اردو کے فروغ میں مسلمانوں کا کردار
زبان انسان کے لیے اللہ تعالی کا ایک تحفہ بے بدل ہے جس کا اوتار کوئی شے نہیں ہو سکتی۔ انسانی زندگی میں اس کا کردار واضح اور مین ہے ۔ زبان نے انسان کو معرفت خداوند کریم سے آشنا کیا ہے ۔ زبان کی کوکھ سے شعر وادب ، فلسفہ ، سائنس کی ایجادات اور باہمی تعارف و پہچان نے جنم لیا۔ انداز زیست اور تعلقات باہمی کا سبق ہمیں زبان نے دیا ہے ۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان حیوان ناطق ہے ۔ بالکل اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کی بقا کا سیب زبان میں مخفی ہے ۔ زبان انسانوں سے زندہ ہے اور انسان زبان سے زندہ ہیں۔ اگر ان کا آپس کا تعلق ختم ہو جائے تو دونوں کا نتیجہ بات ہے ۔
ذکر الہی جو اطمینان قلب و نظر ہے وہ بھی زبان کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ انسان اور زبان کا آپس میں رشتہ کیسے بنا، انسان اور زبان کس طرح ایک دوسرے سے آشنا ہوئے ۔ کیا انسانی زبان کا ماخذ ایک ہے ۔ جب اصل ایک مان لی جاۓ تو زبانوں کا تنوع کیسے وقوع پذیر ہوا۔ ان میں اجنبیت اور تفاوت کا سبب کیا ہے ؟از بانوں کے خاندان اور ان کی پہچان کہ کوئی زبان کس خاندان کی پروردہ ہے ۔ پولیاں ، ٹولیاں اور لیے کیو نکر وجود میں آۓ۔ نیچے اور بولی کی ضرورت زبان کے ہوتے ہوۓ کیوں در آئی ۔انہ بان کی ترقی قوموں کی ترقی کا سبب ہے ۔ زبان ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم نہاں خاص دل کے لطیف اور خفیف مہذبات کا اظہار کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔
اگر زبان کا خیر والفاظ وسیع تر ہو گا تو اس زبان میں جذبات کا ابلاغ آسان ہو گا۔ زبان کے دامن کی الفاظ کو پناہ ملتی ہے اور اس طرح دوسری از بانوں کے الفاتل اس کے اندر وسعت پذیری کا سبب بنتے ہیں۔ جس سے اس کا دامن افہام و تفہیم میں وسعت پذیر اور ہمہ گیر ہوتا ہے اور اس زبان میں علم وادب کا سرمایہ فروغ گیر اور نمو پذ یر ہوتاہے اور اس اور باسئے ادب کو حتم علم وادب اور نفل ادب کے پروان چڑھانے کے وقیع مواقع ملتے ہیں۔ معاشرے کا زبان پر اور زبان کا معاشرے پر کیا اثر پڑتاہے ؟ معاشرے میں مختلف طبقات کی زبانوں میں فرقی کی نوعیت کیا ہے ؟ انسانی زبان اور فکر انسان میں کیا قدر مشترک ہے ۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں۔
زبان کا استقلال اور آئندہ کی زندگی چار ستونوں کے استقلال پر منحصر ہے۔ قوم کا ملکی استقلال سلطنت کا اقبال ،اس کا مذہب اور تعلیم و تہذیب اگر یہ چاروں پاسبان پورے زوروں سے قائم ہیں تو زبان بھی زور پکڑتی جائے گی۔ایک باز یادہ متنے کمزور ہوں گے اتنی ہی زبان ضعیف ہوتی جاۓ گی۔ یہاں تک کہ مر جائے گی۔ ہر زبان وسیع تر دامن کی متحمل ہوتی ہے جس میں متعلقہ قوم کی تہذیب و تمدن اور تاریخ و روایات اور رہن سہن کے طور طریقے اور سماجیات کا وسیع ذخیر ہ پوشید ہ ہو تا ہے ۔ ہر محلے کی زبان اس کا شخص اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ قومی زبان اور شخص میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زیر نظر مضمون میں اردو کے فروغ میں مشاہیر ادب کا کارہائے نمایاں کی نسبت جائزہ لیا جاۓ گا۔ اس تحریر سے میری یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ اردو کے فروغ واشاعت میں صرف اور صرف مسلمانوں نے ہی کام کیا ہے اور دوسری قوموں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔
