
آغا حسن امانت لکھنوی نے حاجی مرزا عابد علی عبادت کی فرمائش پر ایک منظوم ڈراما اندرسجا کے نام سے 1268ھ مطابق 1852 کو واجد علی شاہ کے عہد میں لکھا۔ ڈراما اندرسبھا پہلی بار 1270 ھ مطابق 1854 میں کھیلا گیا لینی اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
اندرسبھا پہلی بار 1271ھ مطابق 1855 میں شیخ رجب علی کی فرمائش پر مطبع محمدی لکھنوی میں شائع ہوا۔
ناقدین نے اندرسبھا کواردو کا پہلا باضابطہ ڈراما تسلیم کیا ہے ۔ اندر سبھا ایک مکمل منظوم ڈراما ہے جس کے مکالمے بھی منظوم ہیں ۔ اس تمام نظم کو اس دور کی مقبول عام راگ راگنیوں میں ادا کیا گیا ہے۔
اندر سبھا کے جواب میں کئی اندر سبھا میں لکھی گئی ہیں حالانکہ ڈرامے کے نام کے طور پر سب سے پہلے لفظ اندرسبھا کا استعمال آغا حسن امانت لکھنوی نے اپنے اس ڈرامے کے نام کے لیے کیا تھا۔ بعد میں ہر ڈرامے کو اندر سبھا کہا جانے لگا تھا ۔ اندر سبھائیں پندرہ گیت ہیں ۔
ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے کہ اندر سبھا جب لکھنو میں کھیلا گئی تو لوگوں نے اس نئی چیز کو بہت پسند کیا۔ ہرطرف اس کا چہ مچا ہونے لگا۔ اس نے ہمارے ڈرامائی ادب کو اسی کا راستہ دکھایا اور وقت کی شاہراہ پر ایسی مشعل جلائی جس کی روشنی میں اردو ڈرامے اور تھیٹر کا کارواں چل پڑا۔ آنا حسن امانت کے اس ڈرامے میں اندر کی جھا کا تصور جو اس کہانی کا بنیادی تصور ہے اور جس پر پوراقصہ قمیر ہوا ہے ہندو دیو مالا سے لیا گیا ہے جو اس وقت عوامی قصے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ اندر سبھا میں سبز پری کی آمد کے بعد سے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں (سواۓ جوگن والے قصے کے زیادہ تر مثنوی سحرالبیان اور گزارنی میں مل جاتے ہیں۔ ی امانت نے اپنی اندرسبھا کا قصہ مثنویوں ، داستانوں اور اس وقت کے مروج عوامی قصے کہانیوں سے لیا ہے۔ڈراما اندر سبھا کا پلاٹ بڑا گہرا سادہ ہے ۔