مرزا محمد رفیع سودا
میرزا رفیع سودا، نام پیدائش مابین 1118ھ و1120ھ مطابق 1705, 17088، بزرگوں کا پیشہ سپہ گری تھا۔ باپ سبیل تجارت ہند وستان وارد ہوئے تھے سودا پہلے سلیمان علی خاں و داور بعد کو شاہ حاتم کے شاگرد ہوۓ خان آرزو کی صحبت سے بھی فائدے حاصل کیے ۔ خصوصا اردو میں شعر گوئی انہیں کے مشورے سے شروع کی ۔ محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں مرزا رفیع سودا کی شاعری بہت عروج پر تھی کئی روسا کے ہاں ان کی بہت قدر ہوتی تھی۔ خصوصاً جو قابل ذکر ہے تاریخی حوالوں سے وہ ہے بسنت خاں خواجہ سرا و مہربان خان زیاد و مہربان تھے ۔ جب احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے حملوں سے و بھی تباہ و برباد ہو گئی تو سودا نے باہر کا رخ کیا۔ 1134ھ مطابق 17211ء میں عمادالملک کے پاس متھرا گئے۔ پھر اسی سال فرخ آباد میں نواب مہربان خاں امید کے یہاں تقریبا 22 برس رہے ۔
وہاں سے 1182ھ ، 17700 میں نواب کے انتقال پر شجاع الدولہ کے زمانے میں فیض آباد پہونچے پانچ سال بعد جب آصف الدولہ تخت نشیں ہوئے اور اپنا پایہ تخت لکھنو میں منتقل کیا تو یہ بھی ان کے ہمراہ لکھنؤ آ گئے یہاں ان کی زندگی بافراغت بسر ہوئی بچہ مزار (6000) روپے سالانہ مقرر تھے۔ تقریبا 76 برس کی عمر میں 4 رجب ( جمادی الثاني) 1195ھ 1781 میں انتقال ہوا۔ مصحفی فخرالدین اور قمرالد ین منیت نے تاریخیں کہیں۔ ان کی کلیات میں 3 4 قصیدے رؤسا اور ائمہ اہل بیت و غیر و کی مدح میں میں ان کے علاوہ جو میں ، مراثی مثنویاں ،رباعیاں، مستزاد قطعات ، تاریخیں پہیلیاں ، واسودت و غیره سب چین میں موجود ہیں ، نٹر میں ایک تذکر دارد و شعراء کا لکھا تھا جواب ناپید ہے۔ فارسی نثر میں ایک رسالہ عبرت العائلدین فائر کیکسن کی کارستانیوں کے جواب میں لکھا ہے چیز میں اس زمانے کے معیار تنقید شعر د کھانے کے لیے اہم چیز ہے ایک اور رسالہ سبیل ہدایت تلقی کے مرشے پر لکھا فارسی کا بھی ایک تہو نا دیوان موجود ہے۔ "سودا کا غزل گوئی میں کوئی خاص رنگ نہیں ہے وہ اس میدان میں طرح طرح سے طبع آزمائی کر تا ہے غزل کی جہان صفائی زبان اور سادگی بیان ہے۔
سودا نے غزل میں اس کا بہت کم خیال رکھا ہے اس نے غزل میں فارسی کے مشہور اساند و نظیر کی صائب اور سلیم و کلیم کارنگ اختیار کیا۔ یہ شعر اصاحب طرز ہوۓ ہیں ان کی خصوصیات اردو میں آسانی اور سہولت سے نہیں نہچھ سکتی تھیں۔ اور مخصوصا ایسے زمانے میں جب کہ اردو ابتدائی اور سیال حالت میں تھی اور اس کی تکمیل ہو رہی تھی ۔ اس لیے سودانے نزلوں میں قصیدوں کی زبان استعمال کیے جس میں عربی فارسی ترکیبوں کی بہتات ہے اور قصیدے کی طرح غزلوں میں بھی سنگلاخ زمینیں اختیار کی ہیں یہی وجہ ہے کہ غزل کے مضامین کے اصل جوم کو پیچیدہ اور کسی قدر مشکل طرز نے چھپادیا اور عام مقبولیت سے محروم کر دیا جو لوگ سودا کے اس انداز کو سہولت سے قبول نہیں کر سکتے تھے،
انہوں نے اس کی غزل کو قصیدے کے مقابلے میں پت کہہ دیا ہے ۔ سودائے خود اس طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوب ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا سودا کو تم سمجھتے تھے کہہ نہ سکے گا یہ غزل آفر میں ایسے و ہم پر صد ستے میں اس گمان کے آخر میں ایسے و ہم پر صدقے میں اس گمان کے سودا کی غزل گوئی کے متعلق یہ غلط منجی دراصل اس کے طرز بیان کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اسی زمانے میں میر جیسا بلند پایہ غزل گو استاد موجود تھا جس کی صاف و سلیس زبان