رتن ناتھ سر شار ، مالک رام ، نول کشور ، منشی پریم چند ، ہری چند اختر ، تلوک چند محروم ، پنڈت و یاشنکر نسیم ، نے و ، سری رام ، چپلیست کرشن چندر ، رام بابو سکسینہ ، منشی تیرتھ رام فیروز پوری، دیوان سنگھ مفتون، فراق گورکھپوری، گیان چند ، آنند نرائن ملا، راجندر سنگھ بیدی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ، مستر سروجنی نائیڈو جیسے اہل قلم کی اردوزبان وادب کے بارے میں خدمات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے؟ لیکن کی اور سچی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس ضمن میں سب سے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسری قوموں نے اس زبان کو من حیث القوم نہیں اپنایا کیوں کہ ان کے پاس وسیلۂ اظہار کے لیے دوسری دلیری زبانیں بھی موجود تھیں جنھیں انھوں نے بوقت ضرورت استعمال بھی کیا ہے لیکن مسلمانوں نے من حیث القوم ہندوستان کی سینکڑوں زبانوں میں سے صرف اسی ایک زبان پر قناعت کی اور اپنے خیالات کے اظہار کا واحد بھر پور اور موثر وسیلہ بنایا۔
اسلام ایک طریق حیات ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو محیط ہے۔ عربی زبان اسلامی احکامات کی امین ہے ۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے کلمات و مغروات کا ایک بحر زخار موجود ہے جس نسبت سے یہ کلمات بر صغیر کی مقامی زبانوں میں داخل ہوتے گئے ، اسی نسبت سے ان کا عربی زبان سے قرب بڑھتا گیا۔ یہ ان مشاہیر ادب کی محنت کا پھل ہے کہ بر صغیر پاک وہند کے عوام اپنے دین سے محبت کرنے والے ہیں اور تبد سی و تمدنی اقدار کے حوالے سے اپنے عرب بھائیوں سے بہت قریب ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں اردو ہماری گزشتہ عروج عقلمت کی تنہا یاد گار یا سوگ وار ہے ۔ مسلمانوں نے نہ صرف اردو کی بنیادرکھی بلکہ اس کی تمام تدر سی اور ارتقائی منازل میں انہی کا ذہن و دماغ کار فرما ہے ۔ کسی قوم کے اولین آثار انحطاط کا مطالعہ کر نا ہو تو اس قوم کی زبان پر نظر ڈالیے ، آپ پر یہ حقیقت حبلد منکشف ہو جائے گی کہ قومی زوال کی ابتداء ہمیشہ زبان کے زوال سے ہوئی ہے ۔ " جب سے مسلمانوں نے بر صغیر میں قدم رکھا اسی وقت سے مقامی زبانوں پر بندی و فارسی کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب اردو کو اپنے لیے چن لیا تو اس میں عربی و فارسی سے دخیل الفاظ کا حصہ بھی زیادہ ہو گیا۔ بر صغیر کے مسلمانوں کی اپنی سماجی زندگی کا ایک خاص پیچ تھا اور زندگی کے ساتھ رسوم ورواج اور کچھ تقاضے بھی تھے۔ مسلمانوں نے اپنی ظاہری و باطنی اور انفرادی واجتماعی زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی اور ترجمانی کا اہل بنانے کے لیے اردو زبان کو عربی و فارسی کے کثیر تعداد الفاظ ، اصطلاحات ، محاورات، تلمیحات اور اسالیب بیان عطا کر دیے ۔
مختلف اصناف مثلا غزل ، قصید و، مثنوی، ربائی و غیر و کا اضافہ کیا گیا۔ شعری تنقید کا انداز مستعار لیا گیا۔ مسلمان علماء نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا اور تقاریر لکھیں ، قرآن و حدیث ، فقہ سیرت ، تصوف ، اسلامی فلسفے اور تاریخ کے سرمائے کو اردو میں منتقل کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ولی زبانوں میں اردو ہی دوا کیلی زبان تھی جسے اکبر راج میں اس کے محل والوں نے اپنا لیا تھا، جسے شاہ جہاں نے ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچادیا تھا اور جسے ۱۸۳۲ء میں انگریزوں نے فارسی کی جگہ سرکاری زبان بھی بنادیا تھا۔ یہی زبان آج پورے بر صغیر کے طول و عرض میں سب زبانوں سے زیادہ بولی جاتی ہے ۔