میں نفخہ سرائی نے خاص و عام کو گردید و بنالیا تھاوہ نہایت مترنم بحر میں بھی استعمال کرتا تھا ان بحروں میں اس کی جو غزلیں ہیں وہ خاص طور سے بہت دلچسپ ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری سود اور میر کی غزل گوئی کا جو مقابلہ و موازنہ کیا جاتا ہے اس نے بھی مرزا رفیع سودا کی غزل کے حق میں بے شمار غلط فہمیاں پیدا کردی ہیں اور وہ یہی وجہ تھی کہ مرزا رفیع سودا غزل کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزل میں میر و سود کا موازنہ اصول صحیح کبھی نہیں ہو سکتا۔
میر کی المر پرست طبیعت کو سودا کے ہمہ گیر مزاج سے کوئی مناسبت نہیں میر کا ایک خاص رنگ ہے ۔ اس کی دنیا ہی الگ موازنہ کی خاطر اسے کسی اردو کے شاعر کے مقابلے میں لا کھڑا کر نا اس کی توہین ہے " عبد السلام کے نزدیک سودا کے کلام پر عمومی حیثیت سے مرزا رفیع سودا کے بارے میں جو رائے مولانا محمد آزاد نے دی ہے وہ صائب صداقت پر مبنی ہے اور اس پر کسی مذید اضافے کی ضرورت نہیں ہے نہیں ہوسکتی۔
آزاد لکھتے ہیں:
اہل سخن کا اتفاق ہے کہ مرزا اس فن میں مسلم الثبوت تھے وہ اسی طبیعت لے کر آئے تھے جو شعر اور فن انشاہی کے واسطے پیدا ہوئی تھی۔ کے ان کا کام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس پر سب رنگوں میں ہم رنگ اور ہر رنگ میں اپنی ترنگ جب دیکھو طبیعت شورش سے بھری اور جوش و خروش سے لبریز نظم کی سر فرع میں طبع آزمائی کی ہے اور کہیں رکے نہیں چند صنعتیں خاص ہیں جن سے کلام ان کا جملہ شعرا سے مناز ہوتا ہے اول یہ کہ زبان پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہیں کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریباں ہے جیسے آگ کے شھنے میں گرمی اور روشنی بندش کی چستی اور ترکیب کی درستی سے لفلوں کو درد است کے ساتھ پہلو بہ پہلو جڑتے ہیں گو یا ولایتی طمنچے کی جانیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ خاص ان کا حصہ ہے چنانچہ جب ان کے شعر میں سے کچھ بھول جائیں تو جب تک وہی لفظ وہاں نہ رکھے جائیں شعر مزاری نہیں دیتا خیالات نازک اور مضامین تازہ باندھتے ہیں مگر اس بار یک نقاشی پر ان کی فصاحت آئینے کا کام دیتی ہے تشبیہ و استعارے ان کے ہاں میں مگر اس قدر کہ جتنا کھانے میں نمک یا گلاب کے پھول پر رنگ رنگینی کے پردے میں مطلب اصلی کو کم نہیں ہوئے ہے۔
ان کی طبیعت ایک ڈھنگ کے پابند نہ تھی ، نئے نئے خیال اور چلے قافیے جس پہلو سے بہتے دیکھتے تھے ہما دیتے تھے وار وہی ان کا پہلو ہو تا تھا کہ خواہ مخواہ سنے والوں کو بھلے معلوم ہوتے تھے ، یاز بان کی خوبی تھی کہ جو بات اس سے نکلتی تھی اس کا انداز کیا اور اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ہمعصر استاد تھے خود اقرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں وہ اس شخص کو پیش پا افتادہ تھیں ۔
سودا فطرتا میر درد سے مختلف تھے میر و درد آپ بیتی بیان کرتے ہیں ۔ سوداچک بیتی اس لیے میر ودرد کے یہاں وحدت سے اور سودا کے یہاں کثرت سودا کی تماشائی نظر میں دنیا وسیع اور بو قلموں نظر آتی ہے۔ میر کے یہاں محدود یک رنگ لیکن گہری سوداء میر کے فرق کایم الدین صحیح لکھتے ہیں۔ میر کی آنکھیں دل کی طرف جھلی ہوئی تھیں دواپنے جذبات و کوائف کے نظارے میں مستغرق رہتے تھے ایسے ہمہ تن محو که دنیا و مافیہا کی اکثر خبر نہ ہوتی۔ سودا کی آنکھیں وا تھیں وہ دنیا کی بو قلمونی کا مشاہدہ کرتے تھے اس لیے ان کی دنیا میر ودرد کی دنیا کی طرف محدود و تنگ نہ تھی ۔۔۔ تاثیر سے معمور اشعار سودا کے اشعار میں ملتے ہیں لیکن ان کی تاثیر دل کی گریاں گیر نہیں ہوتی۔ میر کام لفظ ایک مستقل درد ہے اور ہر شعر ایک ناسور سودا کے اشعار میں یہی بات موجود نہیں اس کے اشعار میں عالم کے مختلف رخ کی تصویر میں ہیں۔ سودا کی تصویر میں نگاہوں کو خیر و کرتی ہیں۔ میر کے شخصی جذبات کی حسرت افترا تصویر میں دل میں جاگزیں ہوتی ہیں ۔ سودای خاری نقطہ نظر کے باعث شعر کے نظام کی حسن پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس حیثیت سے سودا کی غزل اردو میں بہت انچی ثابت ہو گی۔ انتخاب لفظ ، بندش ، ترکیب اور تشبہیوں میں بھی پختہ کاری اور ندرت موجود ہے۔ میر اور درد کے یہاں جو سوز و گداز ہے اس کی بجائے سودا کے یہاں زور کلام اور شور بیان نظر آتا ہے اور اسی باعث غزل ان کے لیے محد در نظر آتی ہے ۔ باجود ے کہ دور واج ترمانہ سے مجبور ہیں لیکن کبھی مسلسل قزلوں اور قطعوں اور زیادہ تر قصائد کو اپنے احساسات و تجربات کی افراط کے لیے ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ قصائد میں سودا یہ نسبت غزل کے زیادہ آزاد ہیں ان کی ہنگامہ آرا اور پر نور طبیعت کے لیے یہ زیادہ موزوں بھی ہے۔
ان کی جودت طبع اور ان کا در تحصیل قصائد میں وسیع تر میدان پاتا ہے۔ یہاں غزل کے قیود کی جکڑ بندیاں نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ غالبا ہے وسیع آزادی ان کو قصائد میں اکثر بے عناں بھی بنادیتی ہے۔ طوالت کے باعث شہب میں ان کی تصویراں مکمل ہونے کے باوجود بھی و صندلی نظر آتی ہیں۔ مدح اور دعا کے حصوں کو چھوڑ کر جن میں رسمی مبالغہ آمیزی موجود ہے ان کی تشبیہیوں پر نظر ڈالی جائے تو تاز گی خانگی، گرمی تھیل، رنگینی جذبات ، فرض که طرح طرح کے تنوع نظر آئیں گے ساتھ ہی فن کارانہ خصوصیات بھی اپنی جگہ پر ہیں پر شكو الفاظ دل کش اور نادر بند تھیں ، نرالی تشبیہیں اور استعارے علو خیاں کے ساتھ تنزادک خیال اور پھر ان کا زور بیان جس سے بہ قول کلیم "سامعہ مرعوب اور دماغ متحیر ہو جاتا ہے ۔ ان تمانچیزوں نے سودا کو قصائد میں انور بنادیا۔ سودا نجو گوئی میں بھی اردو میں اول درجہ رکھتے ہیں لیکن ذاتیات کا عنصر غالب ہے۔
مبالغہ آمیزی مخش کلامی بے جا طواب اور گمرار لطف کم کر دیتی ہے ورنہ ہے دریغ طنز اور ظرافت کا مادوان میں بدرجہ اتم موجود تھا بجائے ذاتی انتقام کے کسی عام کمزوری کو لے کر اور اپنے شکار کو اس میں مثال کے طور پر پیش کرتے تو ان کی ضرب اور بھی کاری پڑتی ظرافت کا لطف بھی دونا ہو جاتا اسی لیے جہاں کہیں تخلیقی کردار پیش کیے ہیں (مثلا مثنوی در جوامیر دولت مند بخیل ) وہاں تصویر زیادوا بھی کھینچی ہے اور جہاں انہوں نے موضوع عام رکھا ہے کوئی خاص شخصیت پیش نظر ہے ۔ ( مثلا قصید شہر آشوب، مخمس شهر آشوب، مثنوی در بجر ، شیدی فولاد خاں کو توال ) وہاں ان کی قوت بیانیہ اپنا موزوں ترین اسلوب اختیار کرتی ہے۔ قصیدے کی شان و شوکت کے بر خلاف ایک و کنش سادگی اور روانی کے ساتھ اپنے تنوع خیال کو رنگ رنگ سے اور نہایت آزادی کے ساتھ پیش کرتے جاتے ہیں اور جڑوی باتیں بھی نہیں چھوڑتے ان کے قصائد میں فارسی کا پر تو ہے لیکن ان کی جو میں ان کے خاص اپنے ڈھنگ کی ہیں اگر وہ بیانیہ نظم پر اور زیادہ توجہ دیتے تو اردو ادب مالامال ہو جاتا۔
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
سافر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