اس میں بلتنا اسلامی ادب موجود ہے اتنا عربی وفارسی میں بھی مشکل سے مل سکے گا۔ اردو میں جو کچھ مواد اسلامی علوم اور عربی و فارسی زبان وادب سے متعلق ہے اس کی تہ میں مسلم ہند کی تاریخ اور تہذیب کے معتبر شواہد ملیں گے ۔ لاہور ، ملتان ، دہلی، گجرات اور لکھنو و غیر و مراکز ایسے تھے جہاں ہندوستان اور بیرون ہند کے علماء و فضلاء علوم کی تحقیق دند قیقی میں معروف ہوۓ۔ یہ روایت صدیوں تک قائم رہی۔ اسی وجہ سے دہلی جو دار السلطنت تھا۔ اس نے علمی اور تمد میں ترقی کے اعتبار سے بغداد اور قرطبہ کو بھی و ہند لا کر دیا۔ ڈاکٹر تاراچند لکھتے ہیں ۔ نئی زبان (اردو) میں اس شدید قسم کی کشش تھی کہ اس نے جلد ہی عوام میں قبولیت کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔
پھر مسلمان صوفیا نے اس زبان کے ذریعے اسلام کو پھیلا ناشروع کیا تو یہ اور بھی مقبول ہو گئی لیکن انیسویں صدی کے آغاز میں اردو کی پی مقبولیت انتہاء پسند ہندوئوں کو انتہائی ناگوار گزری۔ زبان اور رسم الخط کا تعلق بھی روح اور قالب سے کم نہیں ۔ رسم الخط تلفظ کا تابع ہو تا ہے اور اس کا ہر حرف ایک جداگانہ آواز کی نیابت کرتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ ابتد از بان صرف اصوات کا نام ہوتا ہے اور اشکال ثانوی حیثیت رکھتی ہیں لیکن حروف اپنی الفاظ کی یہ کہ رکھ تحریری شکلیں بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہیں جتنی کہ ان کی آواز میں ،زبان اور رسم الخط کا مکمل اور مناسب اجتماع دامتزاج زبان کو زندہ اور بناتا ہے اس لیے کسی زبان کو اس کے رسم الخط سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ زبان رسم الخط کے بغیر مکمل نہیں ہوتی بلکہ ادھوری رہتی ہے ۔
برصغیر میں اردو ہندی تنازع کا اصل محرک رسم الخط کی تبد یلی تھا۔ ہند وار دوزبان کے لیے دیو ناگری رسم الخط رائج کر ناچاہتے تھے اگر ایسا ہو جاتا تو مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی ، معاشرتی روایات اور شہد میں ثقافتی سرمائے سے دست بردار ہونا پڑتا۔ اردورسم الخط ایک مبسوط تاریخ رکھتا ہے ۔ رسم الخط قوموں کے لسانی مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس سے ایک قوم کے مخصوص تہد ہی نقوش کا پتہ چلتا ہے جب تک اردو زبان دیو ناگری میں قلم بند ہوتی رہی۔
ہمالیہ کی فصیل پار نہ کر سکی لیکن عربی و فارسی رسم الخط میں منتقل ہونے کی دیر تھی کہ اسے ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر ایران و عربستان کی زبانوں اور ان کے بولنے والوں سے تعارف و ملاقات کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔ فورٹ ولیم کاج و دواحد ادارہ تھاجہاں سب سے پہلے پنڈت للولال بی نے اردو ہندی تنازعے کا آغاز کیا۔ انگریزوں کی پالیسی "لڑا کو اور حکومت کرو" ان کے روز اول سے ہی کار فرما تھی۔ ہندوئوں کو اردوزبان اس لیے نا گوار تھی کہ اس کا ظاہری پیکر فارسی اور عربی تھا اور وہ مہاتما گاندھی کے بقول قرآن کے حروف اور اسلوب کا مالک تھا اور یہ بات تکلیف دہ تھی کہ اردو نیند کی شکل قرآن کی زبان سے ملتی جلتی تھی۔ شیخ محمد اکرام ہندوئوں کی اردو سے مخالفت اور ناگواری کے حوالے سے لکھتے ہیں ! انیسویں صدی کے شروع میں افورٹ ولیم کالج میں للولال کی اور ان کے ساتھیوں نے نئی ہندی اس طرح پیدا کی کہ اردوزبان سے تمام عربی اور فارسی کے الفاظ نکال دیے اور سنسکرت کے ہندی مآخذ کے الفاظ شامل کر لیے ۔
اردو زبان عربی رسم الخط کی حامل تھی اور یہ آہستہ آہستہ پورے بر صغیر میں رابطے کی زبان بن گئی ۔ چنانچہ ۱۸۳۵ء میں فارسی کی جگہ اردو کو عدالتی زبان بنادیا گیا۔ گویا یہ اقدام مسلمانوں کی سیاسی اور توافق حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ انیسویں صدی کے پہلے رابع میں شاہ عبد القادر دہلوی کے اردو زبان میں سادو ترجمہ قرآن کو بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے تو وہ جل بھن گئے۔ لہذا انھوں نے اردو کو بھی مسلمانوں کی طرح نیچے قرار دے دیا۔ ۱۸۸۲ء میں انٹر ایجو کیشن کمیشن " کی تقلیل کے موقع پر ہندوئوں کو دو بار وار دوز بان کو نقصان پہنچانے کا موقع میسر آیا۔