ایک افغان تاجر کا بیٹا، جمع تفریق کے ماحول میں تخیل کے گھوڑے دوڑاتا اور بقول آتش مرصع سازی میں نام پیدا کرتا ہے۔ اردو قصید و اکاری میں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ سودا کی طلبیت اور مزاج سے یہ صنف گیری مناسبت رکھتی تھی، تمام نقادوں نے ان کی قصیدہ نگاری کو سراہا ہے ۔ سودا ایک قادر الکلام شاعر تھے انہوں نے غزل بھی کی اور اس میں ان کا مقام سلمی اور معمولی نہیں ہے ، وہ چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے سوزند گی عیش و طرب میں گزرتی تھی امیروں کی صحبتیں میسر تھیں اس لیے کسی کے عشق جانگداز میں میر کی طرح آنسو نہیں بہاۓ ان کے کلام میں سوز و گداز پورہ غم کی گہری ٹیمیں اور مختگی تو نہیں جو میر کی غزلوں کا خاصا ہے اس کے باوجود سودا کی غزل جاندار ہے۔
مودا جو تراحال ہے اتنا تو نہیں ہو
کیا جانیئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
سودا نے مروجہ شعری رنگوں کو کامیابی سے نبھایا ہے ، سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا، مشکل قافیوں اور رویوں کو باندھتا ، صنائع بدائع کا فنکارانہ استعمال ان کی غزلوں میں عام ہے ، شوکت الفاظ و خیال ، لہجے کی بلند آنجلی جیسی قصیدے کی خصوصیات ان کی غزلوں کو منفرد بناتی ہیں ان کے ہاں عشق و محبت ، ہجر و وصال اور داخلیت کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔
جس روز کسی اور پے بیداد کرو گے
یہ یاد ر ہے ہم کو بہت یاد کرو گے
ول کے ٹکڑوں کو نقل کے لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
عشق سے تو نہیں ہوں میں واقف
دل کو شعلہ سا لیپٹتا ہے
سودا کا نام مرزامحمد رفیع اور سودا شخص تھا، ان کے والد کابل سے تجارت کی غرض سے دہلی آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ کار و بار کافی اچھا تھا
اسی لیے فارغ البالی کی زندگی بسر کی۔ شاعری کا ذوق فطری تھا، شروع شروع میں فارسی میں طبع آزمائی کی مگر جلد ہی اردو کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سودا نے پہلے پہل سلیمان علی خان سے اصلاح کی بعد میں شاہ حاتم کے شاگرد ہوۓ پھر خان آرزو کی صحبت سے بھی فائدہ اٹھا یا، کئی بادشاہوں اور روسا کے ہاں ان کا آنا جانا تھا خوب قد رو منزلت بھی ہوتی تھی۔
شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے حملوں سے دہلی تباہ ہو گئی تو سودافرخ آباد میں نواب خان رند کے پاس چلے گئے چار سال بعد لکھنو میں آصف الدولہ کے ہاں منتقل ہو گئے ان کی زندگی ابتدا سے آخر تک باقراعت بسر ہوئی ، لکھنو میں چہ مزار سالانہ وظیفہ مقرر تھا۔ قصیدے مرتے ، مثنویاں ، رباعیاں، شہر آشوب ، قطعات ، تاریخیں، پہیلیاں ، واسوخت ، مستزاد، ہو۔ کلیات اور غزلیں سب اصناف سودا کے ہاں موجود ہیں ، فارسی نثر میں ایک رسالہ "صحبہ الغافلین " لکھا، ایک فارسی دیوان بھی یادگار ہے۔
تجھے قید سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
لذت کواسیری کی کر یاد بہت رویا
مرزا محمد رفیع سودا اردو شاعری کے ایک دیو پیکر تخلیق کار تھے۔ اردو شاعری میں طنز و مزاح کے حوالے سے ان کی تحقیقی کامرانیوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ ان کی مشہور نظم “ آئین دادری" اردو کی پہلی سیاسی نظم سبھی جاتی ہے ۔ مرزا محمد رفیع سودا نے زندگی کی ناہمواریوں بے اعتدالیوں اور تضادات پر گرفت کی ۔ ان کی ظریفانہ شاعری میں اصلاح اور خلوص کا جذبہ پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ سودا کو ہجو گوئی میں جو کمال حاصل ہے اس کا ایک منظر د روپ پیش خدمت ہے۔