اس بار یہ فتہ پنجاب اور یوپی میں اٹھا۔ سر سید اردو کی حفاظت کے لیے آگے بڑھے اور ہنٹر کمیشن کو باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ یہ مسئلہ اسانی کی بجائے سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے۔ میکڈائل مسلمانوں کے بارے میں بہت منتصب تھا اس سے مسلمانوں سے غداری کی بو آتی تھی۔ یوپی کے مشہور متعصب وزیر تعلیم مسٹر سمپور ناشند نے اپنی اردود شمنی کا بڑا سبب میں بتایا تھا کہ جب میں گھر گیا تومیری لڑکی نے جگوان کی بجائے خدا کہا" مسلمانوں کے عقیدے کے الفاظ اردو زبان کے ذریعے ہندوئوں کے دماغوں میں داخل ہو گئے اور اس سے ان کے مذہبی عقیدے متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔ مسلم لیگ کے چوتھے اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ ہندوئوں کا جس طرح اسلام سے کوئی تعلق نہیں اس طرح ان کا اردو سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔
۱۹۳۷ء میں کانگریسی وزارتوں کی تقلیل ہوئی تو تمام بند و صوبوں کے وزرائے اعلی برہمنوں کو بنادیا گیا۔ اب یہ حال ہو گیا ہے کہ ڈاک خانے والے اردو میں تحریر کر دو منی آردار بھی قبول نہ کرتے اور خطوط کو مکتوب الیہ تک پہنچانے سے انکار کر دیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اردو کو پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتے تھے۔ انھیں اردو کی اہمیت اور قوت کا اندازہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پاکستان اور اردوزبان ، دونوں کا بیک وقت مقدمہ لڑا۔ مصور پاکستان نے بھی اردو وہ ستی کا حق خوب نبھایا۔
باباۓ اردو مولوی عبدالحق نے ۱۹۳۱ء میں اردو کا نفرنس منعقد کی باصرار علامہ محمد اقبال کو شرکت کی دعوت دی۔ علامہ پیار تھے ۔ آپ نے جواب لکھا گرار دو کا نفرنس کی تاریخوں تک میں صحت یاب ہو گیا تو انشاءاللہ ضر ور حاضر ہوں گا۔ اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس معاملے میں کلیتا آپ کے ساتھ ہوں۔ مسلمانوں نے پشاور و کشمیر سے لے کر راس کماری تک اور سندھ بلوچستان سے لے کر پہل اور آسام تک اپنے قول و فعل سے اردو کی اس عمومی اور اجتما کی حیثیت کو جانا اور مانا ہے ۔ اس لیے سردار عبدالرب نشتر نے کہا تھا: "واقعاتی اور تاریخی نقطہ نگاہے بہ حیثیت اردو ہی کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی قومی زبان ہے ۔ اپنا علیحدہ وطن بنائیں ۔ ان میں سے ایک اہم چیز یہ تھی کہ ہم اردو کواغیار کی دست برداری سے محفوظ کر دیں۔ روایات کی سرمایہ دار ہے۔
مدیر اولی اور مولاناصلاح الدین اردوزبان کے تاریخی کردار کے بارے میں لکھتے ہیں ۔اردو ہمارے باہمی ارتباط کی سب سے مؤثر اور زندہ جاوید زبان ہے ۔ ہمارے ہزار سالہ تمدن کی امین اور ہماری مذہبی ثقافتی اور علمی روایات کی سرمایہ دار ہے ۔
پروفیسر غازی علم الدین لکھتے ہیں :
"میرے نزدیک اردوزبان ، اس کا رسم الخط اور املاہ عقیدے کا مسئلہ ہے ۔ بر صغیر میں اردو کسی کی مادری زبان ہو یانہ ہو یہ ہر مسلمان کی مذہبی اور ثقافتی زبان ضرور ہے اور عربی و فارسی کے بعد اسلامیان ہند کی واحد ترجمان ہے "۔ میرے خیال میں اردوزبان شروع سے لے کر آخر تک بلکہ ہمیشہ ہی ہمارے لیے ایک واحد اظہار کاذریعہ ہے جس سے ہم اپنے من و من خیالات، احساسات اور تصورات کو لفظی پیکر میں بیان کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